کورونا وائرس: بنا علامات اور ’خاموشی‘ سے بیماری پھیلانے والے اس وبا کو کیسے پیچیدہ بنا رہے ہیں؟


خاکہ

کورونا وائرس کا بحران جیسے جیسے بڑھا، سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے ایک عجیب اور پریشان کن پہلو کے بارے میں مزید شواہد ڈھونڈ لیے ہیں۔

جہاں اس سے متاثرہ بہت سے افراد میں کھانسی اور بخار کے ساتھ ساتھ کھانے اور سونگھنے کی حس متاثر ہوتی ہے، وہیں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن میں اس بیماری کی کوئی علامات نہیں پائی جاتیں اور انھیں اس بات کا ہرگز علم نہیں ہوتا کہ انھیں کووڈ 19 ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایسے کتنے لوگ ہیں اور کیا یہ سائلنٹ سپریڈر یعنی خاموش سے اس بیماری کو پھیلا کر اس وبا کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔

جب سنگاپور میں 19 جنوری کو لوگ ایک چرچ میں اکھٹے ہوئے تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ اجتماع کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس اجتماع میں 56 برس کا ایک جوڑا تھا جو اسی صبح چین سے آیا تھا۔

دونوں بظاہر صحت مند نظر آ رہے تھے مگر 22 جنوری کو بیوی کی حالت بگڑنا شروع ہو گئی اور دو روز بعد ان کے شوہر بھی بیمار ہو گئے۔ دونوں ووہان سے آئے تھے۔ ایک ہفتے بعد تین مقامی افراد بھی وبا کا شکار ہو گئے۔

بی بی سی بینر

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا کے بارے میں آپ کے سوال اور ان کے جواب

کورونا وائرس سے جڑی اصطلاحات کے معنی کیا ہیں؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں


سنگاپور کی وزارت صحت کے ڈاکٹر ورنن لی کہتے ہیں: ’ہمیں شدید حیرت ہوئی۔ جو لوگ ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے انھوں نے ایک دوسرے کو مرض لگا دیا تھا‘ حالانکہ بظاہر ان میں اس کی کوئی علامات نہیں تھیں۔

ڈاکٹر لی اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے پولیس اور امراض کا کھوج لگانے والے ماہرین کے ساتھ مل کر تحقیقات شروع کر دیں اور کون کب کہاں تھا، کی بنیاد پر نقشے مرتب کیے۔ اس عمل کو کانٹیکٹ ٹریسنگ یعنی رابطوں کا تعاقب کہا جاتا ہے جو اس وقت برطانیہ میں بھی رو بہ عمل ہے۔

حیرت انگیز طور پر چند ہی دنوں میں محققین نے مذکورہ چرچ کے 191 ارکان سے بات کی تو پتا چلا کہ ان میں سے 142 افراد اس اجتماع میں شریک تھے۔ انھوں نے یہ بھی پتا لگا لیا کہ سنگاپور کے جو دو شہری وبا کا شکار ہوئے تھے، وہ اس وقت چرچ میں تھے جب چینی جوڑا بھی وہاں آیا تھا۔

ڈاکٹر لی کا کہنا ہے ’ممکن ہے چرچ کے معمولات میں وہ ایک دوسرے سے ملے ہوں، بات کی ہو، ایک دوسرے کا خیرمقدم کیا ہو۔‘

مگر اس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ چینی جوڑے سے وائرس دوسروں کو کیسے منتقل ہوا کیونکہ ان میں تو مرض کی کوئی علامات تھیں ہی نہیں۔

حیرانگی کی ایک اور بات یہ تھی کہ کورونا وائرس نے جس تیسرے شخص کو متاثر کیا تھا وہ ایک 52 سالہ خاتون تھی جو اس وقت چرچ نہیں گئی تھی۔ البتہ اسی روز بعد میں وہ اسی چرچ میں منعقدہ ایک دوسری تقریب میں شریک ہوئی تھیں۔ تو پھر انھیں کیسے وائرس لگا؟

سنگاپور

عالمگیر وبا کے آغاز میں وائرس پر قابو پانے کے لیے کیے گیے اقدامات کی بہترین مثال سنگاپور ہے

غیر متوقع شواہد

محققین نے مذکورہ چرچ کی اس اتوار کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بغور جائزہ لیا تو پتا چلا کہ مذکورہ خاتون اگرچہ اس چرچ میں اسی دن بعد میں گئی تھی مگر وہ اسی نشست پر بیٹھی تھیں جہاں کئی گھنٹے قبل چینی جوڑا بیٹھا تھا۔ یہ ایک بالکل غیر متوقع سراغ تھا۔

اگرچہ اس وقت چینی میاں بیوی میں کووڈ 19 کی علامات موجود نہیں تھیں پھر بھی ان سے وائرس منتقل ہو گیا تھا۔ ممکن ہے کہ وائرس ان کے ہاتھوں پر لگا ہوا ہو جن سے انھوں نے نشستوں کو چھوا ہو۔ ہو سکتا ہے ان کے سانس کے ذریعے وائرس بینچ کی سطح پر جا کر بیٹھ گیا ہو، یہ واضح نہیں ہے مگر اس کے نتائج دور رس تھے۔

ڈاکٹر لی کے نزدیک اس کی ایک ہی ممکنہ وضاحت تھی کہ وائرس ان لوگوں سے دوسروں کو منتقل ہو رہا تھا جنھیں علم ہی نہیں تھا کہ ان کے اندر وائرس موجود ہے۔ یہ بڑا انکشاف تھا کیونکہ اس وقت تک کورونا وائرس سے متعلق ایک ہی پیغام دیا جا رہا تھا کہ اپنے اندر اور دوسروں میں اس وائرس کی علامات پر نظر رکھیں۔


علامات کے ظاہر ہونے سے پہلے منتقلی

اس انکشاف سے یہ معلوم ہوا کہ یہ مرض کھانسی، بخار اور دوسری علامات کے ظاہر ہونے سے پہلے بھی پھیل سکتا ہے۔ اس عمل کو ’قبل از علامات منتقلی‘ کہتے ہیں۔

دوسری تحقیقات سمیت اس تحقیق سے یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے کے 24 سے 48 گھنٹے انتہائی اہم ہیں کیونکہ اس دوران وائرس بردار افراد اسے دوسروں کو منتقل کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ بات اہم اس لیے ہے کہ جیسے ہی آپ کو پتا چلے کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہیں تو آپ رابطے میں آنے والوں کو خبردار کر سکتے ہیں کہ وہ خود کو گھر تک محدود کر لیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی خود کو تنہا یا آئسولیٹ کر سکیں گے مگر بغیر کھانسے یہ وائرس کیسے دوسروں کو منتقل ہو جاتا ہے یہ بات اب بھی زیر بحث ہے۔

ایک ذریعہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ اگر وائرس بالائی نظام تنفس میں پرورش پا رہا ہے تو ہو سکتا ہے کہ سانس کے اخراج کے ساتھ دوسروں کو لگ جاتا ہو، خاص طور پر گھروں کے اندر یا بند ماحول میں۔

منتقلی کا دوسرا ذریعہ لمس ہو سکتا ہے یعنی وائرس کسی کے ہاتھ پر لگا ہوا ہو اور وہ اسی ہاتھ سے دروازے یا کرسی کو چھولے تو یہ سطح پر منتقل ہو کر وہاں سے کسی بھی دوسرے چھونے والے کو لگ سکتا ہے۔ وجہ جو بھی ہو یہ وائرس لوگوں کی لاعلمی کا فائدہ اٹھا رہا ہے کیونکہ جب انھیں معلوم ہی نہیں ہو گا کہ وہ متاثر ہیں تو وہ کم چوکنا ہوں گے۔

سنگاپور

سنگاپور نے جب بظاہر وائرس پر قابو پا لیا تو متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا

بعض افراد میں علامات بالکل ظاہر نہیں ہوتیں

زیادہ پُر اسرار بات ہی یہ ہے جس کا سائنسدان کوئی حتمی جواب حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ یہ جاننا الگ بات ہے کہ علامات کے ظاہر ہونے سے پہلے بھی لوگ وائرس منتقل کر سکتے ہیں مگر یہ بالکل ہی علیحدہ بات ہے کہ لوگ وائرس سے متاثر بھی ہوں اور ان میں علامات بھی ظاہر نہ ہوں۔

اس حالت کو ’اے سِمپٹومیٹک‘ یا ’عدم علامتی` کہتی ہے کیونکہ اس میں کسی شخص کے اندر مرض تو موجود ہوتا ہے مگر خود کو ظاہر نہیں کرتا۔

میری میلن

خبرنگاروں نے انھیں ‘ٹائیفائیڈ میری’ کا لقب دیا جس کا انھوں نے ہمیشہ برا منایا

اس کا سب سے مشہور واقعہ گزشتہ صدی کے اوائل میں نیویارک میں پیش آیا تھا جب میری میلن نامی ایک آئرش باورچن کو ایک گھر میں ملازمت ملی۔ اس گھر کے تمام افراد کو ٹائیفائیڈ ہو گیا اور کم سے کم تین افراد ہلاک بھی ہو گئے۔

بعد میں پتا چلا کہ میری میلن ٹائیفائیڈ میں مبتلا تھیں مگر ان میں اس کی کوئی علامت موجود نہیں تھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی انھوں نے مرض کو دوسروں میں منتقل کر دیا تھا۔

خبرنگاروں نے انھیں ’ٹائیفائیڈ میری‘ کا لقب دیا جس کا انھوں نے ہمیشہ برا منایا۔ حکام نے مزید کوئی خطرہ مول نہیں لیا اور 1938 میں ان کی موت تک انھیں 23 برس تک محصور رکھا۔


امیلیا پاؤل

تئیس برس کی نرس امیلیا پاؤل سکتے میں آ گئیں جب انھیں پتا چلا کہ وہ بنا علامات کے کورونا وائرس کا شکار ہیں

مفروضوں کا خاتمہ

تئیس برس کی نرس امیلیا پاؤل سکتے میں آ گئیں جب انھیں پتا چلا کہ وہ بنا علامات کے کورونا وائرس کا شکار ہیں۔ حفاظتی لباس کے پیچھے کووڈ 19 کے مریضوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے وہ خود کو محفوظ سمجھتی تھیں مگر ان کے لعاب کا ٹیسٹ مثبت نکلا۔

وہ کہتی ہیں: ’مجھے لگا جیسے میرا کوئی پیارا مر گیا ہو۔ میں نے سوچا یہ بات درست نہیں ہو سکتی، میں تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔‘

انھیں کام چھوڑ کر فوراً اپنے گھر میں خود تنہائی اختیار کرنا پڑی۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ دوسرے مریضوں کی حالت دیکھ چکی تھیں کہ کتنی تیزی سے بگڑتی ہے اس لیے پریشان تھیں کہ کہیں انھیں بھی اس اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔ مگر حیرت انگیز طور پر ان میں مرض کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی۔

اس مرحلے پر یہ کہنا ناممکن ہے کہ کتنے ہی واقعات ہوں گے جہاں مرض موجود ہو گا مگر کسی کو اس کا علم نہیں ہو گا۔

امیلیا کے متاثر ہونے کی بات اس لیے سامنے لائی گئی کہ وہ اپنے ہسپتال میں جاری ایک تحقیق میں شریک تھیں۔ اس تحقیق کے نتائج اس لیے حیران کن تھے کہ ایک ہزار میں سے تین فیصد مریض ایسے پائے گئے جن میں ٹیسٹ کرتے وقت مرض کی کوئی علامت موجود نہیں تھی۔

عدم علامتی کی سب سے بڑی مثال ڈائمنڈ پرنسیس نامی وہ مسافر بردار بحری جہاز ہے جو اس برس کے شروع میں جاپانی ساحل کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ اس میں 700 کے لگ بھگ افراد متاثر ہوئے تھے جن میں سے تین چوتھائی نے کسی طرح کی علامات ظاہر نہیں کی۔

واشنگٹن میں معمر افراد کی دیکھ بھال کرنے والے ایک ادارے میں آدھے سے زیادہ رہائشی بغیر کسی علامت کے مثبت پائے گئے تھے۔


مختلف تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ 5 سے 80 فیصد کیسوں میں عدم علامتی ہو سکتی ہے۔ یہ نتیجہ یونیورسٹی آف آکسفرڈ کے پروفیسر کارل ہینیگن اور ان کے ساتھیوں نے 21 تحقیقی مطالعوں کا جائزہ لینے کے بعد اخذ کیا ہے۔

ان کے مطابق حتمی نتیجہ یہ ہی نکلتا ہے کہ ’بغیر کسی علامت کے مریضوں کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے کوئی ایک قابل انحصار تحقیق موجود نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر صرف ان مریضوں کا ٹیسٹ کیا جائے جن میں علاماتیں موجود ہوں، جیسا کہ برطانیہ میں ہو رہا ہے، تو بہت سے کیسز کا پتا نہیں چل سکے گا۔ ’کوئی بھی تحقیق کُلی طور پر قابل انحصار نہیں۔‘

’خاموشی سے بیماری پھیلنے‘ کا خطرہ

نرس امیلیا کو سب سے زیادہ اس بات کی پریشانی ہے کہ انھوں نے انجانے میں وائرس اپنے ساتھ کام کرنے والوں یا ان مریضوں کو منتقل کر دیا ہو گا جو مدد کے لیے ان پر انحصار کر رہے تھے۔

وہ کہتی ہیں: ’میرا نہیں خیال کے میں نے اپنے ساتھیوں کو وائرس منتقل کیا ہو گا کیونکہ ان کے ٹیسٹ منفی نکلے ہیں مگر پریشانی اس بات کی ہے کہ میں کتنے عرصے تک مثبت تھی۔ ہم اب تک یہ نہیں جان پائے کہ عدم علامتی کی کیفیت میں کیا وائرس دوسروں کو منتقل ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ یہ عجیب و غریب بات ہے اور اس کے بارے میں علم بہت تھوڑا ہے۔‘

چین میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ علامات والے کیسز کے مقابلے میں بغیر علامات کے کیس زیادہ تھے۔ اس پر سائنسدانوں کو تنبیہ کرنا پڑی کہ مرض کی روک تھام کے لیے بغیر علامات والے متاثرین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ڈائمنڈ پرنسس کا مطالعہ کرنے والی ٹیم کا خیال ہے کہ علامات والے متاثرین کے مقابلے میں بغیر علامات والے متاثرین کے دوسروں کو وائرس منتقل کرنے کا خدشہ کم ہے مگر اس کے باوجود ان کی وجہ سے بھی خاصی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔


ڈائمند پرنسیس

ڈائمنڈ پرنسس کا مطالعہ کرنے والی ٹیم کا خیال ہے کہ علامات والے متاثرین کے مقابلے میں بغیر علامات والے متاثرین کے دوسروں کو وائرس منتقل کرنے کا خدشہ کم ہے

عدم علامتی مرض کا ’ڈارک میٹر‘

اس گتھی کو سلجھانے کی جستجو میں سائنسدان برطانوی شہر نورِچ میں تمام افراد کے ٹیسٹ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

ارلہم انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر نیل ہال کہتے ہیں کہ ’عدم علامتی کیسز اس وبا کا ’ڈارک میٹر‘ ہو سکتے ہیں۔ یہ کائنات میں پایا جانے والا وہ مادہ ہے جس کے وجود کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔

پروفیسر ہال کو خدشہ ہے کہ ممکنہ طور پر عدم علامتی کے کیسز ہی وبا کو پھیلانے کا سبب ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’اگر ایسے لوگ جنھیں نہیں معلوم کہ وہ حقیقت میں مریض ہیں، عوامی ذرائع آمدورفت اور صحت کی سہولیات استعمال کریں گے تو لازماً وائرس کی منتقلی بڑھے گی۔‘

ان کے بقول علامات رکھنے والے مریضوں کا علاج تو مسئلے کا آدھا حل ہے۔

اس سلسلے میں برطانوی پارلیمنٹ میں دارالعوام کے بعض ارکان نے وزیراعظم بورس جانسن کو خط لکھا ہے، جس میں انھوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بغیر علامات کے مریضوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ انھوں نے لکھا کہ طبی اور تیماردار عملے کا باقاعدگی سے ٹیسٹ کیا جانا چاہیے۔

چین کے شہر ووہان، جس کے بارے میں قیاس ہے کہ وبا کا آغاز وہیں سے ہوا تھا، میں یہ ہی کام زیادہ وسیع پیمانے پر شروع ہو چکا ہے۔

ووہان میں نو روز کے اندر 65 لاکھ افراد کی سکرینگ کی گئی، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن میں کسی طرح کی علامات نہیں پائی گئیں۔


ووہان

چین نے ووہان میں بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کا آغاز کیا

لاک ڈاؤن میں نرمی

لاک ڈاؤن میں نرمی کے نتیجے میں لوگ بازاروں اور دفتروں میں جا رہے ہیں۔ ایسے میں اس عدم علامتی کے ان دیکھے خطرے کے بارے میں چوکنا رہنا ضروری ہے۔

اسی لیے دنیا بھر میں حکومتیں رابطے میں آنے والوں کے تعاقب پر زور دی رہی ہیں تاکہ جیسے ہی کسی شخص میں علامات ظاہر ہوں تو اس سے رابطے میں آنے والے تمام افراد از خود تنہائی اختیار کر لیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان حالات میں سماجی فاصلہ ہی بہترین دفاعی حکمت عملی ہے مگر جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں چہرہ ڈھانپ کر رکھا جائے، چاہے اس کے لیے گھریلو ساختہ ماسک ہی استعمال میں لایا جائے۔

چہرے پر نقاب لینے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ وائرس سے متاثر ہیں تو کم سے کم دوسروں کو تو اس سے بچائیں۔

ماسک پہنے دو خواتین

زیادہ تر ممالک چہرے پر ماسک پہننے پر زور دے رہے ہیں

بعض ماہرین صحت کو تشویش ہے کہ ماسک یا نقاب پہننے سے لوگوں کی نظر میں سماجی فاصلے اور ہاتھ دھونے کی اہمیت گھٹ جائے گی، جس سے وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھ جائے گا مگر اب زیادہ سے زیادہ حکومتیں ماسک کے فوائد کی قائل ہو رہی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ چہرہ ڈھانپنے سے وبا رک جائے گی مگر اس کی عدم علامتی منتقلی کے بارے میں ہم اتنا کم جانتے ہیں کہ کسی بھی طریقے کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp