ہتھنی جو تین دنوں تک دریا میں کھڑی موت کا انتظار کرتی رہی


تنبیہ: اس خبر کے کچھ پہلو ہمارے پڑھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں بارود سے بھرے انناس کھانے والی حاملہ ہتھنی کی موت نے انسانیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

یہ شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بعض شرارتی عناصر نے ہتھنی کو دھماکہ خیز مواد سے بھرا انناس کھلا دیا اور انسانوں اور جانوروں کے درمیان زندگی کی کشمکش میں یہ انسانیت کے زوال کی ایک اور کہانی ہے۔

محکمہ جنگلات کے عہدیداروں کے مطابق ہتھنی کی عمر کوئی 14-15 سال تھی۔

اندر سے زخمی ہونے کے بعد وہ اس قدر تکلیف میں تھی کہ تین دن تک دریائے ویلیار میں کھڑی رہی تاہم اس کو طبی امداد فراہم کرنے کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔

اس دوران اس کا منھ اور سونڈ پانی کے نیچے ہی رہے۔

پلک کاڈ کے سائلنٹ ویلی نیشنل پارک میں وائلڈ لائف وارڈن سیموئل پچاؤ نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہمیں وہ جگہ نہیں مل پائی جہاں وہ زخمی ہوئی تھی۔ وہ صرف پانی پی رہی تھی، شاید اس سے اسے کچھ راحت مل رہی تھی۔ اس کا پورا جبڑا دونوں جانب سے شدید زخمی تھا۔ اس کے دانت بھی ٹوٹ گئے تھے۔

پلک کاڈ ضلع کے علاقے مینارکڑ کے جنگلات کے افسر سنیل کمار نے بی بی سی کو بتایا: ‘محکمہ جنگلات کے عہدیداروں نے ہتھنی کو 25 مئی کو اس وقت دیکھا تھا جب وہ قریبی کھیت میں گھوم رہی تھی۔ شاید وہ اپنے پیٹ میں پلنے والے بچے کے لیے کچھ کھانا چاہ رہی تھی۔’

ہتھنی کے زخمی ہونے کا یہ واقعہ لوگوں کے سامنے اس وقت آیا جب ریپڈ رسپانس ٹیم کے فاریسٹ آفیسر موہن کرشنن نے فیس بک پر اس کے بارے میں ایک جذباتی پوسٹ لکھی۔

انھوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ہتھنی زخمی ہونے کے بعد ایک گاؤں سے بھاگتی ہوئی نکلی لیکن اس نے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔

فیس بک پر ہتھنی کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تصویروں میں ہتھنی کا درد بیان نہیں ہوسکتا ہے۔

دریں اثنا سنیل کمار کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات نے دیگر ہاتھیوں کی مدد سے ہتھنی کو ندی سے نکالنے کی کوششیں کیں لیکن وہ وہاں سے نہیں ہلی۔ محکمہ جنگلات جانوروں کے ڈاکٹروں کے ذریعے ہتھنی کا آپریشن کروانا چاہ رہا تھا۔

لیکن بالآخر ہتھنی 27 مئی کو دریا میں کھڑے کھڑے چل بسی۔ جب اس کے جسم کو پوسٹ مارٹم کے لیے لے جایا گیا تو پتا چلا کہ وہ حاملہ تھی۔

کرشنا نے اپنی پوسٹ میں لکھا: ‘پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ وہ اکیلی نہیں تھی۔ میں ڈاکٹر کے درد کو سمجھ سکتا تھا، حالانکہ ان کا چہرہ ماسک میں چھپا ہوا تھا۔ ہم نے وہیں اسے نذر آتش کر دیا۔ ہم نے اس کے سامنے سر جھکا کر اپنا آخری سلام پیش کیا۔’

دوسری جانب سیموئل پچاؤ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ہتھنی کی موت کے ذمہ دار لوگوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

نیلامبور کے جنگلاتی علاقے میں جانوروں اور انسانوں کے درمیان کشمکش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ جنگلات کا علاقہ کیرالہ کے ملا پورم اور پالککڈ اضلاع کے مزید چار جنگلاتی علاقوں سے منسلک ہے۔

پچاؤ نے کہا: ‘ماضی میں بھی انسانوں اور جانوروں کے درمیان ٹکراؤ کے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کسی ہاتھی کو اس طرح کسی دھماکہ خیز مواد سے زخمی کیا گیا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp