ٹڈی دل کا ایک چھوٹا حملہ: نوبل انعام یافتہ ادیبہ کا افسانہ


افسانہ: ڈورس لیسنگ
ترجمہ: نبراس سہیل

اس سال برسات ٹھیک پڑی تھی۔ ۔ ۔ فصل کی ضرورت کے مطابق ٹھیک ٹھاک بارش ہو جاتی تھی۔ ۔ ۔ کچھ ایسی ہی باتیں مارگریٹ کی سمجھ میں آئیں جب مردوں نے اسے بتایا کہ بارشیں کم نہیں تھیں۔ ۔ ۔ موسم جیسے معاملات کے بارے میں اس کی اپنی کوئی رائے نہ تھی کیونکہ موسم جیسے سادہ معاملے کو سمجھنے کے لئے بھی تجربہ درکار تھا جو جوہانس برگ میں پیدائش اور پرورش کی وجہ سے اس کے پاس تھا ہی نہیں۔ ۔ ۔ مرد کون تھے۔ ایک اس کا شوہر رچرڈ اور ایک بوڑھا سٹیفن۔

رچرڈ کا باپ، جو ایک مدت سے کسان تھا۔ ۔ ۔ وہ دونوں گھنٹوں اس بات پہ بحث کر سکتے تھے کہ بارشیں تباہ کن رہیں یا بس یونہی ہلکی پھلکی پریشان کن۔ ۔ ۔ مارگریٹ کو بھی اب تو کھیتوں میں رہتے تین برس ہو گئے تھے۔ ۔ ۔ اسے اب تک یہ بات سمجھ نہ آئی تھی کہ و ہ آخر اب تک مکمل طور پہ دیوالیہ کیوں نہ ہو گئے تھے جبکہ ان کے منہ سے نہ موسم کے بارے میں نہ ہی اس مٹی اور اس حکومت کے بارے میں کبھی خیر کا لفظ اس نے سنا تھا۔ ۔ ۔ اسے اب یہ زبان سمجھ آنے لگی تھی۔ کسانوں کی زبان۔ ۔ ۔ اس نے غور کیا کہ رچرڈ اور سٹیفن کی تمام شکایات کے باوجود وہ اب تک مالی طور پہ تباہ نہ ہوئے تھے۔ وہ بہت زیادہ امیر بھی نہ ہوئے تھے۔ ۔ ۔ بس سہولت سے گزر بسر ہو رہی تھی۔

ان کی فصل مکئی کی تھی۔ ان کا کھیت چوٹیوں پہ تین ہزار ایکڑ پہ پھیلا تھا اور زمبیزی کی چوٹی کی طرف بڑھتا تھا۔ بلند، خشک، ہواؤں کی زد پہ ایک ایسا خطہ جو موسم سرما میں سرد اور گرد آلود رہتا مگر ان مرطوب مہینوں میں حبس زدہ۔ ۔ ۔ جہاں نم زمین سے اٹھتی گرمی کی لہر سر سبز و شاداب زمین پہ میلوں تک پھیل جاتی۔ ۔ ۔ یہ ایک حسین مقام تھا۔ ۔ ۔ جہاں عام دنوں میں آسمان نیلا رہتا، ہوا کے پرکیف ہلے آتے رہتے، نیچے ہرے کچور زمینی ابھار، وادی کی گہری کھائیاں اور بالکل سیدھے کھڑے پہاڑ دریا سے محض بیس میل کی دوری پر۔ ۔ ۔ کھلے آسمان سے اس کی آنکھیں دکھنے لگتیں۔ ۔ ۔ اسے عادت جو نہ تھی۔ ۔ ۔ شہروں میں کہاں لوگ آسمان کی طرف دیکھا کرتے ہیں۔ ۔ ۔

اس شام جب رچرڈ نے بتایا۔ ’حکومت خبردار کر رہی ہے کہ ٹڈی دل کا حملہ ہو سکتا ہے۔ اپنی افزائش کے گڑھ سے اب یہ شمال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ۔ ۔‘ اس نے غیر ارادی طور پہ درختوں کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ کیڑے تھے۔ جھنڈ کے جھنڈ۔ انتہائی خوفناک۔ ۔ ۔ مگر رچرڈ اور بوڑھے آدمی کی نگاہیں قریبی چوٹی سے اوپر کچھ تلاش کر رہی تھیں۔ ۔ ۔ ’پچھلے سات سال سے تو ٹڈی دل کا حملہ نہیں ہوا۔‘ ایک نے کہا۔ ۔ ۔ دوسرے نے بتایا ’۔ ٹڈی دل کے دورے پھیروں میں چلتے ہیں۔ ۔ ۔‘ یہ کہہ کر خاموش ہوگیا پھر بولا۔ ۔ ۔ ’اپنی اس موسم کی فصل تو گئی۔‘

مگر انھوں نے کھیت میں اپنے معمول کے کام جاری رکھے۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ ایک دن جب وہ دوپہر کے وقفے میں گھر کی طرف آ رہے تھے تو بوڑھا سٹیفن رک گیا۔ اس نے انگلی اٹھائی اور اشارہ کیا۔ ۔ ۔ ’دیکھو۔ ۔ ۔ وہ دیکھو۔ ۔ ۔‘ وہ چلایا ’وہ رہے۔ ۔ ۔ ادھر۔‘

مارگریٹ نے جیسے ہی سنا۔ دوڑ کے ان کے پاس آئی اور چوٹی کی طرف دیکھنے لگی۔ ۔ ۔ باورچی خانے سے ملازم بھی باہر چلے آئے۔ ۔ ۔ سب کھڑے ہو کر نظریں جمانے لگے۔ ۔ ۔ پہاڑ کی چوٹیوں کے اوپر ایک سرخی مائل غبار معلق تھا۔ ٹڈی دل۔ ۔ ۔ وہ پہنچ چکا تھا۔

رچرڈ نے چیخ کر خانساماں کو آواز لگائی۔ بوڑھے سٹیفن نے چلا کر ملازم کو بلایا۔ ۔ ۔ خانساماں درخت سے لٹکتے زنگ آلود ہل کے پھال کو بجانے دوڑا جو پریشان کن حالات میں مزدوروں کو اکٹھا کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ملازم ٹین کے ڈبے لانے دکان کی طرف دوڑا یا پھر دھات کے جیسے بھی ٹکڑ ے مل جائیں۔ ۔ ۔ کھیت میں ٹنٹناہٹ کا شور گونج اٹھا۔ ۔ ۔ تمام مزدور چوٹی کی طرف دیکھتے، شور مچاتے میدان میں امڈ آئے۔ ۔ ۔ وہ سب ان کے گھر کی طرف ہی چلے آئے تھے اور اب رچرڈ اور بوڑھا سٹیفن ان کو ہدایات دے رہے تھے۔ ۔ ۔ چلو جلدی کرو۔ جلدی کرو۔ جلدی۔

وہ سب واپس دوڑے اور ان کے ساتھ یہ دونوں سفید فام آدمی بھی۔ مارگریٹ نے دیکھا کہ چند ہی لمحوں میں تمام کھیتوں سے آگ کا دھواں اٹھنے لگا۔ جب تک حکومت کے احکامات جاری ہوئے، ہر کاشت شدہ کھیت میں لکڑی اور گھاس پھونس کے ڈھیر لگ چکے تھے۔ زمین کے ایسے سات قطعے تھے جو خالی تھے۔ زمین کاشت ہو چکی تھی اور اب مکئی کا نمو ظہور پذیر تھا۔ ۔ ۔ گویا سرخ زمین پہ تازہ سبز رنگ کی ایک سطحی سی تہہ جمی تھی۔ ۔ ۔ زمین کے ہر ٹکڑے کے کنارے سے اب دھویں کے دبیز بادل اوپر کو اٹھ رہے تھے۔ ۔ ۔ آدمی آگ میں گیلے پتے جھونک رہے تھے تاکہ دھواں مزید سیاہ اور تیزابی ہو سکے۔

مارگریٹ کی نظریں چوٹی پہ جمی تھیں۔ ۔ ۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا اور قدرے نیچا غبار پھولتا ہوا ان کی طرف بڑھ آیا تھا جو اب بھی سرخی مائل تھا۔ ۔ ۔ ادھر فون بج رہا تھا۔ ۔ ۔ پڑوسی ایک دوسرے کو بتا رہے تھے۔ جلدی کرو۔ جلدی۔ ٹڈی دل کا حملہ ہو گیا۔ جلدی آگ جلاؤ۔ ایسے میں ہر کسان کے دل میں یہ بات تھی کہ ٹڈیاں اس کا کھیت چھوڑ کر اگلے کھیت کی طرف بڑھ جائیں۔ ۔ ۔ ہاں مگر ایک دوسرے کو اطلاع دینا تو ضروری تھا۔ ۔ ۔ آدمی کو اتنا تو ایماندار ہونا چاہیے۔ ۔ ۔

پورے گاؤں میں، قریب پچاس میل تک آگ کے ڈھیروں الاؤ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ۔ ۔ مارگریٹ فون پہ بات بھی کرتی رہی اور بیچ بیچ میں کھڑے ہو کر ٹڈی دل کو بھی دیکھتی رہی۔ ۔ ۔ اب فضا تاریک ہونے لگی تھی۔ عجیب انوکھا سا اندھیرا تھا کیونکہ سورج تو بدستور چمک رہا تھا۔ ۔ ۔ ایسا اندھیرا تھا کہ گویا جنگل میں آگ لگ گئی ہو۔ ۔ ۔ ایسے میں ہوا بوجھل ہو جاتی ہے اور سورج کی روشنی بے ڈھنگے طریقے سے زمین پہ پڑتی ہے۔ گوڑھی، تیز نارنجی رنگ کی۔ ۔ ۔ یہ سب ایک طوفان کی طرح بوجھل، بیزار کن تھا۔ ۔ ۔ ٹڈیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ ۔ آدھا آسمان تاریک ہو چکا تھا۔ ۔ ۔ سامنے کی سرخ پردے کے پیچھے، جو کہ اس جھنڈ کا ہراول دستہ تھا۔ اصل لشکر پیچھے سیاہ بادلوں کی صورت تھا جو تقریباً اوپر سورج تک جاتا دکھائی دیتا تھا۔

مارگریٹ پریشان تھی کہ وہ کس طرح ان کی مدد کرے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اتنے میں بوڑھا سٹیفن کھیتوں سے لوٹا۔ ’ہم لٹ گئے مارگریٹ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں بچا‘ ۔ وہ بولا۔ ۔ ۔ ’وہ بھکاری تو آدھے گھنٹے میں ہر پتا، ہر بوٹی چاٹ جاتے ہیں۔ ۔ ابھی تو دوپہر کا وقت شروع ہوا ہے۔ ۔ ۔ اگر ہم مزید دھواں پیدا کر سکیں۔ ۔ ۔ اچھا خاصا شور پیدا کر یں تو سورج اترنے تک یہ کہیں اور جا کے پڑاؤ ڈال لیں گے۔ شاید ایسا ممکن ہو سکے۔‘ وہ پھر بولا۔ ۔ ۔ ’تم کیتلی چڑھائے رکھو۔ ۔ ۔ یہ بڑی محنت کا کام ہے۔‘

مارگریٹ باورچی خانے میں چلی گئی۔ اس نے آگ بڑھائی اور پانی ابالا۔ ۔ ۔ باورچی خانے کی ٹین کی چھت پر ٹڈیوں کے گرنے کی دھمک اور دھماکے دار آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ۔ ۔ کبھی کسی کیڑے کی ٹین کی ڈھلوان سے رگڑ کھا کر گھسٹنے کی آواز بھی آتی۔ ۔ ۔ نیچے کھیتوں میں سے پٹرول کے سینکڑوں کنستروں اور دھات کے ٹکڑوں کی پٹاخ، تڑاخ اور کھڑاک کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ سٹیفن بے چینی سے منتظر تھا۔ ۔ ۔ مارگریٹ نے پیٹرول کا ایک کنستر چائے سے بھرا۔

گرم، میٹھی اور گہرے نارنجی رنگ کی چائے۔ ۔ ۔ اور دوسرے کنستر میں پانی بھر لیا۔ ۔ ۔ اس دوران وہ اسے بتاتا رہا کہ کیسے بیس سال پہلے ٹڈیوں کا ایسا ہی جھلر آیا تھا اور ٹڈیاں اس کے سارے کھیت چاٹ گئی تھیں اور وہ دیوالیہ ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ باتیں کرتے کرتے اس نے دونوں ہاتھوں میں بھاری بھرکم پیٹرول کے کنستر، جن کے منہ پہ لکڑی کے ٹکڑے آڑے لگے ہوئے تھے، اٹھائے اور نیچے ان پیاسے مزدوروں کی طرف چل پڑا۔ ۔ ۔

اب ٹڈیاں برف کے اولوں کی طرح باورچی خانے کی چھت پہ گرنے لگیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے شدید طوفان ہو۔ ۔ ۔ مارگریٹ نے باہر جھانکا۔ ۔ ۔ اس نے دیکھا کہ کیڑوں کے تانے بانے سے ماحول پہ اندھیرا چھا گیا تھا۔ ۔ ۔ اس نے حوصلہ کیا اور باہر نکل آئی۔ ۔ ۔ جو کچھ وہ سب مرد کر رہے تھے، وہ بھی تو کر سکتی تھی۔ ۔ ۔ سر کے بالکل اوپر غبار گہرا تھا۔ ۔ ۔ ہر طرف ٹڈیاں ہی ٹڈیاں تھیں۔ ۔ ۔ سرخی مائل بھوری مخلوق کی بھرمار تھی۔ ۔ ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments