اللہ سائیں مینہ وسا


ہمارے گاؤں اور بادلوں میں ان بن سی رہتی تھی۔ تبھی بادل گاؤں میں کم کم ہی آتے تھے۔ کبھی بھولے سے آ نکلتے تو اکثر بن برسے ہی لوٹ جاتے۔ کبھی کبھار یوں امڈ کے آتے لگتا کہ جل تھل کر دیں گے۔ ایسی کالی گھٹائیں اٹھتیں کہ دھوپ سے بھرے دن میں بھی رات سا اندھیرا چھا جاتا۔ پھر بھی بادل چھٹ جاتے تھے۔ جیسے گاؤں میں آکر ایک دم انہیں معلوم ہوتا کہ اس گاؤں میں تو برسات نہیں کرنی۔

گرمی میں جھلسے بدن، لو میں جلتے پیڑ، تنور سی دہکتی زمین سبھی بارش کی تمنا لیے آسمان تکتے رہتے۔ لیکن بادل تھے کہ آنکھ بچا کر ادھر ادھر اٹکھیلیاں کرتے گزر جاتے۔

مجھے یاد پڑتا ہے ایک بار جب پورا ساون سوکھا بیت گیا تو گاؤں کے سبھی مردوں نے ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں اکٹھے ہو کر بارش کے لیے نماز پڑھی اور امام صاحب نے بازو لمبے اور ہتھیلیاں الٹی کروا کر دعا مانگی تھی۔ دعا اتنی لمبی ہو گئی تھی کہ بازو تھک گئے اور کافی سارے نمازیوں نے بازو نیچے کر لیے تھے۔ اس دن بوٹی والے کھوہ کے اوپر سے سیاہ بادلوں کا ہجوم امڈ آیا تھا۔ لگتا تھا کہ دعائیں بارآور ثابت ہوئیں اور بادل دعا مانگتی الٹی ہتھیلیوں پہ ہی برسنے لگیں گے۔ لیکن اس روز بھی گھٹاؤں نے برسنے کا ارادہ ملتوی کر دیا تھا۔

بہت سارے لوگ بارش نہ ہونے کا دوشی ان نامراد نمازیوں کو ٹھہراتے تھے جن کے بازو تھک گئے تھے اور دعا کے لیے پھیلے ہاتھ نیچے کر لیے تھے۔ ذرا سا صبر کر لیتے تو بادل ٹوٹ کے برس جاتے۔

گھر کے کچے صحن میں کبھی چیونٹیاں قطار باندھے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف چلتی رہتیں۔ سفید رنگ کے انڈے اٹھائے چلتی جاتیں۔ جیسے کپاس کے کھیت سے چنائی کرتی خواتین کپاس کی گٹھڑیاں سروں پر رکھے گاؤں کو آتی پگڈنڈی پہ قطار میں چلی جا رہی ہوں۔ ہمارے بڑے کہتے کہ جس دن چیونٹیاں انڈے ڈھوتی ہیں اس دن بارش ہوتی ہے۔ لیکن اکثر ان چیونٹیوں کی محنت بھی رائیگاں جاتی اور برسات نہ ہوتی۔

بادل ہمارے گاؤں سے گزرتے تو ہم بچے کہتے کہ یہ دریا سے پانی بھرنے جا رہے ہیں۔ ستلج گاؤں کے قریب ہی بہتا تھا۔ ہم کہتے ابھی پل بھر میں پانی بھر کر لوٹ آئیں گے اور چھم چھم برسنے لگیں گے۔

جیسے ہی گھنگھور گھٹائیں ہمارے گاؤں کا رخ کرتیں ہم سب بچے گھر کی سلائی مشین پہ سلے کاٹن کے کچھے پہن کر، گندم سے بھری ’بھڑولی‘ کے پیچھے پڑے اسکوٹر کے پرانے ٹائر (جسے ہم ریڑھا کہتے ) اٹھاتے، آگ جلانے کے لیے صحن کی نکڑ میں رکھی کپاس کی چھڑیوں سے فٹ ڈیڑھ فٹ کی چھڑی توڑتے اور باہر گلیوں میں ریڑھے دوڑاتے بھاگتے رہتے۔

ساتھ اونچی آواز میں تان لگاتے جاتے ’سکی لکڑ بھن کڑکڑ، وڈا مینہ آیا‘ ۔ یا پھر بھاگتے بھاگتے یہ کہتے جاتے ’اللہ سائیں مینہ وسا، کھکھڑیاں خربوجے لا، اک خربوجا ڈھے پیا، وڈا مینہ لہے پیا۔‘ ہمارا ماننا تھا کہ جتنی اونچی آواز ہوگی جتنی تکرار ہو گی اتنا زیادہ مینہ برسے گا۔ دوستوں کو بلانے کا اعلان بھی ہوتا تھا۔ سبھی بچے کچھے پہن اپنے اپنے ریڑھے لیے ’ککری والی ہلوائی‘ (کیکر والے کھیت) کے پاس سڑک پہ اکٹھے ہو جاتے۔

زیادہ بچوں کے پاس اسکوٹر کے پرانے ٹائر ہوتے تھے۔ خالد کے پاس گاڑی کا پرانا ٹائر اور امداد کے پاس روسی ٹریکٹر کا چھوٹا ٹائر ہوتا تھا۔ ہم سب ریڑھے لے کر ٹبے پر چڑھ جاتے تھے اور ڈھلان کی چوٹی سے نیچے ریڑھے چلاتے تھے۔ ٹریکٹر کے ٹائر کے اندر باری باری گھس کر، لپٹ سمٹ کر بیٹھ جاتے اور ٹبے سے نیچے سڑک کی طرف ٹائر کو چھوڑ دیتے۔ ٹائر گھومتا جاتا اور ٹائر کے اندر گھسے بچے کے لیے پوری دنیا گھومنے لگتی۔ کبھی زمین اوپر اور آسمان نیچے آتا تو کبھی ہم اوپر اور بادل نیچے دکھائی دیتے۔ زمین و آسمان کو کبوتر کی طرح قلابازیاں لگاتے دیکھنے کا انوکھا مزے دار سا احساس ہوتا تھا۔ جہاں پہیہ جا کر گرتا پہیے کے اندر گھسا لڑکا نکل کر ٹائر کو واپس ٹبے پر لے آتا۔

بارش نہ ہوتی تو ہمارے چہرے لٹک جاتے۔ ہماری دعائیں بادلوں تک نہ پہنچ پاتیں۔ لیکن کبھی تو ہماری امیدوں اور دعاؤں کے نیم جیسے ہرے شجر پر بور لگتا، نمولیاں پکتیں اور پکھیرو چہچہانے لگتے۔

بارش کے سہمے سہمے قطرے گرنے لگتے۔ پھر جیسے ان کی دیکھا دیکھی بادلوں کے سبھی قطرے لپک پڑتے۔ گرمی سے جھلستی دھول پہ بارش کی بوندیں پڑتیں تو مٹی سے سوندھی سوندھی مہک اٹھنے لگتی۔ مٹی کی وہ خوشبو بہت بھلی لگتی تھی۔ ہمارے گریبان میں ماں جو ٹیلکم پاؤڈر چھڑک دیتی تھی اس کی خوشبو سے بھی بھلی۔ بارش کی ٹھنڈی بوندوں سے گویا مٹی کا من کھل اٹھتا تھا۔ خوشی سے چٹخی کلیوں سے خوشبو چار سو پھیل جاتی تھی۔

میگھا زور سے برسنے لگتی۔ ہمارے ریڑھے پھر گیلی مٹی میں نہ چلتے تو ہم ٹبے کی ڈھلان پہ سلائیڈ لیتے رہتے۔ کیچڑ مٹی میں پھسلتے جاتے اور من میں مستی اور خوشی کی پھوار ہونے لگتی۔ ہمارے پورے بدن مٹی سے اٹ جاتے جو موسلادھار بارش مسلسل پھر سے دھوتی جاتی۔

اگر گھر بیٹھے کبھی اچانک تیز بارش شروع ہوجاتی تو گھر میں گویا بھونچال سا آ جاتا۔ گھر کے سبھی فرد چارپائیاں کمروں میں لاتے، تندور پہ ’بٹھل‘ الٹا رکھا جاتا کہ پانی سے نہ بھر جائے۔ چولہے پہ توا الٹا رکھنا بھی ضروری ہوتا۔ سوکھی لکڑیاں آگ جلانے والے کمرے میں رکھی جاتیں اور تار پر سوکھتے کپڑوں کو جلدی جلدی اتارا جاتا۔

برستی بارش میں ہم ٹولی کی شکل میں بانگی کھوہ والے کسان چاچے موندے (محمود) کی جوار کا رخ کرتے۔ بارش میں جوار کے میٹھے گنے بہت مزہ دیتے۔ ہم جوار کی فصل پر یوں ٹوٹ پڑتے جیسے ٹڈی دل نے دھاوا بول دیا ہو۔ جوار کے پاند سے سبز لکیر دیکھتے اور اسے جڑ سے اکھاڑ لیتے۔ سفید لکیر والے پھیکے گنے کو توڑنا بیکار تھا۔ ہر گنے کی جڑ اور پاند الگ کرتے جاتے۔ ایک ایک بچہ ایک ایک گٹھا گنوں کا کندھوں پر رکھ کر لے آتا۔ چاچا موندا بھلا آدمی تھا۔

ہمیں دیکھ کر دھیرے دھیرے چلتا آتا اور نہ جانے کچھ کہتا آتا۔ ہم نو دو گیارہ ہو جاتے تو وہ پاند اکٹھے کر کے گٹھڑی سی بنا لیتا اور لے جاکر بھینسوں کو کھلا دیتا۔ ہمیں دھڑکا سا رہتا کہ وہ ابو تک ہماری شکایت پہنچائے گا اور ہماری پھینٹی ہی نہ لگ جائے۔ مگر چاچے موندے نے کبھی شکایت نہیں کی تھی۔ ہمارے بچپن کے کسانوں کے دل بھی کتنے اجلے اور بھلے مانس ہوتے تھے۔ گاؤں میں گزرے بچپن کی طرح۔

ہم گنے لے کر پرائمری سکول میں لگے نیم کے پیڑوں پہ چڑھ جاتے یا پھر واٹر سپلائی کی ٹینکی کے نیچے فرش پر بیٹھ کر گنے چوستے۔ گنے چھیلتے کئی بار انگلیوں پہ ’چیر‘ آ جاتے تھے جس پہ ہم گیلی مٹی کا لیپ کر دیتے۔

برستی بارش میں نیم کی نمولیاں کھانے کا اپنا ہی سواد تھا۔ لگاتار بارش سے وہ ٹھنڈی ہو جاتیں اور پہلے سے زیادہ مٹھاس بھری لگتیں۔ نیم کی کڑوی شاخوں سے نمولیاں نا جانے مٹھاس کیسے کشید کرتی ہوں گی۔

کبھی یوں بھی ہوتا کہ بادل برسنا شروع کرتے تو پھر برستے ہی چلے جاتے۔ موسلادھار بارش گھنٹوں ہوتی رہتی۔ بڑوں سے سنا تھا کہ جمعرات کی جھڑی لمبا عرصہ چلتی ہے۔ بارش سے قبل سورج سے آگ برستی تھی۔ اب بدلی یوں ٹوٹ کے برستی کہ سردی سے ہمارے دانت بجنے لگتے۔ پھر ہم قریبی نالے کا رخ کرتے جس میں کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے نہری پانی بہتا تھا۔ اس میں چھلانگیں لگاتے۔ چونکہ باہر ٹھنڈ ہوتی، نالے کا پانی ’کوسا کوسا‘ لگتا۔ ہمارے ٹھٹھرے بدن آرام دہ احساس سے بھر جاتے۔ نالے سے نہا کر نکلتے تو پھر بارش میں نہایا نا جاتا تھا۔ بس جلدی جلدی گھروں کو دوڑ جاتے۔ نلکے پہ دوبارہ نہا کر، سوکھے کپڑے پہن کمرے میں دبک کر بیٹھ جاتے۔

گاؤں کے کچے گھروں کے مکینوں کو زیادہ بارش بھی راس نہ آتی۔ بچے بارش میں خوش ہوتے اور آنکھوں میں خوشی کی بوندیں چمکنے لگتیں۔ والدین کچے کمروں کی کچی، کمزور چھتوں کو بار بار تکتے رہتے اور ان کی آنکھوں میں اداسی کے گہرے بادل چھائے رہتے۔ زیادہ تر کسان تھے تو چھتوں کو تکتے تکتے اپنی فصلوں کا بھی سوچتے ہوں گے۔ انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ بارش ہمارے بیج، پھوٹتی کونپلوں اور ڈھیر ساری محنت کو ہی نہ ڈبو دے۔ اسی لیے گاؤں کے کچے گھروں میں بستے کسان موسلادھار بارش میں روہانسے سے ہو جاتے تھے۔

جب چھت ٹپکتی تو گھر کے برتن نیچے رکھ دیے جاتے۔ چھت سے گرنے والے مٹیالے پانی کے قطرے پیتل یا سلور کے برتن پر گرتے تو عجیب ٹپ ٹپ کھنک پیدا ہوتی۔ تب ہم بچے یہ نہیں جانتے تھے کہ چھت سے ٹپکنے والے یہ موٹے قطرے ہمارے والدین کے دلوں پہ بھی گرتے تھے۔ کمرے کی دیواروں پر چھت سے رستا پانی ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچ دیتا تھا۔ جیسے آنکھوں سے آنسو ڈھلکے ہوں اور گالوں پر بہتے جا رہے ہوں۔

سر پہ کھاد کی خالی بوریوں کا برقع بناکر چڑھائے، مٹی اٹھائے کچے گھروں کے مکیں چھتوں پر چڑھتے اور چھت کے سوراخ بند کرتے۔ اگر پرنالے تنکوں، پتوں اور جھاڑ پھونس سے بند ہو جاتے تو پانی چھتوں پہ بھر جاتا اور شہتیر کے نیچے کچی اینٹیں دھیرے دھیرے ’کھرتی‘ جاتیں۔ کئی بار چھتیں دھڑام سے گر جاتیں یا چھت کا ایک ’کھن‘ گر جاتا۔ گاؤں میں کئی بار چھتیں گرنے سے لوگوں کو عمر بھر کے زخم ملے ہیں۔

کچی دیواریں تو بار بار گرتی تھیں۔ آنگن پانی سے بھر جاتے۔ کچھ گھروں کے کمروں میں پانی چلا جاتا تھا۔ گھر کے سبھی چھوٹے بڑے افراد برتن لے کر پانی باہر ’جھٹنے‘ میں جٹ جاتے۔ تبھی تو گاؤں واسی بارش کی دعا کے ساتھ ہی زیادہ بارش سے پناہ بھی مانگتے تھے۔ کہا نا! بادلوں کی ہمارے گاؤں کے ساتھ ان بن رہتی تھی۔ اول تو برستے نہیں تھے یا پھر یوں برستے کے گھر گرانے پر تل جاتے۔

کبھی کبھار جب بارش دیر تک برستی رہتی تو اولے بھی پڑتے۔ سفید گول گول منکے سے برسنے لگتے۔ جیسے بادلوں میں کہیں کسی شریر نواسے نے نانی اماں کی موٹے دانوں والی سفید تسبیح کا دھاگا توڑ دیا ہو اور تسبیح کے دانے آنگن آنگن بکھر گئے ہوں۔ ہم بچے ان موتیوں کو چننے لگتے۔ بڑے سب پناہ مانگنے لگتے۔ بچوں کے لئے وہ برف کے موتی ہوں گے مگر جن کے بدن ہل چلاتے، بیج بوتے، آبیاری کرتے تھک چکے ہوتے، جن کی امنگیں کھیتوں میں اگی کونپلوں میں بستی تھیں ان کے لیے یہ کارتوس سے نکلے چھرے تھے جن سے ان کی امنگیں اور امیدیں خون ہو رہی تھیں۔ لوگ اولوں کو اٹھا کر چھری سے کاٹتے تھے یا وزن کرنے والے باٹ، پتھر، اینٹ سے کچل دیتے۔ ان کا یقین تھا ایسا کرنے سے اولے پڑنا رک جاتے ہیں۔

بارش سے سکول کے پاس خالی کھیت پورا پانی سے بھر جاتا۔ اس تالاب میں ہم کاغذ کی کشتیاں بنا کر چھوڑ دیتے۔ وہ کشتیاں ہمارے بس میں نہیں ہوتی تھیں۔ ہوا ہی ان کی ملاح تھی۔ ہم انہیں ہوا اور پانی کے دوش چلتا دیکھتے رہتے۔ کاغذ کی ان چھوٹی چھوٹی کشتیوں کو پانی پل دو پل میں ہی ڈبو دیتا تھا۔ کبھی ہم خود روڑے، پتھر مار مار اپنے ہی ہاتھوں ڈبو دیتے۔

تالاب میں کھڑے پانی کی سطح پہ ٹھیکریاں مارنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ بابا محمد یار کمہار کا گھر ساتھ ہی تھا جو مٹی کے برتن بناتا تھا۔ اس وجہ سے ٹوٹے گھڑوں، ڈولوں، کوریوں، جھجھریوں اور گھڑولیوں کے ٹکڑے جا بجا پھیلے ہوتے تھے۔ بابا محمد یار کمہار کے ہاتھوں تراشی ہوئی وہ ٹھیکریاں پانی کی سطح پہ دور تک اچھلتی جاتیں۔ پانی کی سطح کو چھو کر نقش بناتی جاتیں۔ تالاب کے پورے کینوس پہ پانی کی لہروں کے دلکش نقوش ابھر آتے۔

کچھ بچے مٹی کا ڈھیر لگا کر ’ٹپن‘ بنا لیتے۔ ٹپن کے آگے دو لکڑیاں عمودی گاڑ دیتے اور ان کے اوپر ایک باریک چھڑی افقی رکھ دیتے۔ دور سے سرپٹ بھاگتے آتے۔ ٹپن پہ پاؤں رکھ کر جمپ لگاتے اور لکڑیوں سے پھلانگ جاتے۔ کتنا ہی وقت اسی شغل میں ہنستے ہنساتے گزر جاتا۔

بارش میں نہ جانے چھوٹے چھوٹے مینڈک کہاں سے نکل آتے تھے۔ برستی بارش میں ادھر ادھر پھدکتے پھرتے۔ لگتا تھا جیسے بارش کے قطرے مینڈکوں کے انڈوں پہ پڑے ہوں اور بچوں نے انڈوں سے نکل کر بھاگنا شروع کر دیا ہو۔ شام جب اترتی تو تالاب میں مینڈکوں کی ٹرٹر شروع ہوجاتی۔ مختلف، عجیب و غریب آوازیں نکالتے۔ ایسے لگتا جیسے ہر مینڈک ہر دوسرے مینڈک سے لڑ رہا ہے۔ اتنا شور تو ہم بچے تب مچاتے تھے جب گیارہویں پہ گاؤں میں کوئی کھیر کی دیگ بانٹتا تھا اور ہم سب اپنا برتن آگے کرتے اور کہتے ’چاچا، پہلے مجھے دینا۔‘

برسات میں میٹھا کھانے کو من کرتا تھا۔ گاؤں میں یہ رواج تھا کہ بارش ہوتی تو سب گڑ والے چاول، حلوا یا پھر چلڑیاں (میٹھی روٹیاں ) پکاتے۔ گیلی لکڑیاں جلتی نہیں تھیں بس دھوئیں کے بادل بناتی تھیں۔ سب گھر والے پھونک مار مار کر ہلکان ہو جاتے۔ لکڑیوں پہ مٹی کا تیل چھڑکتے، خشک اپلا لکڑیوں کے نیچے رکھتے، اپلے کے نیچے پرانی کاپیوں کے لکھے ہوئے کاغذ پھاڑ کر رکھتے۔ ماچس بھی نم ہوتی تو تیلی آگ نہ پکڑتی۔ گڑ والے چاول اور چلڑیاں کھانی ہوں تو پھر یہ سب تو کرنا پڑتا تھا۔ توے پہ چلڑیاں پکتی جاتیں تو ہم بچوں کے من میں پھلجھڑیاں پھوٹتی رہتیں۔

شام ہوتے ہی لالٹین کمرے کے کنڈے سے لٹکا دی جاتی تھی تاکہ کمرے میں بھی روشنی ہو اور صحن میں بھی ہلکی سنہری کرنیں ٹھہری رہیں۔ لالٹین کے گرد پروانے جمع ہو جاتے جنہیں ہم ’بھمبٹ‘ کہتے تھے۔ ہر بھمبٹ لالٹین کی لو کے اندر جا بسنے کی آرزو رکھتا تھا۔ لالٹین کے گرم شیشے میں سر پٹختے رہتے تھے۔ زمین کے اندر گھپ اندھیرے میں رہنے والے ان پتنگوں کو روشنی سے اتنی محبت ہوتی کہ رات بھر طواف کرتے رہتے اور تھک ہار کر گرتے جاتے۔ صبح سویرے جب امی جھاڑو لگاتیں تو ان نامراد پروانوں کا ڈھیر لگ جاتا جو لالٹین کی لو سے لو لگائے جان دے گئے۔ لالٹین جو ہمارے گھر کو روشنی بخشتی تھی وہی ان ننھے پروانوں کو موت بانٹتی تھی۔

گھٹائیں جب کبھی رات کو برسنے کا ارادہ کرتیں تو ہم بچے سہم جاتے تھے۔ تیز جھکڑ چلتے، لگتا ہمارے آنگن کے درخت جڑوں سے اکھڑ کر ہمارے اوپر آ گریں گے۔ ان کی شاخوں سے ہوائیں چنگھاڑتی غراتی گزرتیں جیسے ہماری جن بھوتوں کی کہانیوں کے سبھی بھوت پیڑ پر چڑھ کر چلانے لگے ہوں۔ یوں لگتا کہ ابھی ایک لمبا خوفناک سا ہاتھ پیڑ سے اترے گا اور گردن دبوچ کے اٹھا لے جائے گا۔ لیکن ڈر کے ساتھ ہی یہ یقین بھی ہوتا تھا کہ ابو اور امی اس بھوت کو ایسا کبھی بھی کرنے نہیں دیں گے۔

بادل اتنا زور سے گرجتے کے در و دیوار دھمک سے ہلتے محسوس ہوتے۔ بجلی کڑکتی تو صحن میں تیز روشنی کے چمکارے کے بعد گھپ اندھیرا بہت ڈراونا لگتا۔ بارش ہوتی تو کچھ چھتوں کے گرنے کا خدشہ لگا رہتا۔ چھت کے شہتیر سے بھی کڑک کی ہلکی سی آواز کبھی سنائی پڑتی تو منہ سے دعائیں زور سے نکل جاتیں۔ ہمارے ماں باپ کے چہرے پر پریشانی بجلی کی طرح کوند جاتی۔ وہ کیا سوچتے تھے یہ وہی بتا سکتے ہیں۔ ہماری دعاؤں سے بارش نہ تھمتی تھی نہ شروع ہوتی۔ بادل جب پانی سے خالی ہو جاتے پھر تھم جاتی ہوگی۔

ہمارے کچے ویہڑے میں ’تلکن‘ ہوجاتی تھی۔ کمرے سے گھر کے دروازے تک اور نلکے، غسل خانے تک ایک ایک قدم کے فاصلے پر ایک ایک پکی اینٹ لگی ہوئی تھی جس پہ ہم چلتے تھے۔

بچپن میں برسات اچھی ہی لگتی تھی۔ جب چھوٹا بھائی بیمار تھا اور شہر کے سرکاری ہسپتال میں داخل تھا۔ امی ابو دونوں ہسپتال ہوتے تھے۔ ہم تین بہن بھائی نانی کے گھر رہتے تھے۔ بدلی ایسی لگی کہ ہر سو جل ہی جل کر دیا۔ میں شام کے وقت اپنے گھر کا چکر لگاتا، مرغیوں کو ڈربے میں بند کرتا اور تالا لگا کر نانی اماں کے گھر لوٹ جاتا۔ ایک شام آیا تو ہمارا برآمدہ گرا پڑا تھا۔ شاید پرنالہ بند ہونے کی وجہ سے پانی چھت میں اتر گیا تھا۔

ماں باپ ہسپتال میں نہ جانے کیسے رہ رہے تھے۔ بھائی کی صحت بہتر نہیں ہو رہی تھی۔ ہم ماں باپ کے بنا اداس تھے۔ اب برآمدہ بھی چپکے سے گر گیا تھا۔ برآمدے کی چھت تو دھیرے سے گری ہو گی مگر اس روز گھر کے آنگن میں کھڑے اداس بچے کے آنسو بہت تیزی سے ٹپ ٹپ گرے تھے۔ برکھا رت کا پورا ساون آنکھوں سے برس پڑا تھا۔ بس اس روز مجھے بارش رتی بھر بھی اچھی نہیں لگی تھی۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments