انگلینڈ میں کورونا وائرس سے زیادہ ہلاکتیں نسلی اقلیتوں کے لوگوں کی


کورونا

انگلینڈ کی صحت عامہ کی ایجنسی نے منگل کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کورونا وائرس سے زیادہ ہلاک ہو رہے ہیں تاہم اس میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ایسا کیوں ہے؟

رپورٹ میں کورونا وائرس سے خطرے کا سب سے بڑا عنصر اب بھی عمر کو قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ عورتوں کے مقابلے میں مرد زیادہ خطرے میں ہیں۔

اگر عمر اور جنس کے علاوہ دیکھا جائے تو بنگلہ دیشی نسل سے تعلق رکھنے والوں کو سفید فام انگلش نسل کے افراد کے مقابلے میں موت کا خطرہ دگنا ہے۔

صحت عامہ کی ایجنسی پبلک ہیلتھ انگلینڈ وزارتِ صحت کے تحت کام کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس انسانی جسم پر کیسے حملہ آور ہوتا ہے

بڑے شہر کورونا وائرس کا پھیلاؤ کیسے روک سکتے ہیں؟

کورونا کے بارے میں آپ کے سوال اور ان کے جواب

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

رپورٹ کے مطابق دیگر ایشیائی، جزائرِ غرب الہند اور سیاہ فام نسلوں کو حالیہ وبا سے نسبتاً زیادہ خطرہ ہے۔

نسل اور خطرے کے جائزے میں کسی بھی شخص کے پیشے یا موٹاپے جیسی وجوہات کو نہیں دیکھا گیا حالانکہ یہ دونوں عناصر بھی کورونا وائرس سے سخت بیمار ہونے کے خطرے کی وجوہات کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور لوگوں کو خطرے سے خبردار کیا گیا ہے۔

وزیر صحت میٹ ہینکاک نے پارلیمان میں بتایا کہ رپورٹ کو صحیح وقت پر جاری کیا گیا ہے۔

‘لوگوں کی ناانصافیوں کے بارے میں ناراضی سمجھ میں آنے والی بات ہے اور وزیرِ صحت کی حیثیت سے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس وبا نے ہماری قوم کی مجموعی صحت میں بڑی عدم مساوات کو واضح کر دیا ہے۔’

وہ کہتے ہیں ‘یہ بالکل واضح ہے کہ کچھ لوگ کووڈ 19 سے کافی زیادہ خطرے میں ہیں اور یہ وہ معاملہ ہے جسے میں مکمل طور پر سمجھنا اور حل کرنا چاہتا ہوں۔’

پیر کی شب وزارتِ صحت نے ان خبروں کی تردید کی تھی کہ رپورٹ کو سامنے لانے میں اس لیے تاخیر کی جا رہی ہے کہ حکام کو امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلائڈ کی ہلاکت پر پہلے سے جاری احتجاج میں اضافے کا خدشہ تھا۔ کیونکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاہ فام نسلوں کو وائرس سے زیادہ خطرہ ہے اس لیے یہ احتجاج میں اضافے کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔

جب یہ واضح ہو گیا کہ کچھ لوگ کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں تو صورتحال کا جائزہ لینے کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے بڑی تعداد میں صحت کے بارے میں موجود ریکارڈ اور کورونا وائرس سے متعلق اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے۔

رپورٹ میں مختلف نسلوں میں جن عناصر میں فرق کا جائزہ لیا گیا ان میں عمر اور جنس، جغرافیہ، محرومی، نسل اور صحت کے پہلے سے موجود مسائل شامل ہیں۔

اعداد و شمار کو جس انداز میں ریکارڈ کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ ان تمام عناصر کو یکجا کر کے یہ فیصلہ کیا جائے کہ کس شخص کو کتنا خطرہ ہے۔

بہرحال یہ اعداد و شمار نسلوں کے درمیان واضح فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔

تحقیق سے کیا معلوم ہوا؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 80 یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو 40 سال سے کم عمر لوگوں کے مقابلے میں موت کا 70 گنا زیادہ خطرہ ہے۔

کام کرنے کے قابل مردوں میں اگر کووڈ 19 کی تشخیص ہو جائے تو انھیں کام کرنے کے قابل عورتوں کے مقابلے میں مرنے کا خطرہ دگنا ہے۔

ایسے لوگوں کے مرنے کا خطرہ زیادہ ہے جو برطانیہ کے نسبتاً پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کچھ مخصوص پیشوں میں کام کرنے والے لوگ زیادہ خطرے میں ہیں۔ سکیورٹی گارڈ، ٹیکسی اور بس کے ڈرائیور، تعمیراتی کام کرنے والے اور سماجی خدمات انجام دینے والے لوگ ان میں شامل ہیں۔

جہاں تک مختلف نسلوں کا تعلق ہے تو سیاہ فام اور ایشیائی نسلی گروپوں میں اموات کی شرح زیادہ ہے۔

سفید فام انگلش نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مقابلے میں چینی، انڈین، پاکستانی، دیگر ایشیائی، جزائرِ غرب الہند اور دیگر سیاہ فام نسل کے لوگوں کو کورونا وائرس سے ہلاک ہونے کا 10 سے 50 فیصد زیادہ خطرہ ہے۔

بی بی سی کی ہیلتھ ایڈیٹر مشیل رابرٹس کا کہنا ہے کہ حکومت پر اس انکوائری کی رپورٹ جاری کرنے کے لیے دباؤ تھا اور اسے مئی کے آخر تک عام کیا جانا تھا۔ ان کے مطابق اب معلوم ہوتا ہے کہ تاخیر کی وجہ کیا تھی کیوں کہ جو اس رپورٹ میں ہے وہ تو ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ اقلیتی برادریوں کو وائرس سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔

مشیل رابرٹس کہتی ہیں کہ رپورٹ میں اس بات کا جواب نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

حکومت پر دباؤ تھا کہ وہ اس رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق کو شائع کرے۔ اس رپورٹ کو مئی کے اختتام سے پہلے جاری کیا جانا تھا۔

اب جبکہ یہ شائع ہو چکی ہے لیکن یہ اب بھی واضح نہیں کہ تاخیر کیوں ہوئی۔ اس تحقیق کے اہم نتائج پہلے سے معلوم حقیقت کی تصدیق کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ خطرے میں ہیں۔

کووڈ

لیکن یہ رپورٹ ہمیں اس سوال کا جواب نہیں دیتی کہ ایسا کیوں ہے؟

رپورٹ یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس تجزیے میں کئی اہم عناصر کو مدِ نظر نہیں رکھا جا سکا۔ مثلاً کسی شخص کی ملازمت اور پہلے سے موجود صحت کے مسائل جن کی وجہ سے کورونا وائرس سے ہلاک ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی اہم ہے کہ آپ کہاں رہتے ہیں اور کتنا کماتے ہیں۔

برطانیہ کے نسبتاً پسماندہ علاقوں میں رہنے والوں کے مرنے کا خطرہ خوشحال علاقوں کے مقابلے میں دگنے سے زیادہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے صحتِ عامہ میں موجود فرق میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان مسائل کو کیسے حل کیا جائے تا کہ انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔

‘فوری اقدامات’ کی ضرورت پر زور

بیٹرسی شہر سے لیبر پارٹی کی رکنِ پارلیمان مارشا ڈی کورڈوا کہتی ہیں کہ نسلی اور صحت عامہ کے عدم مساوات کی وجہ سے بڑھنے والے خطرے کو کیسے کم کیا جائے اس بارے میں رپورٹ ‘واضح طور پرخاموش’ ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو فوری اور لازمی طور پر اقدامات کرنے چاہیئیں ‘تا کہ مزید زندگیاں ضائع نہ ہوں۔’

جبکہ ٹوٹنہم سے لیبر پارٹی کے رکنِ پارلیمان ڈیوڈ لیمی نے ٹویٹ کیا ‘سیاہ فام اور ایشیائی نژاد لوگوں کا کووڈ 19 سے مرنے کا دگنا خدشہ ہے۔ خاندان کے خاندان خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اب کسی صورت میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت کو ایسے لوگوں کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کرنے پڑیں گے جو زیادہ خطرے میں ہیں۔’

رائل کالج آف مِڈ وائفس کی سربراہ گِل والٹن نے کہا کہ رپورٹ میں جو نتیجے اخذ کیے گئے ہیں وہ فائدے مند توہیں لیکن اس سے لوگوں کی حفاظت کے لیے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے واضح رہنمائی اور تعاون ملنا چاہیے۔

برطانیہ میں مساوات اور انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہ ربیکا ہِلسنرا نے کہا ہے کہ حکومت کو نسلی برابری کی ایک جامع حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیے۔

‘لوگوں کی اہمیت اعداد وشمار سے زیادہ ہے۔ ہم نسلی عدم مساوات کے وسیع سیاق و سباق کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو زندگی کے تمام شعبوں میں گہرائی سے پایا جاتا ہے۔ اس مسئلے سے نسلی مساوات کی ایک جامع حکمتِ علمی ہی نمٹ سکتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp