کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا قسط 6


میں نے ذہن بہت پہ زور دیا لیکن یاد نہ آیا کہ ٹوتھ برش رکھا تھا یا نہیں۔ طوہاً و کرہاً سوٹ کیس دوبارہ کھول کے ایک ایک چیز پھر باہر نکالی۔ اس کے بعد ہر کپڑے کو جھاڑا، سوٹ کیس کے تمام خانوں کو درجنوں بار ٹٹولا۔ پھر سوٹ کیس کو الٹا کے زور زور سے ہلایا جلایا۔ جارج اور دیپک کے ٹوتھ برش مجھے اس دوران بیسیوں دفعہ ملے لیکن اپنا کہیں نظر نہ آیا۔ بالآخر تقریباً دو گھنٹے کی تلاش کے بعد مجھے وہ کمبخت ایک جوتے کے اندر سے ملا۔

اب سکھ کا سانس لے کے بیٹھنے لگا تو احساس ہوا کہ اب تک کی ساری محنت اکارت ہو چکی تھی کیونکہ سوٹ کیس باکل خالی تھا اور سارے کمرے میں سامان بے ترتیبی سے بکھرا پڑا تھا جس کو اب نئے سرے سے پیک کرنا تھا۔ ناچار سب کچھ دوبارہ پیک کیا تو صابن باہر رہ گیا۔ الغرض سوٹ کیس بار بار کھلتا اور بند ہوتا رہا حتی کہ رات کے دس بج گئے۔ اس موقع پہ سوٹ کیس کو آخری مرتبہ بند کرتے ہوئے میں نے اعلان کیا کہ، ”اب جو اس کے باہر ہے وہ تا قیامت باہر ہی رہے گا اور اس کے بعد اگر کسی نے سوٹ کیس کی طرف اشارہ بھی کیا تو میں سوٹ کیس سمیت پورے گھر کو اور یہاں سے فارغ ہوکے سارے لندن کو آگ لگا دوں گا۔“

اس مختصر تقریر دلپذیر کا سامعین پہ میری توقع سے کہیں زیادہ اثر ہوا اور وہ دونوں اپنی نشستوں سے اٹھتے ہوئے بولے، سوٹ کیس کو دفع کرو اور آرام سے بیٹھو۔ ابھی سارے برتن اور خورونوش کا سامان پیک کرنا رہتا ہے اور پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے۔ باقی کام ہم کرلیتے ہیں کیونکہ صبح جلدی نکلنا ہے۔

گویا اب تماشا دیکھنے کی میری باری تھی۔ انہوں نے بہت پر اعتمادی سے یہ سوچتے ہوئے کام کا آغاز کیا کہ ابھی اس کو دکھاتے ہیں کہ، ”چغد انسان، پیکنگ ایسے کرتے ہیں“ ۔ میں نے دیگچیوں، پلیٹوں، گلاسوں، جام کی بوتلوں، سبزیوں اور پھلوں وغیرہ کے ڈھیر کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا کہ اب کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔ اور یہی ہوا۔ سب سے پہلے جارج نے جو کپ اٹھایا وہ اس کے ہاتھ سے پھسل کے چکنا چور ہو گیا۔ اس کے بعد دیپک نے جام کی بوتلوں کا ڈبہ ٹماٹروں کے اوپر رکھ کے ٹماٹروں کا ملیدہ بنا دیا۔ جارج جام کا ڈبہ ٹماٹروں پہ سے اٹھانے کے لیے تیزی سے لپکا تو اس کا پاؤں مکھن کے پیکٹ پہ آ گیا۔

انہوں نے کھسیانی نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن میں منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر کرسی پہ ذرا اور آگے ہوکے بیٹھ گیا۔ مقصد انہیں یہ احساس دلانا تھا کہ میں سب کچھ بغور دیکھ رہا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے کچھ بھی کہنے کی نسبت میرا یوں بیٹھنا انہیں زیادہ تپائے گا۔ اب انہوں نے جلدی جلدی الٹے سیدھے ہاتھ پاؤں چلانے شروع کردیے۔ کبھی کوئی چیز ان کے پاؤں کے نیچے کچلی جاتی تو کبھی کسی وزنی تھیلے کے نیچے آکے کسی کا پاؤں کچلا جاتا۔ کسی چیز کو وہ یہ سوچ کے ایک طرف کردیتے کہ اس کو بعد میں پیک کریں گے اور پھر اس کے اوپر بے دھیانی میں کچھ اور رکھ دیتے۔ کچھ دیر بعد پہلے والی چیز کو دھونڈنے کے لیے سارے کمرے میں ناچتے پھرتے۔

نمک والی تھیلی مرچوں کے ساتھ رکھنے کے لیے جارج نے دیپک کی طرف اچھالی تو وہ کسی چیز سے ٹکرا کے راستے میں ہی پھٹ گئی اور سارے سامان پہ نمک کا نہایت نفیس چھڑکاؤ ہو گیا۔ اور مکھن۔ اس سے پہلے میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ڈیڑھ پاؤ مکھن کے ساتھ کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ جارج نے اپنے جوتے کے نیچے سے مکھن کا پیکٹ نکالنے کے بعد اس کو ایک کیتلی میں ٹھونسے کی کوشش کی لیکن کیتلی میں پہلے ہی کچھ تھا اس لیے اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔

پھر اس نے کیتلی کو خالی کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے اندر جو کچھ بھی تھا اس نے باہر آنے سے انکار کر دیا۔ تنگ آکے جارج مکھن کرسی پہ رکھ کے کسی اور کام میں مشغول ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد دیپک ذرا دم لینے کے لیے اسی کرسی پہ بیٹھ گیا اور جب وہ اٹھا تو مکھن اس کی پشت کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ سارے کمرے میں اسے ڈھونڈنے لگے۔

جارج نے کہا، ”میں قسم اٹھا سکتا ہوں کہ میں نے مکھن کرسی پہ رکھا تھا“ ۔ دیپک نے جواب دیا، ”میں نے خود تمہیں اسے کرسی پہ رکھتے ہوئے دیکھا تھا“ ۔ اس کے بعد دونوں اس کی تلاش میں مختلف سمتوں میں نکل گئے اور ناکام ہوکے کمرے کے وسط میں واپس آکے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ”اس سے زیادہ عجیب و غریب صورت حال میں نے کبھی نہیں دیکھی“ ۔ جارج بولا۔ ”یہ تو بالکل ناقابل یقین ہے“ ، دیپک نے کہا۔ پھر دیپک اسے دوبارہ ڈھونڈنے کے لیے مڑا تو جارج کی نظر اس کے پیچھے چپکے ہوئے مکھن کے پیکٹ پہ پڑ گئی۔

”ارے، یہ رہا مکھن“ ، جارج کے منہ سے نکلا۔ ”کہاں؟“ ، دیپک دوبارہ تیزی سے اس کی طرف گھوما۔ ”تمہارے پیچھے احمق، تم ایک سیکنڈ کے لیے ٹک کے ایک جگہ کھڑے نہیں ہو سکتے“ جارج نے بھنا کے کہا۔ اس کے بعد بدقت تمام مکھن کو دیپک کی پتلون سے الگ کرکے چائے دانی میں رکھنے تک کے مراحل طے ہونے تک رات کے بارہ بج چکے تھے۔

اس ساری کارروائی کے دوران مانی باقاعدگی سے مسلسل ہر اس جگہ پہنچتا رہا، جہاں وہ کام میں زیادہ سے زیادہ مداخلت کر سکتا تھا۔ مانی کا مقصد حیات یہ ہے کہ وہ کسی کو کوئی کام نہ کرنے دے۔ جس روز وہ ہر اس جگہ گھسنے میں کامیاب ہو جائے جہاں اسے جوتے پڑنے اور گالیاں کھانے کی امید ہو، وہ اس کی زندگی کا بہترین دن ہوتا ہے۔ لیکن جس دن کوئی اس سے ٹکرا کے گر جائے اور پھر ایک گھنٹے تک اسے برا بھلا کہتا رہے اس دن تو گویا اس کی عید ہوجاتی ہے۔

اس روز وہ عین اس وقت ہر اس چیز پہ بیٹھا جس وقت کسی کو اس کی ضرورت پڑی۔ جارج اور دیپک جب بھی کوئی چیز اٹھانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتے، مانی اپنی گیلی تھوتھنی آگے کرکے ان کے ہاتھ سے رگڑنے لگتا۔ چمچوں اور کانٹوں کو اٹھا کے پردوں کے پیچھے، صوفوں کے نیچے اور برتنوں کے اندر چھپانا اس دن اس کے محبوب ترین مشاغل میں شامل تھا۔ چوہوں کی عدم موجودگی سے دل چھوٹا کرنے کی بجائے مانی نے لیموؤں کو چوہوں کے متبادل کے طور پہ قبول کر لیا اور سبزیوں والے تھیلے میں گھس کے نصف درجن چوہے، یعنی لیموں مار دیے۔

آخرکار رات کے تقریباً ایک بجے پیکنگ مکمل ہوئی۔ دیپک نے برتنوں والے تھیلے کے اوپر بیٹھتے ہوئے کہا، امید ہے سب کچھ صحیح سلامت پیک ہوگیا ہو گا۔ جارج بولا، ”اور اگر کچھ ٹوٹ بھی گیا ہے تو ظاہر ہے کہ دوبارہ جڑ نہیں سکتا“ ۔ اس پہ سب نے صاد کیا اور فیصلہ ہوا کہ اب سو جانا چاہیے۔

”میں تم دونوں کو صبح چھے بجے جگا دوں گا“ ، جارج نے کہا۔
”چھے بہت جلدی ہے، سات ٹھیک رہے گا“ دیپک نے جواب دیا۔

چھے اور سات کی بحث کو طول پکڑتا دیکھ کے میں نے ساڑھے چھے پہ دونوں کو راضی کر لیا اور ہم سونے کے لیے لیٹ گئے۔

اگلی صبح ہمیں میرے خانساماں نے جگایا۔ ”سر، نو بج چکے ہیں، میں نے سوچا آپ کو جگا دوں“ ، وہ بولا۔

میں نے دیپک کو جگا کے بتایا کہ نو بج چکے ہیں۔ ”لیکن ہم نے تو ساڑھے چھے بجے اٹھنا تھا، تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ دیپک چلایا۔“ تم نے مجھے نہیں جگایا تو میں تمہیں کیسے جگاتا۔ اور تم تو ایسے گھوڑے بیچ کے سوئے ہوئے تھے کہ اب بھی میں نہ جگاتا تو شاید سارا دن سوئے رہتے ”۔ یہ کہہ کے میں نے دیپک کا منہ بند کر دیا۔ ابھی ہم ایک دوسرے کو گھور ہی رہے تھے کہ ہمارے کانوں میں کسی کے خراٹوں کی آواز آئی۔ دیکھا تو جارج صاحب دنیا و ما فیہا سے بے خبر سوئے ہوئے تھے۔

معلوم نہیں آپ کے ساتھ بھی یہ ہوتا ہے یا نہیں لیکن میرا معاملہ یہ ہے کہ میں جب خود جاگ رہا ہوں تو کسی اور کو محو خواب دیکھ کے میرا دل بیٹھ جاتا ہے۔ میں اتنا حساس ہوں کہ میں کسی کی مختصر زندگی کے بیش قیمت لمحات، یوں ضائع ہوتے ہوئے دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اور یہاں ہماری نظروں کے سامنے جارج دنیا کی سب سے قیمتی متاع، یعنی وقت، کو بے دریغ لٹا رہا تھا۔ اسے احساس تک نہیں تھا کہ گزرنے والے ہر لمحہ کتنا گراں مایہ ہے، جس نے دوبارہ کبھی لوٹ کے واپس نہیں آنا۔ یہی وقت جو جارج سونے میں گنوا رہا تھا، اس میں انسان کتنے بامقصد اور مفید کام کر سکتا ہے۔ مثلاً انسان تاش کھیل سکتا ہے، اخبار پڑھ سکتا ہے، ٹی وی دیکھ سکتا ہے، گلی کے آوارہ کتوں کے پیچھے بھاگ سکتا ہے یا دکانوں میں جھانک کے ان چیزوں کی قیمتیں دریافت کر سکتا ہے جو اسے نہیں خریدنی۔

(جاری ہے )

اس سیریز کے دیگر حصےکشتی، تین دوست اور برائے نام کتا قسط 5کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا (قسط 7)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments