کرونا کو بھول جانے کے جتن


پیر کی صبح اٹھ کر حسب معمول یہ کالم لکھا۔ اسے دفتر بھجوادیا تو چند ہی گھنٹوں کے بعد میرا دل وسوسوں سے گھبراگیا۔ اخبارات کے پلندے کو تفصیل سے پڑھا تو احساس ہوا کہ سرکاری ذرائع کی بدولت کرونا کی بابت جو مستند اعداد و شمار عوام کے سامنے لائے گئے ہیں واضح انداز میں یہ بیان کر رہے ہیں کہ مئی 2020 کے دوران اس وبا ء کی زد میں آئے لوگوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ مجھے خدشہ لاحق ہوگیا کہ مذکورہ اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے پیر کے روز NCOC لاک ڈاؤن کو بحال کرنے کی سفارش کر سکتا ہے۔ یہ ہوگیا تو میرا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگا کہ عمران حکومت ہرڈ امیونٹی کی راہ پر ڈٹے رہنے کا تہیہ کرچکی ہے۔ بہت تجسس سے لہذا کرونا کے بارے میں حتمی فیصلہ ساز ادارے کی جانب سے کیے فیصلے کا انتظار کرنا شروع ہوگیا۔

دریں اثناء ریگولر اور سوشل میڈیا پر حکومت پنجاب کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ بھی منظر عام پر آ گئی۔ صحت عامہ پر نگاہ رکھنے والوں نے ایک جامع سروے کے بعد ٹھوس اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں کروناکی وبا ہولناک حد تک پھیل رہی ہے۔ اس ضمن میں میرا شہر لاہور شدید ترین حملے کا شکارنظر آیا۔

مذکورہ سروے اور اس کے اخذ کردہ نتائج مگر عوام کے سامنے نہیں لائے گئے۔ صحافتی تجربے نے مجھے یہ طے کرنے پرمجبور کیا کہ مذکورہ رپورٹ کو کسی صاحب دل افسر نے سوچ سمجھ کر Leakکیا ہے۔ غالباً اس نیک طینت شخص کو توقع ہوگی کہ مذکورہ سروے کے نتائج پیر کے روز عوام کے سامنے آ گئے تو اس روز ہوئے NCOCکے اجلاس کے دوران ان پر فکرمندی سے غور ہوگا۔ یہ غور پنجاب کے بڑے شہروں میں لا ک ڈاؤن کی بحالی کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو مگر پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ پیر کی شام بلکہ وزیر اعظم عمران خان صاحب بذات خود قوم سے مخاطب ہوئے۔ کرونا سے گھبرانا نہیں بلکہ اس سے گزارہ کرنے کا پیغام دہرایا۔ لاک ڈاؤن کی بابت اپنے تحفظات کو ایک بار پھر ہمارے سامنے لائے۔ کاروبارزندگی بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ہمارے سیاحتی مقامات کو کھولنے کی تجویز بھی پیش کردی۔ انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ یہ مقامات سیاحوں کے لئے بدستور بندرہے تو اس دھندے سے جڑے ہزاروں افراد مستقلا بنیادوں پر بے روزگار ہوجائیں گے۔ ان کی غربت میں بدترین اضافہ ہوگا۔ زندگی معمول کے مطابق بسرکرنا ناممکن ہو جائے گا۔

وزیر اعظم کی تقریر سن کر سوشل میڈیا پر متحرک ”دانشور“ نماپڑھے لکھے افراد بہت مایوس ہوئے۔ ان میں سے کئی ایک طیش کے عالم میں عمران خان صاحب کو کرونا کے حوالے سے ”غیر ذمہ دارانہ رویہ“ اختیارکرنے کے طعنے بھی دیتے رہے۔ عمران حکومت کا سیاسی بیانیہ مرتب کرنے والے ماہرین ابلاغیات ایسے افراد کو ”مغرب زدہ“ شمار کرتے ہیں۔ انہیں دکھ ہے کہ ”لاک ڈاؤن کے فیشن“ سے متاثرہوئے یہ لوگ پاکستان میں کرونا کے حوالے سے جمع ہوئے اعداد و شمار کا ٹھوس تناظر میں جائزہ لینے کی زحمت ہی نہیں اٹھاتے۔

ہمارے ہاں کرونا کی وجہ سے پہلی ہلاکت فروری کے آخری ہفتے میں ہوئی تھی۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا رحجان نظر آیا تو ہمارے ہاں لاک ڈاؤن مسلط کر دیا گیا۔ ماہ رمضان کے آخری عشرے کی جانب بڑھتے ہوئے لاک ڈاؤن میں ”نرمی“ لانے کا فیصلہ ہوا۔ ہمارے اجتماعی رویے کی بدولت یہ ”نرمی“ کاروبارزندگی کو بھرپور انداز میں بحال کرتی نظر آئی۔ ”عید کی تیاری“ نے اسے ٹھوس جواز بھی فراہم کر دیا۔ اسی باعث مئی 2020 کے اختتام پر ہمیں کرونا کے حوالے سے جی کو گھبرانے والے اعداد و شمار دیکھنے کو ملے۔ خبر یہ بھی آئی کہ وبا نے اب تک گیارہ سو افراد کی جان لے لی ہے۔ محض اس تعداد کو ذہن میں لائیں تو جی یقیناً گھبراجاتا ہے۔ عمران حکومت کا بیانیہ مرتب کرنے والے پڑھے لکھے افراد مگر اصرار کیے چلے جا رہے ہیں کہ اعداد و شمار اپنے تئیں اہم نہیں ہوتے۔ ان سے فیصلہ سازی کی خاطر نتائج اخذ کرنے کے لئے ٹھوس تناظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ انگریزی میں اسے Contextکہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اعداد و شمار کو Bench Markکی بنیاد پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

ہماری آبادی 22 کروڑ سے تجاوزکرچکی ہے۔ چار مہینوں میں اگر ان میں سے 11 سوافراد کرونا کی وجہ سے ہلاک ہوئے تو اموات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ پاکستان میں کرونا امریکہ یا اٹلی جیسے قیامت خیز مناظر برپا کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ خود کو مطمئن کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ایک ہلاکت کو دس لاکھ افراد پر مشتمل یونٹ کے تناظر میں دیکھا جائے۔ مجوزہ پیمانے کو استعمال کریں تو ہمارے ہاں فقط سات افراد دس لاکھ کی تعداد میں سے ہلاک ہوئے ہیں۔ حد سے زیادہ گھبرانے کی لہذا ضرورت نہیں۔ وائرس سے بچاؤ کی ہر احتیاط کو ازخود اختیار کریں اور جرأت مندی سے کام لیتے ہوئے کاروبار زندگی میں مصروف ہوجائیں۔ ہمارے مخصوص تناظر میں پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ ہرڈ امیونٹی ہی واحد آپشن ہے۔

ہرڈ امیونٹی کا ذکر چھڑا ہے تو یاد آیا کہ حال ہی میں امریکہ میں ایک تحقیق ہوئی ہے۔ اس کی بدولت یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ کرونا کی وجہ سے بدحال ہوئے نیویارک میں فقط 20 فی صد افراد اتنے ماہ گزرجانے کے باوجود کرونا سے ہرڈ امیونٹی کی بناء پر ”محفوظ“ گردانے جا رہے ہیں۔ 80 فی صد کی تعداد میں بدستور اس کی زدمیں آنے کے امکانات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ عالمی میڈیا میں چھپے چند مضامین میں جید ماہرین صحت عامہ اصرار کرتے رہے ہیں کہ ہرڈ امیونٹی صرف اسی صورت کامیاب ہو سکتی ہے اگر اس کی بدولت کسی ملک کی آبادی کا کم از کم 65 فی صد حصہ کرونا وائرس کی زد میں آنے کے باوجود ہمارے جسموں میں فطری طور پر موجود مدافعتی نظام کی بدولت ازخود صحت یاب ہوتا نظر آئے۔

ہرڈ امیونٹی کی افادیت کو بخوبی سمجھنے کے لئے لازمی ہے کہ وسیع پیمانے پر Randomized Controlled Testing ہو۔ محققین اس طریقہ کار کو RCTپکارتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کسی ملک کے چند محلوں کو اس کے مختلف علاقوں میں ایک حوالے سے مکمل طور پر Sealکر دیا جاتا ہے۔ ان محلوں اور علاقوں میں مقیم ایک وسیع تر تعداد کی بعدازاں جارحانہ ٹیسٹنگ ہوتی ہے۔ ان کے ذریعے یہ طے کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ RCTکا اطلاق کرتے ملک کے شہریوں میں فطری مدافعتی نظام کی کیا صورت ہے۔ جنوبی کوریا نے اس طریقہ کار کو جنونی انداز میں اپنایا تھا۔ جرمنی بھی اس طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے نسبتاً محفوظ رہا۔ سویڈن ابھی تک وہ واحد ملک رہا ہے جہاں ہرڈ امیونٹی کو بلاحیل وحجت استعمال کیا گیا۔

ہمارے ہاں RCTنما کوئی طریقہ بھی استعمال ہوتا نظر نہیں آیا۔ ماہ رمضان کے دوران قومی اسمبلی اور سینٹ کے جو اجلاس ہوئے تھے ان کے دوران حکومتی وزراء کی جانب سے بارہا یہ دعویٰ ہوتا رہا کہ پاکستان میں روزانہ کم از کم 20 ہزار افراد کے ٹیسٹ ہوا کریں گے۔ مجھے شبہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے ہاں 15 ہزار ٹیسٹ بھی نہیں ہورہے۔

ہمارے ہاں لوگ کرونا کی واضح علامات نمودار ہوجانے کے باوجود اس کا ٹیسٹ کروانے سے گھبراتے ہیں۔ کسی شخص میں ٹیسٹ کی بدولت اس مرض کی نشاندہی ہوبھی جائے تو وہ اس اطلاع کو اپنے دوست واحباب تک پہنچانے سے خوف کھاتا ہے۔ خود کو ”اچھوت“ بناکر دنیا کو دکھانا ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ عمران حکومت ہمارے ا جتماعی رویوں کو بخوبی سمجھتی ہے۔ اسی باعث اسے ہرڈ امیونٹی کی راہ اختیار کرنے کا حوصلہ ہوا۔ وہ اس راہ پر ڈٹے رہنے سے گھبرا نہیں رہی ہے۔ کرونا کو وسیع تر تناظر میں ہمیں اب بھول ہی جانا پڑے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم دیگر موضوعات پر غور شروع کردیں۔ کرونا سے توجہ ہٹانے کے لئے عمران حکومت کی کرپشن کے خلاف جنگ کو بھرپور توانائی سے تقریباً بحال کرنا ہوگا۔ چینی سکینڈل کی بابت رپورٹ منظر عام پر آ چکی ہے۔ اب اس سے متعلق ”مافیا“ کو ہتھکڑیاں لگاتے ہوئے رونق لگانا پڑے گی۔ عید گزرچکی ہے۔ احتساب کے ”ٹارزن“ کو بھی اب آن بان شان سے ٹی وی سکرینوں پر واپس لوٹنا ہوگا۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments