دل و نگاہ کا قرار بچے


اللہ رب العزت نے تمام مخلوق بنائی اور انسان کو اشرف المخلوقات بنا دیا اس شرف والی مخلوق کو بے شمار خوبیا ں اور صلاحیتیں بخشیں اس مخلو ق کو ہر عمر میں حسن و خوبی عطا کی لیکن بچپن کو سب سے زیادہ پیار ا اور پسندیدہ ترین کر دیا جس کی ایک بڑی وجہ معصومیت اورسیکھنے کی زبردست صلاحیت اس میں کوئی شک نہیں کہ بچپن کی تربیت سے پیدا کی گئی صلاحیت آخری دم تک ساتھ رہتی ہے اور بہترین فرد ہی بہترین معاشرے کی تکمیل کرتا ہے

ہمارے معاشرے میں بچہ اور اس کی تربیت کا طریق بہت تبدیل ہو گیا ہے جس کے بہت خوف ناک نتائج سامنے آنے لگے ہیں جس میں عدم برداشت، غصہ اور ذہنی دباو، چڑچڑا پن، مایوسی، اداسی، اور تخلیقی صلاحیتوں کی کمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اگر ہم دیکھیں تو دنیا میں کھیل کا میدان ہو یا کوئی اور شعبہ ہم خود کو بہت پیچھے دیکھتے ہیں اس کی بنیادی وجہ ہے ہمارے بچوں کی ذہنی صلاحیت کا کمی ہے جو فطری طور پر نہیں ہے لیکن جدید طرز کو اپنانے کی دوڑ میں اور معاشرتی و معاشی معاملات کو پورا کرنے کی کوشش میں ہم نے اپنے بچوں کی تربیت کو نظر انداز کر دیا جو ہماری ناکامی کا سبب بھی ہے اور ہمارے بچوں میں منفی سوچ اور منفی رویے پیدا کرنے میں اہم کردار بھی ادا کر رہا ہے

آئیں آپ کو حنین مصطفیٰ سے ملواتے ہیں جو اپنی خوبصورت آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے غصے سے چیختا ہوا حنین مصطفیٰ ہر بات پر نہ نہ کر رہا تھا اسے بہلانے کی لاکھ کوشش کی گئی لیکن کبھی وہ بیڈ کے نیچے کبھی صوفے کے پیچھے چھپ رہا تھا رو رہا تھا اور کھلونے ادھر ادھر پھینک رہا تھا یہ معاملہ کافی عرصہ سے تھا لیکن اب اس میں شدت آ گئی تھی

ایسی ہی صورت حال کا سامنا والدین کو اپنے دوسرے بچوں کی طرف سے بھی تھا کیوں کہ تمام بچے سات سال سے کم عمر کے تھے تو ان کا یہ رویہ جس میں غصہ، ضد، چیخنا، رونا، کہنا نہ ماننا اور چیزوں کی توڑ پھوڑ سر فہرست تھی اور یہ صورت حال دن بدن بڑھتی چلی جارہی تھی والدین کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا ایک طرف کرونا اور لاک ڈاؤن کی پریشانی بچوں کے سکول بند والدین کے دفتر بند خوف سے گھر کے در دریچے بھی بند کوئی سرگرمی نہیں جس کی وجہ سے انہیں اس مسلے کا حل نظر نہیں آ رہا تھا

والدین کا خیال تھا کہ بچے شاید اپنے سکول کو یاد کرتے ہیں اس طرف مقید ہونا انہیں پسند نہیں ساتھ یہ بھی تھا کہ ہو سکتا ہے پہلے انہیں بچوں کے ساتھ اتنا وقت گزاری کا موقع نہ ملا ہو وہ بھی اس چیز کے عادی نہ ہو لیکن معاملہ اہم نوعیت کا تھا

اسی مسئلہ کو لے کر جب ایک ماہر نفسیات سے بات ہوئی تو بہت ہی اہم باتیں سامنے آئیں جن کا علم ہونا نہ صرف حنین کے والدین کو بلکہ سب کے لئے ضروری ہے ماہر نفسیات نے بچے کو دیکھا اسے پیار کیا تو حنین مصطفی ٰ کی آنکھیں چمکنے لگیں اس کے چہرے پر مسکان بکھرنے لگی حینن نے ڈاکٹر صاحب کے پاس پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے کھلونوں میں دلچسپی کا اظہار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے وہ کھلونے محبت سے اس کی طرف بڑھا دیے

والدین سو چ رہے تھے کہ اب وہ ان کے بچے اور اس کے مسائل کے بارے میں بات کریں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ چند ایک سوال کیے اور جیسے جیسے سوال کر رہے تھے والدین کی آنکھوں میں حیرانی اور پریشانی اور زیادہ ہو رہی تھی انہیں سوال نہیں بلکہ گزرا ہو ا کل اور اس کا ہر پل یاد آ رہا تھا وہ سارے مناظر نظر آرہے تھے انہیں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ گھر سے دونوں دفتر کے لئے چلے جاتے ہیں اور پورا دن وہاں گزار کر آتے ہیں۔

بچے ڈے کیئر والوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ گھر میں دفتروں کے کام لے آتے ہیں اور گھر آکر بھی موبائل اور لیپ ٹا پ سے چپکے رہتے ہیں۔ بچے پاس آتے ہیں تو اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ وقت نہیں گزارتے بلکہ اپنا کام کرنے کے لئے انہیں موبائل یا ٹی وی پر کارٹون میں مصروف کر دیتے ہیں۔ اگر بچہ کوئی سوال کرے تو اسے رد کر دیتے ہیں، ذاتی، سماجی اور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے آپس میں بھی تو تکرار ہو جاتی ہے جو کبھی کبھار چیخم دھاڑم تک پہنچ جاتی ہے جسے بچے دیکھتے ہیں۔

والدین کے طور پر اپنے بچے میں صرف اچھائیاں دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی دلی خواہش ہیں کہ ان کے بچے ہمیشہ امتیازی نمبر حاصل کریں اور سارے خاندان میں ان کا نام فخر سے لیا جائے۔ ان کی یہ بھی آرزو ہے کہ ان کے بچے بے حد باتمیز ہو اور کسی مشینی انسانی کی طرح ان کے ہر حکم کی تعمیل کریں۔ انہیں اس سے کوئی سروکارنہیں کہ وہ بچے ہیں تو کیوں ہیں بلکہ ان کے دل میں خیال آتا ہے کہ انہیں ہمارے ساتھ بڑوں کی طرح برتاؤ کرنا ہو گا کیوں کہ گھر کو چلانے کے لئے جن مسائل سے ہم گزر رہے ہیں اس میں انہیں ہمارا ساتھ دینا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب کے سوالات کے دوران انہیں غصہ، طنز، اور خاص طور پر نظر انداز کرنے والے تمام مناظر یاد آرہے تھے

ڈاکٹر صاحب کی ہر بات ان کی آنکھو ں کے سامنے حقیقت کی صورت میں گھوم رہی تھی جب انہوں نے کہاکیا ایسا سب آپ کے گھر بھی ہوتا ہے تو ندامت، دکھ اور افسوس کے ملے جلے احساسات کے ساتھ ان کے پاس ہاں میں جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا جس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا محترم والدین اگر آپ خفانہ ہوں تو میں کہ کہوں گا کہ اس صورت میں بچے کو نہیں آپ کو علاج اور رہنمائی کی ضرورت ہے اس شرمندگی میں انہوں نے اتنا پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے تا کہ ہم اس صورت حال سے باہر نکل آئیں اور بچوں کے مسائل بھی ختم ہو جائیں اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں جس پر ڈاکٹر صاحب نے اہم مشورے دیے

· بچوں کی حوصلہ افزائی کریں ہر اچھے کام پر ان کے کام کی تعریف کریں

· کبھی بھی بچوں کا موازنہ کسی دوسرے بچے یا خاندان کے بچے سے نہ کریں کیوں کے قدرت نے اسے منفرد بنایا ہے

· بچوں کو کبھی بھی نہ یا کیوں نہ کہیں بلکہ اس کے متبادل مثبت الفاظ استعمال کریں

· بچوں کے ساتھ دن میں کم از کم دو گھنٹے وقت ضرور گزاریں اور ان کے ساتھ جسمانی سرگرمیاں جن میں کھیل وغیرہ ہے ضرور کریں اس سے محبت اور احترام بڑھے گا

· ان کے لئے سرگرمیاں ترتیب دیں تاکہ وہ فارغ نہ رہیں کیوں کہ بچہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے جتنا اسے مصروف اور بامقصد سرگرمی میں مصروف رکھیں گے وہ بچہ زیادہ سکھے گا

· بچوں میں سے ہر بچے کو والدین الگ کم از کم دس منٹ ضرور دیں جس میں اس کی خوشی اور غم اورتمام سرگرمیاں پوچھیں بچہ آپ کو بتائے گا اور کبھی بھی کوئی بات اپنے سینے میں راز بنا کر یا بوجھ بنا کر نہیں پھرے گا

· گھر میں منفی الفاظ کا استعمال خاص طور پر بچوں کے سامنے نہ کریں

· اگر ممکن ہو تو عصر سے مغرب کا وقت مکمل بچوں کو دیں اور تمام بیرونی روابط منقتع کردیں تاکہ آپ اور آپ کے بچے انجوائے کر سکیں

· بچے کی سنیں ایک دو یا سو بار سنائے تو سنیں اسے نہ نا کریں اس کی تخلیقی صلاحیتیں اور بہتر ہو جائیں گی

· کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے بچے کی عزت نفس مجروح ہو اسے حقیر، برا، بیکار، ناکارہ، بدصورت، بداخلاق، بدتمیز والے الفاظ سے نہ پکارئیں

· اپنے خاندان میں ہونے والے اجتماع میں بچوں کو ضرورشامل کریں تاکہ ان ہچکچاہٹ ختم ہو سکے اور ان کا اعتماد بحال ہو

تمام والدین اگر ان باتوں پر عمل کریں توآپ کے بچے کبھی غصہ نہیں کریں گے اور نہ ہی منفی سوچ یا رویے ان کے اندر پیدا ہو سکیں گے بچے قدرت کا انمول تحفہ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہے

ان کو وقت دیجئے یہ آپ کو وقت دیں گے ان سے پیار کیجیے یہ آپ سے پیار کریں گے، ان کو حوصلہ دیجیے یہ آپ کا سہارا بنیں گے، والدین مثال بنیں گے تو بچے کمال بنیں گے

اپنوں کے سپنوں کا خیال ہی حصول کمال ہے اور یاد رکھیے گھر کے اندر ہونا اور دل کے اندر ہونے میں بڑا فرق ہے بچوں کے دل اور ذہن میں اپنی جگہ بنائیں آپ ان کا آئینہ ہیں جو آپ کریں گے ویسا ہی وہ کریں گے تو بچوں کو ٹھیک کرنے کے بجائے اپنے روئے اور اپنی ترتیب درست کر لیں وہ خود بخود بہتر ہو جائیں گے حنین مصطفی ٰ کے والدین نے یہ طریق اپنا لیا ہے اور بہت خوش ہیں آپ بھی اپنائیں اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنائیں

گلی محلے، مکیں مکاں کی
انہی سے رونق ہے اس جہاں کی
دل و نگاہ کا قر ار بچے
یہ میرے کل کا وقار بچے

اربیلا سحر
Latest posts by اربیلا سحر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments