مصنوعی چہرہ


سوال ہی نہ تھا دشمن کی فتح یابی کا
ہماری صف میں منافق اگر نہیں آتے

سکول کے زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ چہرہ انسان کے ذہن کی تصویر ہے اور آنکھیں اس کی ترجمان ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ نفسیات کے علما یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان کے چہرے میں اس کی سوانح عمری کا عکس ملتا ہے۔ اور ان کے نزدیک اس علم کو چہرہ شناسی (Face Reading) کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف جمالیات کے حامی انسان کے چہرے سے اس کا سارا حسن مربوط کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خوبصورتی انسانی چہرے پر موجود اعضا کے آپس میں توازن کا نام ہے اور حسن کے لئے پیشانی، آبرو، ناک، ہونٹ، ٹھوڑی اور لمبائی چوڑائی میں توازن پر خوبصورتی کا معیار قائم ہے۔

اگرچہ اخلاقیات کے مدرسین کا خیال ہے کہ انسان کا کردار اس کے چہرہ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہم پر فی الفور اثر انداز ہونے والا انسان کا چہرہ ہی ہوتا ہے جبکہ اس کے کردار اور مزاج کو سمجھنے کے لئے خاصہ وقت درکار ہوتا ہے۔

اس مضمون میں ہم ایک ایسے انسانی چہرے کی اناٹومی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسے ایک فقرے میں ”مصنوعی چہرہ“ کہا جاسکتا ہے جو کہ آج کی اکثریت اس کو مختلف حالات اور ماحول کے مطابق پہنتی ہے۔ جیسا کہ مارٹی روبن کا قول ہے کہ:

”Every face is born with thousand masks to go with.“

جس کا سادہ الفاظ میں یہی مطلب ہے کہ ہر انسان کے کئی چہرے ہیں جو کہ اس کے گوشت پوست چہرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔

ہمارے تجربے میں اکثر یہ مصنوعی چہرے آتے رہتے ہیں مثلاً گھر میں، حجرے میں، مسجد میں، دفتر میں، کسی بزنس سنٹر میں، اپنوں کے ساتھ یا پرائے کے ساتھ الغرض ہر ہر لمحہ انسان کو چہرہ بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے جس میں انسان کا اپنا اصلی چہرہ مسخ ہو جاتا ہے اور پھر نہ اس کو اور نہ دوسروں کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اصلی چہرہ کون سا ہے۔

آرٹ اور فن کے ماہرین سے اگر کوئی پوچھے تو شاید وہ اس کو اداکاری سے تعبیر کریں گے یا عمرانیاتی استدلال کے مطابق یہ معاشرتی زندگی کا تقاضا کہلائیں گے اور اسی طرح سیاسی حضرات اس کو شاید ہوشیاری اور دانشمندی سے مربوط کریں گے لیکن کائناتی اعتقاد والے اس کو دو ٹوک الفاظ میں عیاری، چالاکی اور مکاری سے موسوم کرتے ہیں جس کو ایک لفظ میں ”منافقت“ کہا جا سکتا ہے۔

مصنوعی چہرہ اس دور کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ تو صدیوں پرانی بات ہے کہ جب سے انسان جھوٹ، لالچ، دھوکہ، بد دیانتی، دغا بازی، خیانت اور خوشامد کے دلدل میں قدم رکھا ہے اس وقت سے لے کر آج تک انسان اپنا چہرہ موقع اور وار کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔

تاریخ کے آئینے اور ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر مصنوعی چہروں کے علاوہ نورانی، مخلص، ہمدرد، روحانی اور آفاقی اقدار والے سچے چہرے بھی ہوا کرتے تھے جو کہ غدار، جھوٹے، احمق اور منافق چہروں سے ایک جدا گانہ تشخص کے مالک تھے۔ اس حوالے سے فرعون، نمرود، ابو جہل، ابو لہب کے ساتھ ساتھ بہت سے فلسفیانہ، شاعرانہ، عاشقانہ اور سحر انگیز چہروں کے بھی تذکرے موجود ہیں اور اگر اس موقع پر آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ پر نور مبارک کا ذکر نہ کیا جائے تو بڑی زیادتی ہو گی جس کے بارے میں عائشہ صدیقہ رض فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ پر نور مبارک کے سامنے چاند کی روشنی ماند پڑ جاتی تھی۔

ماضی کے اوراق سے نکل کر ہم موجودہ زمانے میں مصنوعی چہروں کی مختلف شکلوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جو کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انواع و اقسام کے لوگ اپنی مطلب بر آوری کے لیے پہنتے رہتے ہیں، مثلاً: سیاسی چہرہ، سرکاری چہرہ، دفتری چہرہ، افسری چہرہ، ماتحتی چہرہ، طبیبی چہرہ، مریضی چہرہ، امیر چہرہ، مفلس چہرہ، خوشامدی چہرہ، بھکاری چہرہ، وغیرہ۔ الغرض ہمارے ہاں منافق چہروں کی کمی نہیں ہے۔ یہ منافق کردار موقع و محل کے مطابق اپنے گوشت پوست فطری چہرہ پر مختلف ماسک پہنتے ہیں اور بیچارے فلسفی، سائنسدان اور سائیکالوجسٹ اور حق پرست نباض اور نقاد بھی پریشان ہیں کہ اگر وہ کوئی رائے قائم کرنا چاہیے بھی تو کس کے کون سے ما سک کو زیر مطالعہ رکھے۔

ہمارے ملک میں ویسے زیادہ تر لوگ اس مصنوعی چہرے کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور مستزاد یہ کہ بالا نشین لوگ اسی مصنوعی چہرہ سے خوش ہوتے ہیں جو کہ ایسی حالت میں ماتحتوں کا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا جس کا سب سے زیادہ نقصان معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے علمبرداروں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ان مصنوعی چہروں میں سب سے زیادہ نقصان دہ سیاسی چہرہ ہے جو کہ مفلس، نادار اور زندگی کے آسائشوں سے محروم طبقے کا خون پینے اور ہڈیاں چھپانے کے کام آتا ہے۔ اور بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ:

”امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے“
اور اسی لئے اقبال سے انقلابی بغاوت کا فرمان آتا ہے کہ:
”کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو“

اور کائناتی افکار میں ایسے لوگ جو ملکی وسائل اور دولت پر بغیر محنت کے قابض ہیں ان کے گرد نوں کو مروڑ کر ملک بدر کرنا چاہیے۔

اسی طرح آج کے ڈاکٹر، وکیل، پٹواری، انجنئیر، ٹھیکیدار، صوبائی، ضلعی اور محکمانہ ناظمین بھی اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے نام نہاد مصنوعی چہروں کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر ہم ڈاکٹرز کو دیکھیں تو لوگوں کے مصائب اور آلام میں ان کا منافع ہے جو کہ بظاہر ہم ان کو ہم مسیحا سمجھتے ہیں جبکہ ان میں سے بہت ہی کم مسیحا کے منصب پر پورے اترتے ہیں۔ اسی طرح وکلا اور پولیس کے افسران پر اگر نظر ڈالی جائے تو ان میں بھی مخلص چہروں کی کمی نظر آتی ہے۔

اور ان میں بھی مصنوعی چہروں والوں کے فائدے ہی فائدے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ڈپارٹمنٹ کے منتظمین میں بھی وہی لوگ طمطراق اور پر آسائش زندگی کے مزے لے رہے ہیں جو شیطانی کردار ادا کرنے کے ماہر ہوں۔ پٹوار، انکم ٹیکس، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، واپڈا، سی اینڈ ڈبلیو اور مختلف اداروں میں ایسے ایسے سورما آپ کو نظر آئیں گے جن کے منہ کا ذائقہ غریب عوام کے خون اور ہڈیاں چوسنے سے بنتا ہے۔ جب تک ہمارے وطن میں ایسے مصنوعی ماہرین، مصنوعی منتظمین، مصنوعی اہلکار، مصنوعی ہمدرد، مصنوعی مسیحا، مصنوعی وفادار، مصنوعی محب وطن، مصنوعی معلم، مصنوعی متعلم، مصنوعی سرکار اور مصنوعی اپو زیشن موجود ہیں تو ایسی صورت حال میں تعلیمی پالیسی اور تعلیمی سسٹم کو مورد الزام ٹھہرانے کا بے تکی جواز جنت الحمقا میں رہنے کے مترادف ہے۔

ہم یورپ اور امریکہ کی ترقی کے گن گاتے تھکتے نہیں لیکن اپنے وطن میں ہم کو اپنا ظلم اور انسانی حقوق کی پامالیاں نظر نہیں آتیں۔ ہمارے اداروں کے اندر جو بے انصافی، بد دیانتی اور ظلم ہو رہا ہے اس نے عام آدمی کا ان اداروں پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔ اور جب ہم تنگ آتے ہیں تو کبھی بازاروں، سڑکوں اور اداروں کی دیواروں پر لکھتے ہیں کہ ”کرپشن سے پاک پاکستان“ تو کبھی لکھتے ہیں ”میں پاکستانی ہوں“ ، اور کبھی لکھتے ہیں ”رشوت خور جہنمی ہے“۔

اس حوالے سے ہماری من حیث القوم یہ بڑی بد نصیبی ہے کہ ہم کو اپنی ذات ہر حوالے سے مکمل لگتی ہے اور دوسروں میں ہزاروں عیب نکالتے ہیں اور اگر کوئی سچے چہرے والا ہم کو صحیح راستے پر چلنے کی تلقین بھی کرے تو وہ ہم کو بڑا ناگوار گزرتا ہے۔ منور رانا کی عکاسی ہے کہ:

ان سے ملیے جو یہاں پھیر بدل والے ہیں
ہم سے مت بولیے ہم لوگ غزل والے ہیں
کیسے شفاف لباسوں میں نظر آتے ہیں
کون مانے گا کہ یہ سب وہی کل والے ہیں
لوٹنے والے اسے قتل نہ کرتے لیکن
اس نے پہچان لیا تھا کہ بغل والے ہیں
اب تو مل جل کے پرندوں کو رہنا ہو گا
جتنے تالاب ہیں سب نیل کمل والے ہیں
بے کفن لاشوں کے انبار لگے ہیں لیکن
فخر سے کہتے ہیں ہم تاج محل والے ہیں

آپ سب کے علم میں یہ بات ہو گی کہ ہماری تقریر، تحریر، خطاب اور نصیحت کا سامعین، قارئین اور ناظرین پر اثر بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس حوالے سے مجھ ناچیز کی رائے یہ ہے کہ ہم کو چاہیے کہ ہم اپنا مصنوعی چہرہ ہٹائیں اور سچائی اور اخلاص کا سچا چہرہ برقرار رکھیں جس سے ہماری موجودہ اور آنے والی زندگی کی کامیابی اور سرخروئی کا بہت گہرا تعلق ہے۔

فرحت شہزاد کے الفاظ میں :
جرف جیسے ہو گئے سارے منافق ایک دم
کو ن سے لفظوں میں سمجھاؤں تمھیں دل کا پیام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments