آصف فرخی: کیا آدمی تھے وہ، کیسے چلے گئے!


سوموار یکم جون 2020 شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے میں نے آصف صاحب کو فون کیا تو فون ان کے چھوٹے بھائی طارق نے اٹھایا۔
”ڈاکٹر صاحب آصف بھائی کی تو طبیعت بہت زیادہ خراب ہے۔“ طارق کی گھبرائی ہوئی آواز آئی تھی۔

”گزشتہ چند دنوں سے ان کی طبیعت خراب تھی۔ آٹھ دن قبل انہوں نے کچھ کھایا تھا جس سے ان کا پیٹ خراب ہوگیا تھا۔“ ہمارے مشترکہ دوست عرفان خان صاحب نے مجھے فون کر کے بتایا کہ ”آصف صاحب کو متلی ہو رہی ہے اور پیٹ خراب ہے۔“

میں نے فوراً ہی ان کے بھی دوست اور بہت اچھے جنرل پریکٹشنر ڈاکٹر سجاد کو فون کر کے کہا کہ وہ آصف کو فون کر لیں اور انہیں فوڈ پوائزنگ کے لیے کوئی دوا بتائیں۔ سجاد نے فوراً ہی فون کیا اور انہیں پیٹ میں درد اور ہاضمے کی خرابی کی دوا فون پر ہی بتائی اور ساتھ ہی کہا تھا کہ وہ پینے والے نمکیات ( او آر ایس ) کے ساشے منگوا لیں ا ور دن میں کم از کم تین ساشے پئیں۔

سجاد نے مجھے فون کر کے بتایا کہ آصف سے بات ہو گئی ہے، انہوں نے دوائیں ان کے موبائل فون پر لکھ کر بھیج دی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی ذیابیطس مکمل طور پر قابو میں نہیں ہے اور آواز سے وہ کافی ڈپریس بھی لگ رہے تھے۔

کراچی میں کون ڈپریس نہیں ہے۔ ہر سمجھ دار سوچنے سمجھنے والا ڈپریشن کا شکار ہے۔ صوبائی حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ سنی اور شیعہ علما کی بلیک میلنگ کے آگے سرجھکا کر عوام کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔ مرکزی حکومت سائنس اور طب کے بنیادی اصولوں سے نفرت کرتی ہے۔ عوام کی ناخواندگی اور جہالت کا یہ حال ہے کہ وہ کووڈ 19 وائرس کی حقیقت سے انکاری ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ایک نہ نظر آنے والا وائرس لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔ کاروباری حضرات اور سرکاری وزیروں کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ کاروبار چلتا رہے، چاہے چند ہزار افراد موت کا شکار ہوجائیں۔ اسی طرح سے ٹیلی ویژن اور ٹی وی اینکر سنسنی خیزی کے علاوہ ایسے ایسے پروگرام کرتے ہیں کہ یہ سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے کہ یہ اس ملک کے شہری ہیں جہاں غربت، بیماری، جہالت اور مذہبی تشدد کا دور دورہ ہے۔ آصف صاحب جیسے حساس آدمی ڈپریس نہیں ہوں گے تو کون ہوگا؟ ہر ملاقات، ہر فون پر ان سے یہی باتیں ہوتی تھیں۔

مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ اپنے ڈپریشن کے لیے ایک اچھے ڈاکٹر سے بات چیت کر رہے ہیں اور دوا بھی لے رہے ہیں لیکن وہ سمجھتے تھے کہ دواؤں سے اس قسم کی ڈپریشن کا علاج ممکن نہیں ہے۔ حالات کا اچھا ہونا ضروری ہے مگر حالات تو خراب سے خراب تر ہی ہو رہے تھے اور اب خرابی کی انتہا کا انتظار ہے۔

پھر بھی میں نے انہیں دوبارہ فون کیا کہ وہ احتیاط کریں۔ دوائیں اور او آر ایس ضرور لیں، ساتھ ہی میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ زیادہ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں ہاجمولا یا ہمدرد کارمینا کی دو تین گولیاں کھائیں اس کے بعد سے ان سے تقریباً روز ہی بات ہو رہی تھی۔ وہ صحت یاب ہو رہے تھے مگر کمزوری کی شکایت کر رہے تھے۔ میں نے انہیں سمجھانے کے انداز میں کہا کہ ”کئی الٹیوں اور دست کے بعد جب جسم سے نمکیات خارج ہوجائیں تو کمزوری تو ہوتی ہی ہے اسی لیے ضروری ہے کہ وہ او آر ایس پیتے رہیں۔“ انہوں نے کہا تھا کہ ”گویا کہ عناصر میں ظہور ترتیب۔“ میں نے کہا تھا ”جی!“ انہوں نے کہا تھا کہ ”وہ ایسا ہی کریں گے۔“

اگلے دن بات چیت کے دوران انہوں نے پوچھا تھا کہ ”مجھے کورونا تو نہیں ہوگیا ہے۔ کیا مجھے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے؟“

میں نے کہا تھا کہ ”آپ بالکل بھی ٹیسٹ نہ کرائیں۔ آپ کو بخار نہیں ہے، کھانسی نہیں، سر میں درد نہیں ہے اور نہ ہی جسم ٹوٹ رہا ہے۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آپ کو کورونا نہیں ہے۔ آپ کا مسئلہ ذیابیطس ہے اور بگڑتے ہوئے ملکی حالات ہیں جو آپ کو اور ہم سب کو ڈپریس کر رہے ہیں۔“

اس کے دوسرے دن میں اور ڈاکٹر سجاد پی ایم اے ہاؤس میں کسی کام سے ملے تھے اور سجاد کے سامنے ہی میں نے انہیں فون کیا تھا۔ لاؤڈ اسپیکر پر ان سے بات ہوئی تھی، انہوں نے بتایا تھا کہ ”وہ کافی کمزوری محسوس کر رہے ہیں۔“ سجاد نے ان سے پوچھا تھا کہ ”آپ کے پاس او آر ایس ہے۔“ انہوں نے جواب دیا تھا کہ ”ہے۔“

سجاد نے پوچھا تھا کہ ”آپ او آر ایس پی رہے ہیں کہ نہیں۔“
انہوں نے جواب دیا کہ ”ایک ساشے کل پیا تھا۔“

سجاد تھوڑے پریشان ہو گئے تھے اور انہیں سختی سے کہا کہ وہ ”کم از کم تین ساشے روزانہ پئیں۔ ایک ساشے کو ایک پانی کی بڑی بوتل میں ملائیں اور دن بھر میں تین بوتلیں یعنی بارہ گلاس پئیں۔“

انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان ہدایات پر عمل کریں گے۔ اس دفعہ انہوں نے وعدہ پورا کیا تھا، اگلے دن انہوں نے بتایا تھا کہ طبیعت کافی سنبھل گئی ہے۔ ان کی آواز میں وہ نقاہت بھی نہیں تھی۔ میں نے پوچھا کہ ”ان کی ذیابیطس کا کیا حال ہے؟“ انہوں نے بتایا کہ ان کے ذیابیطس کے ڈاکٹر نے انسولین کی خوراک بڑھا دی ہے۔

اسی دن شام کو ان کا فون آیا کہ ان کو میرا خط جو میں نے پی آئی اے کے چیئرمین کو پی آئی اے کے طیارے کی تباہی کے بعد لکھا تھا بہت پسند آیا تھا۔ فون پر وہ مجھے بہت اداس لگے تھے۔ میں نے انہیں بتایا تھا کہ اس جہاز پر میرے کچھ ذاتی جاننے والے بھی انتقال کر گئے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کی طرح انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ کتنی آسانی کے ساتھ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے نااہلیوں کے شکار لوگوں کی شہادت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔

ہم دونوں ہی اپنے افسوس اور فرسٹریشن کا اظہار کرتے رہے تھے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ ”دنیا زاد کے کورونا شمارے کے لیے میرے مضمون کی کیا صورت حال ہے۔“

میں نے کہا کہ ”تقریباً تیار ہے۔“
”ٹھیک۔“ ان کی آواز سے اندازہ ہوا کہ وہ اس بارے میں خوش اور پرامید ہیں۔

اتوار کو میں کوہی گوٹھ ہسپتال سے تقریباً چھ بجے شام کو نکلا اور راستے میں ہی انہیں فون کیا۔ ان سے اکثر فون پر گاڑی ڈرائیو کرنے کے دوران ہی بات ہوتی تھی۔

ان کی طبیعت بہتر تھی، آواز میں بھی نقاہت کم تھی۔ انہوں نے کمزوری کا اظہار کیا تھا اور بتایا تھا کہ او آر ایس کے ساتھ انہوں نے کھچڑی کھائی ہے۔

میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے کھانے پینے کا خیال رکھیں۔ فوڈ پوائزنگ کے بعد سے ان کے کھانے پینے میں کافی کمی ہو گئی تھی۔ کمزوری کے باوجود وہ زوم پر حبیب یونیورسٹی کے طلبا کو پڑھانے میں مصروف رہے تھے جس سے تھکن تو ہوتی ہی تھی۔ اس کا اظہار انہوں نے مجھ سے کیا تھا۔

میں نے پوچھا کہ ”آپ کی سانس وغیرہ تو نہیں پھولتی ہے نا؟“
”نہیں بالکل نہیں۔“ انہوں نے جواب دیا۔

میں نے کہا ”خوش رہنا تو بہت مشکل ہے مگر کوشش کریں کہ کھانا پینا صحیح رہے، کچھ کھٹی چیزیں کھائیں، لیمو کا شربت پئیں اور ذیابیطس کا خیال رکھیں اور آرام کریں۔“
”وہ تو میں کر رہا ہوں۔“ ان کا جواب تھا۔

اس کے بعد گاڑی روک کر میں نے عرفان خان کو فون کیا۔ ان کا فون خراب تھا پھر سجاد کو فون کر کے بتایا کہ آصف سے بات ہوئی ہے اور وہ کافی بہتر ہیں۔ مگر سوموار یکم جون شام کے فون کا جواب ان کے بھائی طارق نے دیا اور کہا کہ وہ تقریباً بے ہوش ہیں۔

میں نے کہا کہ ”فوراً ہی انہیں ہسپتال لے جائیں۔“ انہوں نے بتایا کہ ”ان کے دوسرے کزن سلمان آرہے ہیں وہ دونوں انہیں ہسپتال لے جائیں گے۔“
میں نے فون بند کر کے آغا خان ہسپتال میں ان کے دوست ڈاکٹر سرور صدیقی کو فون کر کے بتایا کہ ”آصف کی طبیعت کافی خراب ہے، ان کے بھائی طارق انہیں آغا خان ہسپتال لے کر آرہے ہیں۔“

”انہیں فوراً ہی یہاں بھیجیں میں شعبہ حادثات پہنچتا ہوں مجھے بتائیے گا جب وہ گھر سے نکلیں۔“ سرور نے جواب دیا تھا۔

مجھے خیال آیا کہ شاید آغا خان میں جگہ نہ ملے، اس لیے میں نے سول ہسپتال میں اپنی بہن اور آئی سی یو کی انچارج ڈاکٹر صفیہ کو بھی فون کیا کہ شاید میں آصف کو لے کر سول ہسپتال آؤں، وہاں شعبہ حادثات میں کسی کو کہہ دینا۔

میں نے دوبارہ آصف کا نمبر ملایا۔ طارق نے جواب دیا کہ ”شاید ان کا دل بند ہورہا ہے، میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں۔“
میں نے کہا کہ ”انہیں زمین پر لٹائیں اور ان کے سینے کو بار بار دبائیں جھٹکے کے ساتھ، اگر دل بند ہورہا ہے تو حرکت شروع کردے گا۔“

انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتاتے بھی جا رہے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے ان کی سانس کی بحالی کے لیے ان کے منہ کے ذریعے ان کے پھیپھڑوں کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر نہ ہونے کے باوجود وہ جو کچھ کر رہے تھے وہ محبت کرنے والا بھائی ہی کر سکتا ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ گیا تھا۔

میں یہ سب کچھ سن رہا تھا، ساتھ میں ان کی آواز آئی، ”ڈاکٹر صاحب وہ زندہ نہیں ہیں۔“
میں دھک سے رہ گیا۔ میں نے فون بند کر کے سلمان کو فون کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ گلشن کے راستے میں ٹریفک میں پھنسا ہوا ہے اور پہنچنے ہی والا ہے۔

میں نے کہا ”سلمان میرے خیال میں دیر ہو چکی ہے۔ پہنچتے ہی انہیں رب میڈیکل سینٹر لے جاؤ اگر وہ چلے گئے ہیں تو وہاں سے ہی ان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنواؤ مگر جلدی پہنچو۔“ ساتھ ہی میں نے طارق فضلی کو فون کیا اور پوچھا کہ ”آپ کہاں ہیں؟“

”میں گلشن چورنگی کے قریب ہوں۔“ ان کا جواب تھا۔

میں نے کہا کہ ”شاید آصف صاحب انتقال کر گئے ہیں، آپ فوراً ہی ان کے گھر پہنچیں۔ ان کے بھائی طارق کو مدد کی ضرورت ہوگی۔“ شروع میں طارق فضلی کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں مگر فوراً ہی انہوں نے کہا تھا کہ ”بہتر ہے۔“

اس دفعہ جب آصف کا نمبر ملایا تو طارق نے کہا کہ ”وہ نہیں رہے ڈاکٹر صاحب۔ اب میں کیا کروں۔ میں تو بالکل ہی اکیلا ہوں۔“

”میں آ رہا ہوں۔“ میں نے جواب دیا۔ ساتھ ہی مجھے سلمان کی آواز آئی اور فون اس نے لے لیا تھا۔
”وہ تو چلے گئے ہیں ڈاکٹر صاحب! نہ نبض ہے نہ ہی دل کی دھڑکن اور نہ ہی ان کی آنکھوں میں چمک۔“

”سلمان انہیں گاڑی میں ڈالو۔“ مجھے یہ کہتے ہوئے عجیب سا لگا، تھوڑی سی دیر میں وہ زندہ سے کسی سامان کی طرح ہو گئے تھے۔ ”رب میڈیکل سینٹر بالکل قریب ہے وہاں لے جاؤ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنواؤ، میں آ رہا ہوں۔“

فون بند کر کے میں نے سرور صدیقی کو فون کر کے بتایا کہ آصف نہیں رہے۔ اس نے فون سنا اور زور سے کہا ”نہیں“ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر شاید وہ فون پر بات کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ”میں پھر بات کرتا ہوں“ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا تھا۔

اگلا فون میں نے ڈاکٹر سجاد کو کیا تو انہوں نے بتایا کہ کچھ دیر پہلے انہوں نے آصف کو فون کیا تھا مگر کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ اس کے بعد ان کے بھائی کا فون آیا کہ ان کی طبیعت بہت خراب ہے تو میں نے کہا تھا کہ انہیں ہسپتال لے جانا پڑے گا۔

”وہ نہیں رہے یار۔“ میں نے جواب دیا تھا، ”He is gone for ever“ ۔
”او نہیں!“ سجاد نے تقریباً چیختے ہوئے کہا تھا۔ ”آپ کہاں ہیں؟“
”میں پی ایم اے ہاؤس میں ہوں اور مسلسل طارق اور سلمان سے رابطے میں ہوں۔“ میں نے جواب دیا تھا۔
”میں آ رہا ہوں، ہمیں ان کے گھر چلنا چاہیے۔“ اس نے کہا۔
”میں نے اسی لیے فون کیا ہے۔“ میں نے جواب دیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments