رجنی گندھا سپنے اپنے اور انو راگی من


ہم نفس! کہو کیسے ہو؟ گزشتہ دنوں کوہ قاف سے خبر آئی، کہ آکاس گنگا کا اک اور تارہ ٹوٹ گرا۔ یوگیش نے آنکھیں موند لیں۔ وہی یوگیش جس کے لکھے بول، ہمیں فلموں کی الف لیلا میں لے جاتے ہیں۔
”رم جھم گرے ساون، سلگ سلگ جائے من“۔
”دور کہیں جب دِن ڈھل جائے، سانجھ کی دُلھن بدن چرائے، چپکے سے آئے“۔
”نہ جانے کیوں، ہوتا ہے زندگی کے ساتھ“۔
”بڑی سُونی سُونی ہے، زندگی یہ زندگی“۔
اور سب سے بڑھ کے باسو چٹر جی کی فلم ”رجنی گندھا“ کے لیے، سلیل چودھری کی دُھن پر لکھے یوگیش کے دل گیر بول جو من توڑنے لگتے ہیں:
”کئی بار یوں بھی دیکھا ہے، یہ جو من کی سیما ریکھا ہے، من توڑنے لگتا ہے“۔
آہ! میرے مصاحب! بہت پہلے سلیل، کچھ دن پہلے یوگیش تو آج باسو چٹر جی ان کے تعاقب میں چل نکلے۔ یہی وہ کہکشاں تھی، جسے جگمگاتے، گاتے، دیکھتے، سنتے، فلمی الف لیلا کا حصہ بننے کی تمنا، تیرے میرے من بھیتر جاگی تھی۔

باسو بھٹا چاریہ، بمل دا، رشی کیش مکھر جی، گلزار، سادہ لوح باسو چٹر جی اور ان جیسے من موہنے فن کاروں جن نے کمرشل سنیما کے بیچ میں خود کو اس طرح سے سمویا کہ آج ان کی زندگی پر رشک آتا ہے۔ ان کا سفر سہل نہیں تھا، پہ راستہ کس کا آسان ہوا ہے!؟ ہماری راہ بھی تو کٹھن تھی۔ میں تم وہی تھے، جن نے ان من موہنے راہیوں کو دیکھ دیکھ سپنے بُنے؟ کاش چلنا بھی انھی سے سیکھا ہوتا!

باسو چٹر جی
لتا اور سلیل چودھری
یوگیش اور نیچے راجیش کھنہ

سانحہ ہے پر کیا جانیے کب ہوا۔ اپنی ذات کے اظہار کے لیے جس میدان کو چنا، اس میں اُترتے ہی آموختہ فراموش کر دیا۔ منڈی کی معیشت و مطالبے، یو ایس پی، ٹی آر پی یعنی ریٹنگ، کلائنٹ کی فرمایش، مجبوریاں، راہ رو کے طعنے، ہنر، صلاحیت قابلیت پہ سمجھوتے، بالآخر خود کی بولی لگانے تک جا پہنچنا! کیا ہم نے ان طعنوں کا جواب دینے کے لیے کوہ قاف کے سفر کا انتخاب کیا تھا؟ کیا ہم رقیب کو جواب دہ تھے، کہ ہم کام یاب ہیں، یا نا کام؟ کیا ہمیں اپنی کام یابیاں کسی کو دکھانا تھیں؟ ہم جن کی نظر میں پہلے سے باغی تھے، پھر وہ ہمیں کیوں کر مانتے؟

اے ہم سر، تمھیں وہ دن بھی یاد ہوں گے، جب گھر سے کرایہ لے کر شوٹنگ پر جایا کرتے تھے! کیا ہم نے تب سوچا بھی تھا، یہاں اس شعبے سے کچھ کمایا جا سکتا ہے؟ یا کمایا جانا چاہیے؟ میں نے یہ نہیں چاہا تھا! تم نے بھی یوں نہ چاہا ہو گا!؟ پھر کیوں کر ہوا کہ ہم نے اپنا اپنا مول لگایا؟ ہم ایسے کم حیثیت تھے کہ نیلام ہوتے! میں آج خود کو یوں کوستا ہوں، ”اجی روٹی ہی کمانا تھی، تو اور دھندے تھوڑے تھے“؟

تمھیں بھی یہ ادراک ہو گا، ہم سے کہیں بڑھ کے وہ محنت کش کما لے جاتا ہے، جو کسی سرکاری دفتر کے باہر چائے کی دکان سجاتا ہے۔ ہم وہ نہ تھے تو ہم نے اپنی کمائی کو اس کی آمدن سے کیوں ماپا؟ تم جانو کہ تمھیں خدا ملا یا وصال صنم، پہ ہم اس منج دھار پڑے سوچتے ہیں: ”حیف! کہاں سے چلے ہم کہاں کھو گئے“!

میرے انیس، وہ دن کیسے بھلائے جا سکتے ہیں، جب رکارڈنگز ہمارے لیے تفریح ہوا کرتی تھی۔ آج یہ تسکین نہیں کام ہے، تجارت ہے۔ دھندا ہے۔ اس احوال میں ایک تمھی دکھائی دیتے ہو، جو میرے اس دُکھ کو سمجھ سکتا ہے۔ تم اور میں ایک ساتھ ہی تو چلے تھے۔ ہمارے ساتھ کے کتنے پیچھے چھُوٹ گئے اور کتنے آگے نکل گئے۔ چوں‌ کہ ان کی منزل کچھ اور تھی، تو ان کی وہی جانیں۔ اپنے تئیں ہمارا ٹھکانا کوہ قاف تھا، لہاذا ایک پڑاو کے مسافر ہوتے ہمارے دُکھ سکھ سانجھے ہوئے۔

مجھے ہمیشہ ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے، کچھوا اور خرگوش کی کہانی کے وہ خرگوش ہمی ہیں، جو سستانے بیٹھے، تو مقام مقصود کا ہوش جاتا رہا۔ کیوں نظر انداز کیا کہ ہم تیز رفتار سہی، راہ میں سستانے کی غلطی منہگی پڑ سکتی ہے۔ ہمیں کیا معلوم تھا، اس جادو نگری کے راستے میں سایہ دار شجر نہیں بے چھت کی منڈی ہے۔ ہم اس بازار میں کیوں ٹھیرے؟ سستانے کو یہ جگہ ٹھیک نہ تھی۔ نہیں! ہم نے آڑھتی بننے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ ہمیں پھول کیاری ‌سے مطلب تھا، تو پھر کیوں ایسا ہوا، کسی ثانیے میں اپنے مہکتے رجنی گندھا سپنے اس پلڑے میں ڈال دیے، جس کے سامنے کے پلڑے میں کھوٹے سکے دھرے تھے؟ تمھیں کوئی جواب ملتا ہے، کہ ہم نے کیوں خود کو بیچ دیا؟ ہاں! ہماری پہچان ہمارے خواب ہی تو تھے۔ جب عالم مثال نہ رہا تو ہم کہاں ہیں؟ تم اور میں یہ جو چہرہ لیے گھوم رہے ہیں، کیا تمھیں لگتا ہے یہ ہمارا چہرہ ہے؟ مجھے نہیں لگتا، یہ میں ہوں۔

ہم نشیں، رستہ اپنا اپنا سہی، ہمارے چاند کا گھر تو ایک ہی تھا۔ راہ چلتے کسی موڑ پر ہم ملتے تو کیسے اپنا اپنا بوجھ بانٹ لیتے تھے! وہ راستے کیا ہوئے، وہ موڑ کہاں گئے میرے دوست؟ شاید اس سمے وہی خوش دن نظر میں ہوں گے کہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے ابھی تم یاد آئے۔ اچھا ہوتا ہم نے جس دَم اپنا سودا کیا، جس لمحے اپنے سب خواب بیچنے کو لائے، اس پَل میں ایک اس سپنے کا دھیان بھی رکھا ہوتا، وہ جو ہم سے روٹھ کر چُپکے سے قلب کے کسی کونے میں جا بیٹھا تھا۔ تمھی کہو! اے رفیق، میں اس سُول بنے سپنے کا کیا کروں، جو ہر سمجھوتا کرتے، میرے من کو ڈستا ہے؟!

گرو دَت
گلزار

اپنا احوال بس اتنا تھا، تم خود کی کہو! کیا وہ جذبے جنھیں گلزار کہا، یوگیش سمجھا، باسو چٹر جی جانا، بھٹا چاریہ سے لیے، انھیں لتا کی، رفیع کی آواز کیوں نا ملی؟ وہ سلیل چودھری کے نغمے کیوں نہ بن سکے؟ جس بمل دا کی مثال کو  لے کر کے ہم تم چلے تھے، وہ جذبے جنھیں گرو دَت نے دُونا کیا، وہ کیوں کر بجھ گئے؟ کرید کے دیکھو تو سہی، کہیں راکھ تلے کوئی بچی کھچی چنگاری ہے؟ اے ہم جلیس! ہمیں آکاس گنگا کا تارا ہونا تھا، ہم کیوں نہ چمکے! فقط یہ جذبہ و جنون ہی ہمارا زادِ راہ تھا۔ ہمارا زادِ سفر کیا ہوا؟ یوگیش کل پرسوں، آج باسو چٹر جی آں جہانی ہوئے، گلزار زندہ ہے اور دُعا ہے تا دیر سلامت رہے، پر یہ کب ہوا کہ ہم بُجھ گئے؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments