پاک ایران تعلقات کی دو رنگی


دنیا میں ہر ملک میں کسی مذہب کے افراد کی اکثریت ہوتی ہے، اس ہی مذہب کا رنگ اس وطن کی فضا پر غالب ہوتا ہے، چاہے وہ وطن سیکیولر ہو لیکن پھر بھی کلچر کے اعتبار سے اپنی مذہبی تاریخ سے ہر وطن نے بہت کچھ لیا ہوتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کو ہی مثال کے طور پر لے لیجیے، سیکیولر ملک ہے لیکن اس کے جھنڈے پر بھی صلیب بنی ہے۔ پھر آ جائیے عالم اسلام کے ممالک کی طرف، سیکولر ترکی کے جھنڈے کو دیکھیے جو کہ دراصل سلطنت عثمانیہ کے دو جھنڈوں میں سے ایک ہے۔ اسلام کو اپنے آئین میں سب سے اہم مقام دینے والے سعودیہ، ایران اور پاکستان کے جھنڈے تو ہیں ہی مذہبی علامات سے پر۔

کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن اشتراکی روس کے انہدام کے بعد سے یوں لگتا ہے کہ عالمی سیاست کا کوئی نظریہ بھی نہیں ہوتا۔ بس مفاد ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ سوویت یونین لاکھ برائیوں کے باوجود وہ اشتراکیت کے لئے خاک و خون میں کود پڑتا تھا لیکن آج کی عالمی سیاست کا ہر کھلاڑی صرف اپنے مفاد کو مدنظر رکھنا چاہتا ہے اور کوئی نظریہ، کوئی مذہب، کوئی مسلک بھی ایک نظریاتی اساس کے طور پر کسی کے پیش نظر نہیں۔ اپنی سرحدوں کے اندر تو شاید کوئی ملک یہ چاہتا بھی ہو کہ اپنے عقائد و نظریات کا اطلاق کرے لیکن سرحدوں سے باہر تو بس مفاد ہی سب سے بڑا نظریہ ہے، اسی لئے انتہائی غیر فطری اتحاد عالمی سیاست میں جنم لے رہے ہیں۔

خیر آج ہم پاک ایران تعلقات پر بات کرنے والے ہیں۔ یہ ایک بڑا عجیب موضوع ہے۔ اس لیے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس موضوع پر کسی خوابوں کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں اور پورا سچ بولنے سے ہمیں تھوڑی سی شرم آتی ہے اورتھوڑا ڈر لگتا ہے۔ شرم اس لیے آتی ہے کہ اس معاملے میں پاکستان بھی قصور وار تو ہے اور ڈر یہ لگتا ہے کہ ہمارے ہم وطن شیعہ بھائی کہیں برا نہ مان جائیں۔ تو یہاں پر ایک وضاحت بڑی ضروری ہے۔ یہ تجزیہ ملکوں کے تعلقات کا ہے، مسالک کے تعلقات کا نہیں۔

ہاں یہ تعلقات چند ملکوں کے ذکر میں خلط ملط ہو جاتے ہیں۔ بہرحال ان دونوں تصورات کو جدا ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔ ہم نے اپنے بچپن میں، اپنی درسی کتب اور ٹی وی پر ہمیشہ یہ سنا تھا کہ پاکستان اور ایران میں بہت ہی اعلیٰ تعلقات ہیں۔ پاکستان کے بہترین دوستوں کے نام جب ہمارے مطالعہ پاکستان کے پرچوں میں دریافت کیے جاتے تو جواب بڑا ہی طے شدہ ہوتا، چین، ایران، ترکی، سعودیہ اور امریکا۔ مگر پاکستان اور ایران کے تعلقات اتنے سادہ اور سیدھے کبھی نہیں رہے کہ مطالعہ پاکستان کی کتابوں کی مجبوریوں میں عیاں ہو سکیں۔

پاک ایران تعلقات میں رضا شاہ کے دور تک کوئی پیچ نہیں تھا پاکستان ایران اور ترکی تینو ں مل کر امریکی مفادات کے سپاہی کا کردار خطے میں نبھا رہے تھے۔ ان تینوں میں سب سے زیادہ امریکا کا غلام بے دام ایران ہی تھا مگر ایران کے اندر ایک طوفان پل رہا تھا جو جب اپنے بام عروج پر پہنچاتو رضا شاہ کی شہنشاہیت کا باب بند ہو گیا۔ 1979 ء کا سال خطے میں بے حد اہم رہا، اس لیے کہ ایک جانب ایران میں انقلاب آیا اور دوسری طرف روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔

روس کے خلاف افغانوں کو مسلح کر کے جہاد کرنے کی ذمہ داری امریکا نے پاکستان کو سونپی اور بہت سے افغان مہاجرین ایران بھی گئے، لیکن ایران اب امریکی مرکز سے نکل چکا تھا اور اس کے اور امریکا کے تعلقات تاریخ میں سب سے پست سطح پر تھے۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق صاحب کی حکومت تھی اور وہ بھی ایران پر حاکم ہو جانے والی آیت اللہ خمینی کی طرح مذہب کی بنیاد پر سیاست کر رہے تھے۔ ایران کے تعلقات تب صرف امریکا سے ہی خراب نہ تھے بلکہ اب شاید لوگوں کو یہ پڑھ کر حیرت ہو کہ روس کو بھی ایران کے آیت اللہ، ’شیطان صغیر‘ کہا کرتے تھے اور تب ایران کی نظر میں امریکا (جس سے تعلقات استوار کرنے کے لئے اب ایران کی سیاسی حکومت بیتاب ہے ) ’شیطان کبیر‘ تھا۔

تب ایران نے اپنا انقلاب دیگر ملکوں میں برامد کرنے کی ٹھانی۔ عراق، لبنان، پاکستان، افغانستان ہر جگہ پر مسلک شیعی کے نفاذ کی تحاریک برپا ہوئیں۔ عرب دنیا میں تب ہی عرب بادشاہ اپنے شیعہ شہریوں سے خوفزہ ہو گئے۔ ایران کی عراق کے ساتھ اسی وجہ سے جنگ شروع ہو گئی اور تب ساری عرب دنیا نے عراق کی پشت پر کھڑی تھی۔ عراق کو لگتا تھا کہ خوزستان کے عرب اس کی قیادت میں فارس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور ایک خوفناک جنگ میں دس لاکھ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ لبنان پورا ہی اس انقلاب کو برآمد کرنے کی ایران کی سیاست سے جل اٹھا۔ آج کے دن تک لبنان ایک توازن میں نہیں آپایا تو اس کے پیچھے دراصل تب 1979 ء کے ایرانی حکمرانوں کا Ambition ہی بنیاد ہے۔

پاکستان میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے نام سے تحریک شروع ہوئی۔ ایران کے اس Ambition نے پاکستان کی سنی اکثریت کے اندر تشویش کی لہریں دوڑا دیں اور پھر عرب دنیا نے یہاں پر سواد اعظم اہل سنت کے نام سے ایک تحریک بنا کر ایرانی اثر کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسی تحریکیں بھی اسی سیاست کے بطن سے پیدا ہوئیں اور پھر اس وطن کا شیعہ سنی تعلقات کا توازن ایسا بگڑا کہ آج کے دن تک سنبھلنے میں نہیں آتا۔ ایران اورعرب دینا کی چپقلش نے پاکستان میں ہزاروں انسانوں کی جان لی اور کئی علاقے جیسے پارا چنار، ہنگو، کوہستان مستقل مشکلات کا شکار ہو کر رہ گئے۔ پاکستان تو خیر پھر بھی اس آگ سے بہت کم متاثر ہوا، ورنہ اس آگ نے تو پورے ہی مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دیا۔

پاکستان میں ایران کا انقلاب درآمد ہونے کا تو کبھی امکان تھا ہی نہیں۔ اولاً پاکستان میں آبادی کا تناسب عراق یا لبنان والا تھا نہیں، دوئم یہاں کے شیعوں کی بڑی تعداد آیت اللہ خمینی کی فکر کو انتہا پسندانہ سمجھتی تھی۔ بہرحال معاملات پاکستان اور ایران کے تعلقات میں اتنے بگڑے کہ ایرانی سفیر صادق گنجی کا پاکستان میں قتل ہو گیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ پاکستان میں ایران اور سعودیہ اپنی پراکسی وار لڑ رہے تھے۔ پاکستان کا فطری اتحاد سعودیہ کے ساتھ تھا، اس لیے کہ دونوں ہی امریکا کے دسترخوان سے کھا تے تھے۔

ایران اس وقت تک نظریاتی سیاست کر رہا تھا۔ پاکستان نے روس کے بعد کے افغانستان میں اپنا رسوخ مستقل کرنے کے لئے طالبان کی تحریک کی وہاں حمایت کی۔ طالبان نے 80 فیصد افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب حکومت پاکستان اور ایران باقاعدہ ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ ایران شمالی اتحاد اور اسماعیلی عبدالرشید دوستم کی ’گلم جم ملیشیا‘ کی مدد کر رہا تھا۔ ایران کے ساتھ بھارت اور روس بھی شمالی اتحاد کی مدد کرر ہے تھے جبکہ پاکستان تحریک طالبان کو بڑھاوا دے کر اپنی Strategic depth بڑھا رہا تھا۔

ایسے میں ایران کے جنگی مشیر افغانستان میں مارے گئے جس پر ایران اور افغانستان کے طالبان میں جنگ ٹھن گئی اور ایسے میں اس وقت کے آرمی چیف مشرف نے دونوں میں معاملات دوبارہ درست کرائے۔ خیرتب ایران کی لاٹری کھلی اور 11 ستمبر کا حملہ نیویارک میں ہوگیا۔ حکومت طالبان کی گئی، افغانستان پر بمباری ہوئی تو ایران، روس اور بھارت کا حمایتی شمالی اتحاد ہی امریکی آشیر باد سے افغانستان کا حاکم بنا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب ایران ایک میدان میں روس امریکا اوربھارت کے ساتھ مل کر کھیل رہا تھا۔

پھر ایران کی دوسری لاٹری 2003 میں کھلی جب اس کے دشمن عراق پر امریکا نے حملہ کر دیا اور عراق کو تباہ و برباد کر دیا۔ عراق امریکا کو تو راس نہیں آیا مگر اب عملاً عراق ایک ایرانی نوآبادی ہے۔ اسی طرح روس اور ایران مل کر شام کے حکمران بشار الاسد کی حکومت کو بحال کر رہے ہیں۔ خیر ایران نے اپنا اثر روس اور امریکا کی مدد سے عراق، لبنان، شام اور شمالی افغانستان میں تو قائم کر ہی دیا ہے لیکن پاکستان ایران کے اثر سے کافی محفوظ ہے۔

اب آئے دن پاکستان ایران سرحد پر مارٹر حملے اور فائرنگ کی خبریں ہمارے لوگوں کو تھوڑا حیران کر دیتی ہیں۔ ہمارے مطالعہ پاکستان کی کتب سے حقائق چننے والے ان گولیوں اور مارٹر حملوں کی وجہ کبھی سمجھ ہی نہیں پاتے۔ یادش بخیر، کلبھوشن یادیو بھی ایران کے چاہ بہار سے ہی پاکستان آیا تھا اور عزیز جان بلوچ نے بھی انکشاف کیا ہے کہ اس نے پاکستان کی فوجی معلومات ایران کی ایجنسی کو فراہم کیں اور وہ کراچی کے حالات خراب کرنے کے لئے ایران سے پیسے لیتا تھا۔ اسی طرح ایران میں دہشت گردی کرنے والی جیش العدل اور جند اللہ کے ڈانڈے بھی پاکستان سے ہی مل جاتے ہیں۔

ایران کی بین الاقوامی سیاست کا خلاصہ یہ ہے کہ عالمی سیاست میں کوئی مستقل دشمن یا مستقل دوست نہیں ہوتا اور سب سے اہم چیز صرف طاقت اور اثر ہے۔ امریکا ایران سے کبھی ناراض ہو جاتا ہے اور اس کے اثر کو تھوڑا کم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے کہ ایرانی جنرل امریکا کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ مگر کیونکہ بڑے مقاصد میں کوئی خاص فرق نہیں تو ایسے واقعات کے بعد دونوں ممالک فوراً working relationship میں آ جاتے ہیں۔

ایران اب داعش کے خلاف افغانستان میں طالبان سے اتحاد بنا رہا ہے۔ دوسری طرف روس، امریکا اور بھارت بھی اس کے دوست ہیں۔ جس طرح پاکستان نے افغانستان میں اپنے رسوخ کو بڑھایا تھا اسی طرح ایران نے عراق، شام، لبنان تک اپنا رسوخ بڑھا لیا ہے اور پاکستان کے ایسے تمام طبقات پر قابو رکھنا چاہتا ہے جو کسی بھی طور سے اس کے عالمی مقاصد میں مدد کر سکیں جبکہ ایران کے موازنے میں پاکستان کا بڑی حد تک ایران کے لئے کوئی واضح ایجنڈا ہے ہی نہیں۔

کبھی سعودی اور کبھی امریکا کے کسی پلان ”بی“ کے زیر اثر ایران میں کچھ گروہوں کی مدد کی جاتی ہے اور کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آ یا کہ پاکستان نے ہی عبدالمالک ریگی کے پکڑوانے میں مدد کی۔ امریکا ایک جانب ایران کا آج خاموش حلیف ہے مگر دوسری طرف امریکا کا ارادہ ایران کو لسانی طور پر توڑ کر سنی بلوچستان اور کردستان بنانے کا بھی ہے۔ اسی طرح پاکستان سے بھی امریکا کی پرانی ”یاری“ ہے مگر CPEC کو تباہ کرنے کے لیے بلوچستان کو الگ کر دینا بھی امریکی ایجنڈے میں شامل ہے۔

CPEC سے حسد میں بھارت اور ایران ساجھے دار ہیں۔ ایران اس منصوبے کو روکنے کا خواہاں ہے۔ ان عجیب و غریب حالات میں پاکستان کو بہت غور سے اپنے اور ایران کے تعلقات پرسوچنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بھی ایران کے معاملے میں ایران جتنی ہی عقلمندی سے اپنے حلیف اور حریف چننے ہوں گے۔ مفاد پرستانہ عالمی سیاست میں ایران اور پاکستان دو دوست نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی کسی کا دوست ہے۔ اس شطرنج کی بازی میں ایران اپنے حلیفوں کے مدد سے مشرق وسطیٰ میں کامیاب ہے اور پاکستان میں کامیابی کا خواہاں ہے۔

جبکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بڑی حد تک ایران کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے۔ یہ تذبذب بھی بڑی حد تک ایران کے حق میں ہے۔ یوں پاکستان اپنے عوام کو کبھی کھل کر کلبھوشن یادو اور عذیر جان بلوچ کے انکشافات کا پورا تجزیہ بھی نہیں دیتا اور ایران میں جب بھی کوئی سرحدی گارڈ بھی پاکستانی سرحد پر اغوا ہوتا ہے یا مرتا ہے تو ایرانی ذرائع ابلاغ پر کھل کا پاکستان کا نام آتا ہے۔ یہ ہی پاک ایران تعلقات کی دورنگی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments