مفتی منیب الرحمان صاحب کا رویت پر اصرار سائنسی طور پر درست ہے


یہ ماڈرن سوچ کہ یہ سائنس کا دور ہے اور مذہب اور سائنس میں سائنس اوپر ہے، عید کے چاند کے تنازع کو دو مولویوں کی بحث سے بڑھا کر اب سائنس بمقابلہ مذہب کی حیثیت دے دی گئی ہے، کہ جب ہم سورج کو ڈوبتا دیکھے بغیر مغرب صرف سائنسی حساب کتاب کی بنیاد پر پڑھ لیتے ہیں، سفید اور کالا دھاگا دیکھے بغیر فجر ادا کر لیتے ہیں تو پھر حساب کتاب کی بنیاد پر قمری کیلنڈر کو کیوں نہیں استوار کر لیتے اور رویت پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟

لوگ کہتے ہیں کہ اب سائنسی ترقی سے جب حتمی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ آج چاند نظر ا جائے گا تو رویت ہلال کمیٹی کا کھڑاگ پالنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن یہ استدلال سائنس کے مطابق نہیں بلکہ سائنسی حساب کتاب اور عینی شہادت دو مختلف چیزیں ہیں اور حساب کتاب، عینی شہادت کا بدل نہیں ہے بلکہ حساب کتاب گزشتہ عینی شہادتوں کی بنیاد پر آئندہ کی رویت ہلال کا احتمال (ہونے کا چانس) ہے اور پشین گوئی ہے۔ لہذا اس مضمون کا مقصد قارئین کو واضح کرنا ہے کہ مذہب دشمن عناصر یہاں غلط بات کر رہے ہیں اور مذہب اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں ہے۔

اب آتے ہیں اس دلیل کی طرف کہ آخر حساب کتاب سے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا وقت کا بھی تو آخر درست تعین کیا جاتا ہے اور روزانہ دیکھا نہیں جاتا تو پھر درست تعین چاند کا بھی ہو سکتا ہے، بے شک آنکھ اسے دیکھے یا نہ دیکھے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ سورج کے چڑھنے ڈوبنے میں شک کا دورانیہ جسے شماریات کی زبان میں ایرر مارجن کہتے ہیں (جس کا حساب نہ کیا جا سکے ) سیکنڈ یا اس کے کچھ حصوں میں ہوتا ہے تو اس کا عام زندگی پر فرق نہیں پڑتا، روزہ آپ کچھ سیکنڈ پہلے یا بعد میں کھول سکتے ہیں۔

لیکن نئے چاند کے معاملہ میں یہ پورے چوبیس گھنٹے ہو سکتا ہے جس کے باعث حساب کتاب سے اندازہ لگانے کے بعد اسے دیکھنا بھی ضروری ہے تاکہ اگر کبھی ہزار میں سے ایک بار بھی پشین گوئی غلط ہو جائے تو اس کی درستگی کی جا سکے اور عید بھی صحیح دن منائی جائے۔ سورج کے اتار چڑھاؤ کو بھی ماہرین فلکیات دیکھتے رہتے ہیں اور اگر غلطی بڑھنا شروع ہو جائے تو وہ گھڑیاں درست کرتے ہیں۔ جون 2012 میں ایک سیکنڈ کا گھڑیوں میں اضافہ کیا گیا تھا کیونکہ سورج آہستہ آہستہ گھڑیوں سے ایک سیکنڈ پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ تب ہی ممکن ہوا تھا جب ماہرین فلکیات مسلسل اپنے احتمال کی درستگی کو ناپتے رہے تھے۔

وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو موبائل فون ایپ رویت ہلال کے لئے بنوائی ہے اس میں گوگل سکائی میپ یا کوئی ملتا جلتا کوڈ استعمال کیا گیا ہے جو کہ سورج چاند اور زمین کا لمحہ بہ لمحہ مقام بتاتا ہے۔ یہاں سے اصل کھیل شروع ہوتا ہے کہ اس سے کیسے پشین گوئی کی جائے کہ اس تاریخ کو جب سورج، چاند اور زمین کے مقام یہ ہوں گے تو چاند نظر آئے گا کہ نہیں؟ یہ ایپ اس کے لئے کے کچھ رقوم کا حساب لگاتی ہے جیسا کہ چاند کا غروب آفتاب کے وقت افق سے زاویہ، چاند کی عمر، چاند کا سورج سے زاویہ وغیرہ۔

اب یہاں پر کمپیوٹر کے الگورتھمز کام آتے ہیں جو ان حساب شدہ رقوم کا موازنہ کچھ ماہرین فلکیات کی پہلے سے طے شدہ رقوم سے کرتے ہیں مثلاً اگر چاند کا افقی زاویہ کسی طے شدہ میعاد سے زیادہ ہو گا اور چاند کی چوڑائی کسی اور طے شدہ میعاد سے زیادہ یا کم ہو گی تو قوی امکان ہے کہ اس مقام پر اس تاریخ کو نیا چاند نظر آ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس عمل کو ہیورسٹکس heuristics کہا جاتا ہے اور یہ احتمال کے عمل کی اساس ہے۔

اب یہ موازنہ والی رقوم کہاں سے آئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ماضی کی عینی شہادتوں کے تجربہ کی بنیاد ہر ماہرین فلکیات نے طے کی ہوتی ہیں۔ سمجھانے کے لئے اس سے ملتی جلتی مثال میڈیکل رپورٹس کی ہے۔ ماضی میں ذیابیطس کے مریضوں کی جب ڈاکٹر تشخیص کرتے تھے تو پھر ان کے خون میں شوگر کی مقدار بھی ناپتے تھے، کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے ریکارڈ سے اندازہ لگایا کہ عمومی طور پر ان مریضوں میں 140 یونٹ سے اوپر شوگر کی سطح ہوتی ہے جس پر انہوں نے یہ ہیورسٹک طے کیا کہ 140 سے اوپر رزلٹ کا مطلب ہے کہ ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔

لیکن بعد میں معائنہ کے دوران ڈاکٹروں نے کئی بار اس سے کم سطح پر بھی بیماری کی پیچیدگی دیکھی۔ اس لیے ڈاکٹر کمیونٹی نے اسے 126 کر دیا۔ اب یہ بحث جاری ہے کہ اسے 100 تک نیچے لے آیا جائے کہ کچھ لوگ اس مقرر کردہ سطح سے نیچے بھی بیمار پائے جا رہے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اس سطح سے اوپر بھی بیمار نہیں قرار دیے جاتے۔ ڈاکٹر ٹیسٹ سے مدد لیتے ہیں لیکن معائنہ کے بعد ہی بیماری تشخیص کرتے ہیں۔

مسلمان ماہرین فلکیات شروع سے ہی رویت ہلال میں ریسرچ کرتے رہے ہیں۔ اردن کی فلکیاتی سوسائٹی نے عرب لیگ کی سرپرستی میں اسلامک رویت ہلال پراجیکٹ کا 1998 میں آغاز کیا اور یہ رویت کی مدد سے اپنے احتمال کے ہیورسٹکس کو درست کر رہے ہیں۔

http://www.icoproject.org

پر ان کا ڈیٹا بیس موجود ہے اور انہوں نے جو ہیورسٹکس استعمال کیے ہیں ان میں سب سے پہلا ہیورسٹک چاند کا افق سے زاویہ ہے جسے البیرونی نے بہت بار ہلال کی رویت کے بعد 12 ڈگری مقرر کیا تھا اور 1932 میں فرانسیسی ماہر فلکیات آندرے دینجون نے 6.5 ڈگری مقرر کیا تھا۔ (اس کا مطلب ہے کہ جب بھی چاند کا افق سے زاویہ دینجون صاحب نے 6.5 سے اوپر پایا تو انہیں چاند نظر آ گیا لیکن اس سے کم ہر وہ نہیں دیکھ سکے ) اب اسلامک رویت ہلال پراجیکٹ نے اب مسلسل پیمائش کے بعد اس کو 6.4 ڈگری مقرر کیا ہے۔

دوسرا اہم ہیورسٹک ہلال کی چوڑائی ہے جو کہ سورج اور چاند کے آپس میں بننے والے زاویہ سے ناپی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نئے چاند کی عمر، سورج ڈوبنے اور چاند کے ڈوبنے کے درمیان وقت وغیرہ بھی ہیں۔ اردن کے ماہر فلکیات محمد اودھ کے مطابق بہتر احتمال کے لئے ایک سے زیادہ ہیورسٹک کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب گزشتہ رویت کے نتائج کی جانچ پڑتال سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد کسی مقام پر ان رقوم کو تبدیل کرنا پڑے کہ مثلاً فضائی آلودگی اتنی بڑھ جائے کہ پہلے سے مقرر شدہ کم از کم چمک کی ہیورسٹک مستقبل میں درست نتائج نہ دے۔ اب اس ایپ نے کون سی ہیورسٹکس استعمال کر کے نئے چاند کا احتمال کیا ہے، اس کی معلومات نہیں دیں گئیں (جو کہ سائنسی رسوم و رواج کے مطابق دینی چاہیے ) لیکن یہ سب ہیورسٹک ماضی کے مشاہدات کی روشنی میں ہی مستقل کا احتمال کرتی ہیں۔

اب آتے ہیں اس ممکنہ اعتراض کی طرف کہ چلیں ماضی میں رویت کر کے یہ ہیورسٹک طے ہو گئے تو مستقبل کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن یاد رہے کہ نیا چاند تو اربوں سالوں سے نکل رہا ہے لیکن یہ میعادیں تو کچھ ہزار مشاہدوں کے بعد طے کی گئی ہیں۔ شماریات کے اصول کے تحت جتنا بڑا ڈیٹا بیس ہو گا، اتنا ہی بہتر رویت ہلال کی اتنی ہی بہتر پشین گوئی کی جا سکے گی۔ اس وجہ سے بالکل ممکن ہے کہ یہ ہیورسٹکس کسی بھی مرتبہ غلط پشین گوئی کر دیں، لہذا ہیورسٹک کو ہمیشہ نتائج کی درستگی کے لئے موازنہ کی ضرورت رہتی ہے ورنہ اگر آپ نے رویت نہ کی اور آپ نے اپنے ریکارڈ میں صرف احتمال کی بنیاد پر رویت شمار کر دی تو شاید کبھی نہ کبھی غلط رویت بھی آپ کے ڈیٹا بیس میں شامل ہو جائے گی اور آئندہ کا احتمال پھر اس غلط ڈیٹا بیس پر ہو گا اور غلطی کا احتمال بڑھتا جائے گا تا وقتیکہ ایک دن آئے گا جس دن واضح طور پر سب لوگوں کے سامنے حساب رویت کا احتمال غلط ثابت ہو جائے گا۔

یہ سائنس کی غلطی نہیں بلکہ سمجھنے کی غلطی ہو گی۔ یہ سائنس کا اصول ہے کہ ”ضروری نہیں کے مستقبل ماضی سے ہمیشہ مطابقت رکھتا ہو“ اور پشین گوئی کبھی بھی سو فیصد حتمی نہیں ہوتی۔ احتمال کو شماریات میں اس لیے ہمیشہ بعد میں تصدیق کیا جاتا ہے چاہے وہ سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کا احتمال ہو یا رویت ہلال کا۔

لہٰذا اس مضمون کا یہ استدلال ہے کہ حساب کتاب تو کریں لیکن بعد میں رویت بھی کر کہ دیکھیں کہ آپ کے حساب کتاب میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔ اس ایپ کو ضرور استعمال کریں لیکن ہلال کا فیصلہ رویت کے بعد ہی کریں کیونکہ یہی سائنس کا مکمل طریقہ ہے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ ایپ کی مدد سے مختلف مقامات پر ہلال کا احتمال کیا جائے اور نامزد ماہرین فلکیات نامزد ہی رویت کریں اور ان کی شہادت کی بنیاد پر چاہے وزیر اعظم پاکستان یا چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب، یا کوئی اور بھی عید کا اعلان کر دے۔ ہر ایرے غیرے کو رویت کا حق نہ دیا جائے تاکہ عوام میں ابہام نہ پھیلے اور شاید مفتی منیب صاحب بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ رویت سے مکمل انکار تو سائنسی طور پر غلط ہے اس کی حمایت سائنس سے نادانستگی ہی ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments