ایک نوجوان ڈاکٹر کا موقف


\"ramish\"قاتل کا لفظ مسیحا کے ساتھ جڑے تو یہ اپنے آپ میں پریشان کن صورتحال ہے لیکن لوگ لکھ رہے ہیں اور جی جان سے لکھ رہے ہیں۔ \”مبینہ\” غفلت سے مریض جاں بحق کی خبر بھی ہم ہر چینل پہ روز ہی سنتے ہیں مگر اس کے پیچھے کی کہانی سے ناواقف ہوتے ہیں۔ دو ڈاکٹرز کی رائے لے کر کسی ایک کو غلط ٹھہرا دیتے ہیں ، دوا بروقت اور ہدایات کے مطابق استعمال نہیں کرتے، احتیاط نہیں کرتے ، پرہیز نہیں کرتے مگر قاتل وہ ہے جس کے پاس ہم \” بگڑی\” حالت میں مریض پہنچاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مقبول صحافی نے لکھا کہ آپریشن کرنے کی شوقین لیڈی ڈاکٹرز خواتین کے جسم کے خدوخال بگاڑ رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ انہی باتوں پر یقین بھی کرتے ہیں۔ یہاں اس بات سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ ایسا ہوتا بھی ہو گا مگر کیا واقعی اتنے بڑے پیمانے پر ہوتا ہے کہ یہ باقاعدہ ایک دھندے کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اس کے تدارک کی خاطر کوئی کچھ نہیں کر رہا؟

لوگ رائے دے رہے ہیں ہمیں بھی دیتے ہیں لیکن جو لوگ فیلڈ میں بیٹھے ہیں یا کسی سرکاری ہسپتال سے وابستہ ہیں وہ شاید اس صورتحال کا ایک اور رخ بھی پیش کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی بات پہ کوئی کیوں کان دھرے؟ پہلے تو یہ جان لیں کہ جتنا کام کاغذوں میں ہوتا ہے اور دکھایا جاتا ہے اس کے آدھا بھی اگر حقیقت میں ہو تو شاید مجھے یا آپ کو نظام سے کوئی گلہ ہی باقی نہ رہے۔ دوا خریدی جاتی ہے اور اس سے پہلے کہ دوا سرکاری ادارے میں پہنچے پہلے یہ چٹھی پہنچ جاتی ہے کہ فلاں فلاں دوا غیر معیاری ہے سو مریض کو ہرگز فراہم نہ کی جاوے سو یہ کہانی تو یہیں ختم ہو جاتی ہے جو دوا خریدی گئی مگر پہنچی نہیں اور غیرمعیاری ہے اس میں کوئی ہسپتال میں بیٹھا ڈاکٹر قصوروار ہونے سے رہا۔ یہ سمجھنا تو شاید آسان ہی ہو گا آپ کیلئے کہ اس مد میں کتنا پیسہ آگے پیچھے ہو جاتا ہے یا نہیں؟ لوگوں کی یہ توقع بےجا نہیں ہے کہ ڈاکٹر ان کی جان بچانے کی خاطر ہسپتال میں بیٹھا ہے اور اسے یہی سب کرنا بھی چاہیئے لیکن یہ توقع رکھنا کہ کوئی انسان صلے کی توقع کے بغیر کام کرتا رہے یہ بےجا ہے۔ کچھ بڑے نام جن کو دکھانے کی خاطر وہ کئی گھنٹے لائن میں بیٹھتے ہیں اور فیس ادا کرتے ہیں اس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب لوگ یونہی بیٹھے نوٹ چھاپ رہے ہیں کرتے کراتے کچھ نہیں ہیں۔ ایک کنسلٹنٹ کو کنسلٹنٹ بننے کیلئے کتنے سال درکار ہوتے ہیں؟ ان سب برسوں میں وہ کتنا عرصہ بغیر معاوضے کے چوبیس، اڑتالیس اور کچھ جگہوں پہ اس سے بھی زیادہ عرصہ کتنے گھنٹے کام کرتا ہے؟ کاروبار کرنے والے کو منافع کمانے کی اجازت ہے مگر اس کے جائز ناجائز منافع پہ کتنی بحث ہوتی ہے؟ مگر ڈاکٹر کے نام کے ساتھ فی سبیل اللہ قسم کی بات جوڑنے سے پہلے کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ جیسے ہم کام کرتے ہیں ، گھر چلاتے ہیں اسی طرح اس کے بھی رشتے ہیں اور انہیں بھی گھر چلانا ہے؟ کیا ضروریاتِ زندگی سے آسائش کے حصول کا حق باقی ہر شعبے کے انسان کو حاصل ہے ڈاکٹر کے سوا؟ بعض نہیں بلکہ اکثر اوقات \”غلط\” انجکشن سے مریض جاں بحق کی خبر کے پیچھے کچھ سچائیاں چھپی ہوتی ہیں جن میں ایک دوا کا ری ایکشن ہے جو کسی بھی انسان کو کبھی بھی ہو سکتا ہے اور دوسرا یہاں اکثر مریض ایسی بگڑی حالت میں ہسپتال پہنچتا ہے کہ لاکھ چاہنے پر بھی اسے بچایا نہیں جا سکتا۔ اکثریت ہے جو گھریلوں ٹوٹکوں، تعویز اور جھاڑ پھونک، عطائیوں کے پاس لگائے گئے چکروں کے بعد بلکہ یوں کہیں ان کے دیئے چکروں کے بعد بگڑ کر ہسپتال پہنچتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو مرض کی شدت میں کئی گنا اضافہ کر کے ہسپتال پہنچتے ہیں اور پھر پانچ منٹ ڈاکٹر نظر نہ آئے یا وہ کسی اور مریض کو دیکھ رہا ہو تو لواحقین گالم گلوچ اور توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی صاحب جو تاخیر آپ کرتے ہیں وہ جائز ہے کیونکہ آپ تو اپنے حساب سے علاج کر رہے تھے اور اب ہسپتال آنے کے بعد جو بھی ہوتا ہے اس میں صرف اور صرف ڈاکٹر قصوروار ہے؟ اکثر بزرگوں اور بچوں کے ساتھ آنے والے لواحقین یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا اپنی کمائی حرام کر رہے ہو پہلے ہمارا مریض دیکھو، اب اگر آپ دوا تجویز کر دیں تو ان میں اکثریت اس اولاد اور والدین کی ہے جو نہ وقت پر دوا دیں گے نہ خیال رکھیں گے جب حالت بگڑے تو ہسپتال لائیں گے اور کہیں گے بس جی کیا کریں بہت ضد کرتے ہیں دوا نہیں کھاتے۔ کچھ آپ کا فرض بھی ہے یا نہیں؟ بلند فشارِ خون یا ذیابیطس کے عارضے میں مبتلا وہ کتنے افراد ہیں جو ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا استعمال کرتے ہیں؟ شاید آپ سے زیادہ ڈاکٹرز ہی اس بات سے تنگ ہیں کہ آپ لوگ معائنہ کرانے اور دوا لکھوانے پہ جھگڑا کرتے ہیں مگر دوا کھانے میں اتنی دلچسپی نہیں دکھاتے۔

پیسے بٹورنے کی خاطر آپریشن کرنے کا الزام بھی اپنی جگہ شاید کچھ حقیقت رکھتا ہو مگر اکثریت ایسی نہیں ہے جیسی قاتل آپ نے سمجھ رکھی ہے۔ خاندان بھر کا صلاح مشورہ ہوتا ہے، بڑی عمر کی عورتیں داستان سناتی ہیں کہ ہم نے تو دس بچے پیدا کیے سب نارمل ہو گئے اب اس کو کیا ضرورت پڑ گئی؟ مریض اٹھائیں گے چار پانچ ڈاکٹر دائیوں سمیت ہر جگہ سے تسلی کرائیں گے پھر مانیں گے کہ اچھا چلو کر دو۔ اکثر جگہوں پہ تو پہلے دائی حالت خراب کرتی ہے پھر مریض ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے لیکن وہ دائی کا کیا ٹھیک ہے اور ڈاکٹر \”قاتل\” ہے یا \”قصائی\” ہے جو چیڑ پھاڑ اور بندے مارنے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ پہلے زمانے میں واقعی دس بارہ سولہ بچے ہوتے ہوں گے، کوئی دو چار ضائع ہوتے ہوں گے دو چار مر بھی جاتے ہیں مگر یہ ان بزرگ خواتیں کی گنتی میں نہیں آتے۔ جہاں ایک طرف ہر ماں کی زندگی اہم ہے وہاں اسے بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی اہم ہے۔ وہ کوئی بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے کہ لگے رہو دو چار زندہ رہیں دو چار مر جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ زچہ و بچہ کی صحت کے حوالے سے ہمارا ملک ابھی بہت پیچھے ہے اور تب تک پیچھے رہے گا جب تک دور دراز کے علاقوں تک محفوظ زچگی کی سہولت میسر نہیں ہو جاتی۔ یہ کام کوئی ایک انسان نہیں کر سکتا وہ جتنا بھی کرے پورے ملک کے ہر کونے تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ ایک نظام کے تحت ہی ہونا ہے اور اس نظام میں ڈاکٹر سے لے کر مریض تک ہر انسان کو جب تک سہولت فراہم نہیں کی جائے گی تب تک یہ ممکن نہیں۔

آپ کسی دکان سے سودا خریدیں وہ ٹھیک نہیں ہو گا تو آپ وہاں نہیں جائیں گے، جس بینک میں اکاؤنٹ ہے اس کی سروس خراب رہے تو آپ بینک بدل لیں گے۔دو منٹ بیٹھیں اور سوچیں مریض کے ٹھیک ہونے میں کس کا فائدہ ہے؟ آپ سے اور مریض سے بھی کہیں زیادہ فائدہ ڈاکٹر کا ہے کیونکہ اس سے اعتماد بڑھتا ہے اور آئندہ بھی لوگ اسی کے پاس آئیں گے۔ اگر مریض ٹھیک نہیں ہو گا تو اگلی بار اس خاندان کے لوگ اس ڈاکٹر کو گھاس تک نہیں ڈالیں گے۔ ہمارا چھوڑیں ہم پہ تو پروین شاکر نے بھی مقدمہ کر دیا کہ

یہ مسیحا ہیں ان کیلئے موت بھی

اک عام سا واقعہ ہے قیامت نہیں

مگر آپ کو شاید یہ جان کر افسوس ہو کہ کسی مسیحا کیلئے موت عام سا واقعہ نہیں ہوتی۔ کیا ضروری ہے کہ وہ آپ کے سامنے روئے یا چہرے سے پریشانی کا اظہار کرتا رہے تو ہی آپ سمجھیں کہ اسے بھی دکھ ہوا ہے؟ ظاہر ہے آپ کا کوئی قریبی عزیز جان سے جائے گا آپ کا صدمہ مختلف ہو گا شاید اس انسان سے وابستہ ہر رشتے کے احساسات مختلف ہوں گے ۔

فارماسیوٹیکل کمپنی سے گٹھ جوڑ ، قاتل مسیحا، پیشہ ور قصائی ، ٹیسٹوں کی آڑ میں لوٹ مار جیسی خبریں ہم روز سنتے ہیں، کتنی خبروں کی سچائی ہم جانتے ہیں؟ کتنے لوگ پیچیدگیوں سے واقف ہیں اور کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایسی بہت سی خبریں اکثر پیسہ بنانے کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں؟ کتابوں میں جو لکھی ہیں وہ پیچیدگیاں انسانوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں تو لکھی گئی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پیچیدگی اور غفلت میں فرق ہے مگر اس کا فیصلہ اسی شعبے کا کوئی ماہر کر سکتا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں اب سنی اس کی جاتی ہے جو سڑک پہ آ رہا ہے اس سے پہلے تک وہ روتا چیختا چلاتا رہے ، بولتا رہے تب تک کوئی کان نہیں دھرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments