چین شنجیانگ میں بھارت کے کرائے دھماکے نہیں بھولا


سابق آرمی چیف نے ریٹائر ہونے کے بعد حکمران کانگریس کے خلاف سیاسی محاذکھولا تھا، حتّٰی کہ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا۔اس وجہ سے کانگریسی زعما کا خیال تھا کی اس رپورٹ کے کچھ اقتباسات افشا کرکے جنرل سنگھ کو ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پرت در پرت ظاہر ہونے والی ٹی ایس ڈی کی سرگرمیاں فارن آفس کے ہوش اڑا دیں گی اور ہمسایہ ممالک کے بارے میں بھارت کی فوجی اور خارجہ پالیسی کے تضاد کو بے نقاب کردیں گی۔

رپورٹ کے افشا کے فوراً بعد حکومتی حلقوں نے خم ٹھونک کر اعلان کیا تھاکہ جنرل سنگھ اور ان کے قائم کردہ خفیہ یونٹ کی سرگرمیوں کی مزید جانچ مرکزی تفتیشی ایجنسی(سی بی آئی) سے کروائی جائے گی اور تفتیش کے اختتام پر ایک چارج شیٹ بھی کورٹ میں پیش کی جائے گی۔ تب تک جنرل سنگھ کے خلاف الزامات کا دائرہ کشمیر میں سیاستدانوں کو رقوم کی فراہمی اور وزارت دفاع کے افسروں اور فوج میں اپنے مخالفین کی فون کالزٹیپ کرنے تک محدود تھا،مگر جب یہ رپورٹ وزیراعظم کے دفتر پہنچی تویہ ہوش رْبا انکشاف ہوا کہ نہ صرف اس فوجی یونٹ نے پاکستان کے اندر آپریشن ’ڈیپ اسٹرائیک‘ کے کوڈ نام کے تحت کارروائیاں کی ہیں بلکہ چینی صوبہ سنکیانگ تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے ۔

کاشغر میں ہوئے دھماکے اور چین کے دیگر علاقوں میں افراتفری کیلئے بھی اسی یونٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ تو اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا کہ جامع تحقیقات سی بی آئی کے بجائے انٹیلی جنس ایجنسی (آئی بی) کے سپر د کی جائے تاکہ تحقیقات خفیہ رہے۔ جنرل بھاٹیہ کمیٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس خفیہ یونٹ نے ایک ہمسایہ ملک میں آٹھ بم دھماکے کرنے کے لیے وسائل فراہم کیے اور ایک دوسرے ہمسایہ ملک میں سیاسی اور مذہبی بے چینی کو ہوا دی۔ اس یونٹ نے ہمسایہ ملک میں سرگرم علیحدگی پسندوں کو نہ صرف وسائل فراہم کیے بلکہ انہیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی تحریک بھی دی۔

دراصل جنرل سنگھ کے پیش روجنرل دیپک کپور نے اس طرح کاایک ڈویژن قائم کرنے کی تجویز اس وقت کے وزیر دفاع اے کے انٹونی کو پیش کی تھی جس پر کابینہ کی سلامتی سے متعلق کمیٹی میں بحث بھی ہوئی۔ فوج کے ایک حلقے کاکہنا ہے کہ انٹونی نے جنرل سنگھ سے پہلے ہی اس یونٹ کے قیام پر اپنی مہر ثبت کردی تھی ، مگر انٹونی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ یونٹ سیاسی منظوری کے بغیر قائم کیاگیاتھا۔

حقائق جو بھی ہوں،اس یونٹ نے اپنا کام باضابطہ طور پرجنرل سنگھ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد مئی2010 سے شروع کیا اور40 افراد ،جن میں آٹھ افسران اور32 دوسرے رینکس کے اہلکارتھے ،کو اس کے کورگروپ میں شامل کیا گیا۔ یہ افراد براہ راست آرمی چیف کو رپورٹ کرتے تھے جبکہ انتظامی طور پر ان کو ملٹری انٹیلی جنس کے ایم ون 25 یونٹ کے ماتحت رکھا گیا۔ اس مدت کے دوران کئی مقامات ،خصوصاً جموں، سرینگر، احمدآباد، گوہاٹی اور ممبئی میں اس یونٹ نے کئی خفیہ ٹھکانے بنائے اور انتہائی جدید ٹیلی فون ریکارڈنگ مشینیں درآمد کیں۔

اس پیشرفت کے بعد انٹیلی جنس بیورو کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے سویلین انتظامیہ کو متنبہ کیاکہ فوج غیرقانونی طور پر افسروں اور سیاسی قیادت کے فون ٹیپ کررہی ہے۔ چند مشینوں کے سوا ،جنہیں لائن آف کنٹرول اور چینی سرحد پر متعین کیا گیا تھا، باقی مشینوں کو آئی بی نے 2013ء میں ناکارہ بنادیا اور ان میں سے ایک کو سرینگر میں دریائے جہلم کی نذر کردیاگیا۔ اس یونٹ کا ہیڈکوارٹر دہلی کی فوجی چھائونی کے اندردومنزلہ عمارت میں بنایاگیا تھا جو جلد ہی فوجیوں میں Butchery یعنی ’قصاب خانہ‘کہلانے لگا۔

ڈویژن کی کمان جنرل سنگھ نے اپنے ایک دیرینہ رفیق کار کرنل مہیشور ناتھ بخشی المعروف ھنی بخشی کے سپرد کی تھی۔ مینڈیٹ کے بارے میں آرمی افسروں کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف بھارت کی سکیورٹی پر اثر انداز ملکوں کے اندر آپریشن کرنا، عسکریت کے منبع کا قلع قمع کرنااور اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے ان ملکوں میں علیحدگی پسندعناصرکو وسائل فراہم کرنا اور ملک میںجاری شورش ختم کرنا تھا۔ فوجی افسروں کے مطابق یہ سارے اہداف صرف 20سے30 کروڑ روپے سالانہ خرچ کرکے حاصل کئے گئے تھے۔

2012ء میں اس پوری یونٹ کو تحلیل کرنے کے بعد کرنل ہنی بخشی کو ملٹری پولیس نے حراست میں لیکر اسکے کورٹ مارشل کے احکامات صادر کئے۔ دہلی چھائونی میں اسی قصاب خانہ میں ہی ان کو زیر حراست رکھا گیا ۔ مگر مئی 2014میں نریندر مودی کے برسراقتدار آتے ہی ، کورٹ مارشل کی کارروائی ختم کر دی گئی۔ جنرل وی کے سنگھ کو وزارت میں شامل کرکے وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنایا گیا۔ فی الوقت و ہ زمینی ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر ہیں۔ کرنل ہنی بخشی کی مراعات بحال کرکے ان کو بریگیڈئر کا درجہ دیکر ریٹائرڈ کر کے پوری تحقیقات ہی داخل دفترکی گئی۔

گو کہ من موہن سنگھ حکومت چینی ہم منصبوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی ، کہ اس یونٹ کی سرگرمیوں کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور کورٹ مارشل کی کارروائی کرکے اس نے چینی حکومت کو کسی طرح قائل بھی کردیا تھا ۔ مگر مودی نے آتے ہی جس طرح اس یونٹ کی کارروائیوں کو سراہا ہے ، ظاہر ہے کہ بیجنگ میں اس سے خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ شاید چین کسی اور ایشو کو صرف نظر بھی کرتا، مگر کاشغر میں ہوئے بم دھماکوں اور کئی دیگر علاقوں میں ہوئی تخریبی کارروائیوں کیلئے وہ غلطیوں کو بخشنے کے موڈ میں نہیں ہے۔

چینیوں کی ناراضگی کی ایک دوسری وجہ سرحدی علاقوں میں بھارتی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت ہے۔ چندسال قبل بھارتی کابینہ کی سلامتی سے متعلق امورکی کمیٹی نے چین کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پانچ سو ارب روپے کی منظوری دی جس کے تحت اس خطے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور ایک نئی فوجی سٹرائیک کور کا قیام شامل ہے۔پچھلے سال 66روڈ پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی۔ جس میں ایک نیپال کی سرحد سے ملحق تبت میں موجود ہندو تیرتھ استھان کیلاش مانسرور جانے کا راستہ بھی شامل ہے۔

اسی طرح بھارت‘ شمالی صوبہ ہماچل پردیش کو لداخ سے ایک ٹنل کے ذریعے جوڑنے کے لیے ایک خطیر رقم بھی مختص کر چکا ہے۔ ان اقدامات کے بعد چین کا رد عمل لازمی تھا۔

تیسری وجہ ہے کہ سفارتی سطح پر بھارت کسی بھی طرح سے سرحدی تنازعات کو سلجھانے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ بھارت جوں کی توں پوزیشن برقرار رکھنے میں بضد ہے، اسلئے مذاکرات کو طول دے رہا ہے۔ 1988ء میں راجیو گاندھی نے بیجنگ جاکر نئے تعلقات کی داغ بیل ڈالی تھی۔ چینی راہنما صدر یانگ شانگ کن ، وزیر اعظم لی پنگ اور ملٹری کمیشن کے سربراہ دنگ زیائو پنگ اسوقت چین کو ایک تجارتی اور مینوفیکچرنگ مرکز بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوتے تھے ۔

اپنے اردگرد 14میں سے 13ممالک کے ساتھ چین سرحدی تنازعہ سلجھانے کی تگ و دو کررہا تھا ، تاکہ اسکی پوری توجہ معاشی ایشوز کی طرف مرکوزرہے۔ صرف بھارت واحد ملک تھا ، جس کے ساتھ سرحدی تنازعات کے سلسلے میں کوئی میکانزم موجود نہیں تھا۔

راجیو گاندھی کے دورہ کے دوران سرحدی تنازعات کو سلجھانے کیلئے دونوں ملکوں کے فارن دفاتر میں مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دئے گئے۔ 1993ء میں وزیر اعظم نرسہما راوٗ نے اس سعی کو اورآگے لیجاکر سرحدوں کو پرامن رکھنے کے ایک معاہدہ پر دستخط کئے۔ اس کے مطابق دونوں ملکوں کی فوجی پارٹیاں ہتھیاروں کے بغیر پٹرولنگ کرکے واپس اپنے کیمپوں میں چلی جائیگی اور متنازعہ علاقوں میں جانے سے قبل ایک دوسر ے کو مطلع کرینگی۔اسکے علاوہ ان علاقوں میں کوئی انفراسٹرکچر کھڑا نہیں کیا جائیگا۔

2003ء میں چین نے شکایت کی کہ فارن دفاتر کے ورکنگ گروپ تنازعہ کو سلجھانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بیجنگ آمد پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ اس مسئلہ کو فارن آفس سے لیکر بھارتی وزیر اعظم اور چینی صدر کے قریبی معتمدوں کے حوالے کیا جائے۔ اس طرح خصوصی نمائندو ں کا تقرر ہوا۔

بھارت کی طرف سے طے ہوا کہ قومی سلامتی مشیر ، چونکہ ہمہ وقت وزیر اعظم کے رابطہ میں رہتا ہے، وہ چینی ہم منصبوں کے ساتھ گفت شنید کریگا۔ پچھلے سال تک دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں نے 22ادوار کے مذاکرات کئے ہیں۔ دو سال قبل سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے راقم کو بتایا کہ خصوصی نمائندو ں کا رول اب ختم ہو چکا ہے۔ مینن ، جنہوں نے پانچ سال تک یہ فریضہ انجام دیا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب دائی بنگو کے ساتھ مل کر لو اور دو کے فارمولہ کے تحت ایک حل ترتیب دیا ہے۔ اور اب اعلیٰ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اسکو باضابط میز پر لائے، جو وہ کرنے سے کترارہی ہے۔

دائی بنگو نے اپنے منصب سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک چینی جرنل میں لکھا تھا کہ انہون نے بھارت کو تجویز دی تھی کہ گراونڈ پوزیشن کا احترام کرتے ہوئے، دونوں ممالک یعنی بھارت لداخ میں اکسائی چن پر اور چین شمال مشرق میں اروناچل پردیش پر دعویٰ واپس لی لیں اور پھر باقی سیکٹریز میں جو بارڈر پر تقریباً پانچ کلومیٹر کا تفاوت ہے اسکو بھی مختلف سیکٹرز میں لو اور دو کے اصول کے تحت حل کرلیں۔ مگر بھارت کی طرف سے اس تجویز کا کوئی جواب نہیں آیا اور وہ ہر سال خصوصی نمائندوں کی میٹنگ کبھی بیجنگ اور کبھی دہلی میں طلب کرتا ہے۔

2016ء میںچینی فارن آفس کی دعوت پر دہلی میں کام کرنے والے تین صحافیوں نے تبت کا ایک تفصیلی دورہ کیا۔ میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ تبت اور یننان صوبہ کے شنگریلا علاقے سے واپسی پر بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے سینیر افسران نے ہمیں بریفنگ میں بتایا کہ ان کا ملک مذاکرات برائے مذاکرات کا قائل نہیں ہے۔ اگر مذاکرات حل کی طرف گامزن نہ ہوں، تو وہ وقت اور قومی وسائل برباد نہیں کرسکتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذریعے ایک براہ راست وارننگ پہنچائی جا ررہی تھی کہ مذاکرات کے سلسلے میں چین کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے۔

چین کی ناراضگی کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں جو دستاویزات سامنے آئے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت۔چین سرحدی تنازعہ بس ایک مفروضہ ہے، جس سے پچھلے 70سالوں سے بھارتی حکومت عوام و میڈیا کو بیوقوف بنارہی ہے۔ اسی وجہ سے 58سال گذرنے کے باوجود بھی 1962ء کی جنگ پر مبنی جنرل ہینڈرسن بروکس اور برگیڈیر پریم بھگت کی تصنیف شدہ رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جا رہی ہے۔ معروف صحافی کلدیپ نائر نے اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کیلئے کئی بار پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھایا۔

بعد میںحق اطلاعات قانون کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایک پیٹیشن دائر کی۔ جس کو اس وقت کے چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ نے کئی پیشیوں کے بعد خارج کردیا۔ اس دوران میں نے کئی بار انفارمیشن کمیشن کی کاروائی کو کور کیا۔ حبیب اللہ نے فیصلہ صادر کرنے سے قبل وزارت دفاع سے رپورٹ منگوا کر اسکا مطالعہ کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ اسکی بس ایک ہی کاپی ہے اور و ہ سیکرٹری دفاع کے کمرے میں ایک تجوری میں بند رہتی ہے اور اسکی کنجی صرف سیکرٹری کے پاس ہی ہوتی ہے۔

حال ہی میں حبیب اللہ نے راقم کو بتایا کہ وہ اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے اور کلدیپ نائر کی پیٹیشن کو خارج کرنے کے اپنے فیصلہ پر قائم ہیں، کیونکہ اس رپورٹ میں بھارتی فوج پر خاصے برے کمنٹ کئے گئے ہیں اور وہ ابھی بھی ان کے مورال کو ڈاون کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے نقشوں میں اس قدر تفاوت ہے کہ چین اس کو ایشو بنا کر بارڈر مذاکرات میں برتری حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت کے ایک معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ سرحدی تنازع ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں ، جس کو بھارتی سفارت کاری نے گزشتہ تین دہائیوں سے فریب اور دھوکہ دہی کے ذریعے بڑی کامیابی سے دنیا کے سامنے پیش کررکھا ہے۔

اس جھوٹے پروپیگنڈہ کا آغاز کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خود کیا تھا۔ لیکن اب دستاویزی ثبوتوں اور تاریخی حقائق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ تنازع دنیا کے سامنے تاریخ اور پھر سرحدی نقشوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے کے پیش کیا گیا ہے۔ جو حقائق سامنے آئے ہیںان سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بھارتی رہنمائوں اور سفارت کاروں نے 1959ء میں تاریخی حقائق کو میڈیا اورتحقیقی اداروں سے دور رکھا ‘ جس کے انتہائی نقصان دہ اور دوررس مضمرات رونما ہوئے۔

حد یہ ہے کہ کشمیر میں آزادی پسند رہنما بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے چین‘ پاکستان سرحدی معاہدے پر انگلیاں اٹھاتے رہے۔بھارت کے سیاسی لیڈراکثر اس الزام کو دہراتے رہتے ہیں اور میڈیا ان بیانات کو آسمانی فرمان سمجھ کرقبول کرلیتا ہے۔27اکتوبر1947ء کو جس وقت بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئی، تو ریاست جموں و کشمیر کا رقبہ 82,258 مربع میل دکھایا گیا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments