سارا شگفتہ اور رنگ چور


فن کار طرفہ مخلوق ہے۔ جاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ کہاں جگ بیتی میں آپ بیتی کے رنگ نکال لائے اور کہاں آپ بیتی کے پردے میں جگ بیتی کا وقت اور مکاں کی حدود سے ماورا پھیلائو بیان کر دے۔ ماضی میں جھانکتے جھانکتے اچانک وقت کے بیج پڑھ لے یا اپنے ہنر کا ایسا جادو پھیلائے کہ سامنے کا منظر ہی اوجھل ہو جائے۔ جون 1987 میں آصف فرخی نے سارا شگفتہ کی شاعری پر یہ مضمون لکھا تو ان کی عمر بمشکل 28 برس تھی۔ پہلے ہی پیراگراف کا یہ جملہ دیکھیے۔۔۔ جواں مرگ شاعرہ سارا شگفتہ کی زندگی اور شاعری دونوں میں شعلۂ مستعجل کی سی کیفیت ملتی ہے۔ لوگ تو جام بکف بیٹھے ہی رہے، اور وہ ’ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے’، کا نعرۂ مستانہ بلند کر کے، اپنی ہی نظم کے مطابق ’ایک چیخ کی طرح زندگی کی سیڑھیوں سے اُتر گئی’۔۔۔۔ کسے معلوم تھا کہ ٹھیک 32 برس بعد یہ جملہ خود آصف فرخی پر پورا اترے گا۔ کچھ بعید نہیں کہ آصف فرخی نے عالم بالا میں پہنچتے ہی سارا شگفتہ کو اس کی کلیات شائع ہونے کی خبر دی ہو اور پھر کتاب کھول کر یہ ثابت کرنے بیٹھ گئے ہوں کہ “ان نظموں کا ذاتی علامتی نظام اب پوری طرح تشکیل پذیر ہو چکا ہے”۔

***       ***

بعض شاعر شمع کی طرح ایک عمر جلتے ہیں، مگر آہستہ آہستہ۔ بعض شاعر شکیب جلالی مرحوم کے بقول، زخمی پرندے کی طرح اپنی کوششِ پرواز کا نقش چٹانوں پر لہو سے بنا جاتے ہیں۔ جواں مرگ شاعرہ سارا شگفتہ کی زندگی اور شاعری دونوں میں شعلۂ مستعجل کی سی کیفیت ملتی ہے۔ لوگ تو جام بکف بیٹھے ہی رہے، اور وہ ’ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے’، کا نعرۂ مستانہ بلند کر کے، اپنی ہی نظم کے مطابق ’ایک چیخ کی طرح زندگی کی سیڑھیوں سے اُتر گئی’۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی کے کرب اور سچائیاں سمٹ کر ایک شخص کا روپ دھار لیتی ہیں۔ جینے کا ایک قرینہ ایک نام بن جاتا ہے۔ سارا شگفتہ بھی ایسا ہی ایک نام ہے، ایک نام جس کے درشن بہت۔ وہ کون تھی، کہاں سے آئی تھی، اس نے افسانوی زندگی کیوں اور کیوں کر گزاری. درد و غم جمع کرتے کرتے اپنی کتابِ زندگی کو میرؔ کا دیوان کیوں بنا لیا. دن رات لوگوں کی زبان کے گھاو سہتے سہتے لہولہان ہو کر ریل کی پٹڑی پر خون کے چھینٹوں میں کیوں بدل گئی. سارا کے ساتھ سوالوں کے بہت سلسلے ہیں۔ یہ سوال جس قدر فطری ہیں، اسی قدر مشکل بھی۔ ان سوالوں کو تسلّی بخش جواب ملے یا نہ ملے، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سارا شگفتہ جہاں ایک گہرا گھنا بھید تھی، وہاں اس میں ایک ایسی موہنی تھی کہ جس کا سحر اس کی موت کے بعد بھی کم نہیں ہوا۔

اس کی جیون کتھا اس عہد کا ایسا تجربہ اور ایسی واردات بن گئی ہے کہ اس کے بارے میں سوچنے کا عمل اتنا پھیل جاتا ہے کہ اس زاویے سے دور حاضر کے بعض مسلّمہ عقائد اور روّیوں کا تنقیدی جائزہ لینا پڑتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ آج اور آج کے غم کو سمجھنے اور محسوس کرنے کا ایک اہم وسیلہ خود سارا شگفتہ کا نام اور کلام ہے۔ امرتا پریتم نے مجھ سے سارا کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جدید شاعری کی MUSE ہے جو مجسّم ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ وہ بدن دریدہ سہی، کرب آگہی کی قتیل بھی تو تھی۔ سارا شگفتہ کی شخصیت اور شاعری میرے نزدیک، دو گونہ اہمیت کی حامل ہے۔ ایک اپنی باطنی ادبی و شعری خصوصیات کی بنا پر، اپنے لحن اور لغت کے انوکھے پن کی بنا پر اور دوسرے اس لیے کہ ایک فرد اور ایک ذاتِ محض کے علاوہ سارا شگفتہ ایک علامت بن گئی ہے۔

سارا کے روّیے اور جوابات کو آپ درست سمجھیں یا نادرست، اہم بات تو یہ ہے کہ وہ بارگاہِ زندگی میں اپنے سوال لے کر گئی، اور اس نے اپنے سوالوں کا جواب طلب کرنے کی جرأت کی۔ رلکے کا کہنا ہے کہ جواب حاصل کرنے سے پہلے عظیم تر سوالوں کا سامنا کرنے کی ہمّت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ سارا شگفتہ اسی ہمّت اور جستجو کا استعارہ ہے۔ سارا شگفتہ کی شاعری اس کا زندگی نامہ ہے۔ ادبی تخلیق کے بارے میں نطشے نے لکھا ہے کہ مجھے تمام تحریروں میں سے صرف انہی سے عشق ہوتا ہے جو ادیب اپنے خون سے رقم کرتا ہے۔ سارا نے جو کچھ لکھا، خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کے لکھا۔ کیا تعجّب ہے اگر ان نظموں سے بوئے خون آتی ہے۔

سارا کے اسلوبِ شعر کا اس کے اسلوب حیات سے آئینے اور عکس کا رشتہ ہے۔ وہ اپنی نظموں میں اپنی واردات کا فوری بے لاگ پن کے ساتھ اظہار کرتی ہے۔ وہ ایک کیفیت کو اس کے فوری تاثر ہی میں گرفت میں لے آنے، اور خیال کی ایک رو کا پیچھا کرتے کرتے اس کے تلازمے جمع کرنے کی زیادہ قائل تھی، اور اظہار کے ان راستوں پر چلنا پسند نہیں کرتی تھی جہاں فنّی نظم و ضبط کلاسیکی پختگی میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ تمام تحریریں الگ الگ منظومات سے زیادہ ایک طویل شاعرانہ آپ بیتی معلوم ہوتی ہیں، ایسی ڈائری جس میں ایک شاعرہ اپنے روز و شب کا حساب لکھ رہی ہے۔ اس کا تعلق جدید شاعری کی ایک قلم رو سے بھی بنتا ہے جسے سلویا پلیتھ، این سیکسٹن اور جان بیری مین جیسے ناموں کے حوالے سے شعرِ اعتراف یا confessional poety کہا گیا ہے کہ یہاں شاعر ٹی ایس الیٹ کی طرح دکھ بھوگنے والی ذات اور شعر کہنے والی ذات میں ایک غیر شخصی تفریق پر اصرار نہیں کرتا، بلکہ شاعری کو اپنے کربِ ذات کے بہت قریب سے گزار کے ڈھالتا ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ سارا نے شعری قوّت و توانائی کا ایک نیا سر چشمہ تلاش کیا تھا، لیکن یہ سوال بحث طلب ہے کہ وہ اس کے تمام امکانات کو بروئے کار لا سکی یا نہیں۔

اس کے یہاں بعض اوقات ایسی سطریں ملتی ہیں جو ریت میں چمکتے ہوئے سیماب کی طرح ہمیں متحیّر کر دیتی ہیں، جیسے:
پرندے کا چہچہانا ہی میرا جنم دن ہے
یا زمین حیرت کرتی ہے
اور ایک پیڑ اُگا دیتی ہے
یا کانٹے پہ کوئی موسم نہیں آتا
یا یہ سطر جو اس نے اپنی نوٹ بک کے حاشیے میں لکھ دی تھی
خدا دا ناں میں تے نئیں رکھیا
ایسی سطریں اور ٹکڑے اس کے کلام میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان کی سطریں بسا اوقات مبہم یا غیر مربوط معلوم ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ اس وجہ سے ہو کہ ان نظموں کا ذاتی علامتی نظام ابھی پوری طرح ہمارے واسطے تشکیل پذیر نہیں ہوا۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب سارا شگفتہ کا تمام کلام چھپ کر سامنے آ جائے۔ بہرکیف، جس وقت تک ایسا نہیں ہوتا سارا کو کوئی ادھوری یا نامکمّل شاعرہ قرار دے کر ٹالا نہیں جا سکتا۔

یہ تاثر بھی غلط ہو گا کہ اس کے کلام میں محض چند سطریں ہی اچھی ہیں۔ وہ مکمّل اور ڈھلی ڈھلائی نظم بھی لکھ سکتی تھی، جیسا کہ ’’آدھا کمرا‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ دانتے جہنّم سے فرار ہو چکا ہے اور جان ڈن سیکنڈ ہینڈ شاعروں سے نجات چاہتا ہے۔ لوگ چائے کے ساتھ غیبت کا کیک کھا کر چغل خوری کی کتاب کا دیباچہ لکھ رہے ہیں اور شاعر دُم ہلانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ نظم ہمارے نقادوں کی نظرِ بد سے بچنے کے لیے تعویذ کا کام بھی تو دے سکتی ہے۔

اسی طرح ایک اور نظم، جو کتاب میں شامل نہیں ہے، یوں شروع ہوتی ہے:
’’سمندر کن موسموں میں مکالمہ کرتا ہے۔‘‘
سمندر تنکے سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر خاموشی سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر کناروں سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر لہروں سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر ساحل پہ اکثر اپنی زبان رکھ دیتا ہے
سمندر سفر سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر موت سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر اپنے سینے میں دفن چٹانوں سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر ماہی کے دکھ سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر کانٹے سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر سورج سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر اپنے ظرف سے مکالمہ کرتا ہے
سمندر مردہ چیزوں سے مکالمہ کرتا ہے

یہ شاعری ہے، اعلا درجے کا تخلیقی ادب، یا سرائیلی انداز کی خود کار تحریر؟ بعض ثقہ حضرات تو اسے سرے سے شاعری ہی ماننے سے انکار کر دیں گے، اور کچھ لوگ مبالغہ آمیز تعریف کریں گے۔ سارا شگفتہ کی تحریر اتنی انوکھی اور ایسے ان جانے ذائقوں کی حامل ہے کہ اس کے بارے میں فوری طور پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا، یا کم از کم ایسا کرنا نہیں چاہیے۔ سارا شگفتہ کے بارے میں ایک تاثر جو میرے ذہن میں اُبھرتا ہے، وہ اکبر الہٰ آبادی کا شعر ہے
ہر چند بگولا مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک رقص تو ہے اک وجد تو ہے بے چین سہی برباد سہی

تاہم مجھے جہاں ان ناقدینِ کہنہ سے ہمدردی ہے جنھیں سارا شگفتہ کے یہاں شاعری نظر نہیں آتی، مجھے زیادہ فکر مبارک احمد جیسے لوگوں کی ہے جن کی حد سے زیادہ تعریف تحسینِ ناشناس معلوم ہوتی ہے اور سارا کے کیس کو نقصان پہنچاتی ہے، مبارک احمد کا اسے سپرپوئٹیس یا کوئین آف پوئٹکس قرار دینا (جو کچھ بھی ان مہمل خطابات کے معنی ہوں) سارا کے حق میں نہیں جاتا۔ عقل سے عاری دوست بھی چالاک دشمن کی طرح خطرناک ہوتا ہے۔ اگر کلام میں دم ہے تو وہ میرے یا آپ کے اعتراضات کے باوجود زندہ رہ جائے گا، اور اپنی حیثیت اس طرح منوا لے گا کہ اسے کسی لیبل یا خطاب کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔

سارا شگفتہ کے ان نادان دوستوں کی طرح ایک طبقہ زہاد و محتسبین کا ہے جو شاعرہ اور اس کے کلام پر قدغنیں لگانا اور حدود قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک ہجوم ہے جس کے تمام جسموں پر زبانیں اُگ آئی ہیں جو افواہیں پھیلانے اور بد گوئی کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کے اُگلے ہوئے زہر نے سارا کو کس قدر تکلیف دی ہو گی، اس کا اندازہ کرنا تو مشکل ہے۔ لیکن سارا کے کلام میں ان کے اصلی خد و خال بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اس پر بے راہ روی کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان تمام واقعات میں ان مکروہ لوگوں کی خباثتیں بہت نمایاں نظر آتی ہیں، جو آج شرافت کے ٹھیکے دار بنے بیٹھے ہیں۔ سارا نے اپنے جسم و جان کو تمام آئینہ بند کر لیا تھا۔ وہ آئینہ پوش ہو گئی تھی۔ اگر لوگ اس کی طرف دیکھ کر دشنام طرازی کرتے اور چیختے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ مکرہ چہرہ انہی کا ہے، سارا شگفتہ کا نہیں کہ وہ آئینہ فروشِ شہر عفریتاں تھی۔

چھوٹے چھوٹے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی باتیں سارا شگفتہ کے نام کو تو کیا خراب کریں گی، یہ ضرور ہوا ہے کہ ان کی بدولت ایسے لوگوں کو پہچان لینا آسان ہو گیا ہے۔ سارا کے آئینے میں غازہ لگے چہروں کا خبثِ باطن واضح ہو جاتا ہے اور جب بات تلخ نوائی کی چل نکلی ہے تو آپ کو ن م راشد کی وہ نظم تو یاد ہی ہو گی:
یہ اجتماعی حکایتیں، آیتیں، کشاکش،
یہ داڑھیوں کا، یہ گیسوئوں کا ہجوم مثلاً
یہ الووں کی، گدھوں کی عفّت پہ نکتہ چینی
یہ بے سرے راگ ناقدوں کے
یہ بے یقینی
یہ ننگی رانیں، یہ عشق بازی کی دھوم مثلاً
تمام مریل گدھے ہیں
(مریل گدھے نہیں کیا؟)
دریچہ کھولو
کہ برف کی لے
نئے توانا گدھوں کی آواز
ساتھ لائے
تمہاری روحوں کے چیتھڑوں کو سفید کر دے!

اب مریل گدھوں کا یہ ہجوم سارا کی روح کو سفید کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ موت کے بعد ایک نئی سارا شگفتہ ہمارے سامنے آئی ہے، یا لائی جا رہی ہے۔ اس کے مرنے کے بعد لوگوں کی آنکھوں کی کینچیلیاں بدل گئیں۔ کچھ لوگ اپنی نام نہاد طہارت اور پاکیزگی کے گندے حوض میں غوطہ دے کر اسے گنجا فرشتہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ اسی شہر کے ایک صاحب جو اپنے ہذیانیے کو نگل کر اس سے یہ کہا کرتے تھے کہ نظم سنانے سے پہلے اپنے دماغ کی رسولی کا علاج کرواو، اور جو اس نظریے کو دُہرانے کے بہت شوقین ہیں کہ اگر چالیس کروڑ بندر دن رات بیٹھے ٹائپ کرتے ہیں تو نظریۂ امکانیت کے تحت وہ کسی نہ کسی دن انجیل لکھ ڈالیں گے، وہ اب سارا کے کلام کو شطحیات قرار دیتے ہیں اور اسے رابعہ بصری سے کم درجہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔

ایک اور شاعر جنہوں نے سارا کی زندگی میں اس کے لیے کبھی کلمۂ خیر نہیں کہا اور سرپرستانہ حقارت سے کام لیا، مرنے کے بعد اس پر ایک لجلجی سی نظم لکھ کر اس کی شہرت میں حصّہ بٹورنے آ گئی ہیں۔ پھیکے شربت جیسی شاعری کرنے والے لوگ سارا کو ٹماٹو کیچپ کہہ رہے ہیں۔ ماہ تابی چہروں کے خفقان میں مبتلا رہنے والے آج اس کے ناخن سے بھی چھوٹے اور جھوٹے نظر آ رہے ہیں۔

کسی نے امریکا کا احوال بتایا تھا کہ وہاں یہ رسم چلی ہے کہ مردوں کو بھی خوب صورت بنایا جاتا ہے۔ تابوت میں لٹانے سے پہلے لاش کے داغ دھبے عیب تزئین و آرائش سے چھپا دیے جاتے ہیں کہ زندگی کسی طور بھی گزری ہو، آپ کی لاش کو معزز اور پاکیزہ نظر آنا چاہیے۔ یہ پیشہ جو Mortician کہلاتا ہے، بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ اپنی بعد از مرگ مشاطگی سارا کے چہرے پر کیوں آزما رہے ہیں۔ یہ لوگ اچانک اسے Respectable بنانے کی کوشش کرنے کیوں چلے آئے، کیا صرف اس لیے کہ وہ اس معاشرے کے لیے قابل قبول بن جائے جسے وہ اپنی جوتی کی نوک سے ٹھکرا چکی تھی؟

اس شہر کے تمام ستر پوشوں کو سارا پہلے ہی جواب دے چکی تھی:
مینوں چکھن والیا! بس
جا کٹّی! کٹّی! کٹّی
اگ ننگی چنگی
اکھ رنگی چنگی
میں ننگی چنگی

انجیل مقدّس میں Lazarus کا قصہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ مر گیا اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا اور تمام لوگ اسے موت سے زندگی کی طرف آتے ہوئے دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ سارا شگفتہ Lady Lazarus نہیں ہے جو ان کے معجزوں سے واپس لوٹ آئی ہو۔ یہ بہروپ ہے، یہ جھوٹا چہرہ سارا کا نہیں ہے۔ اس نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا:
اور شام ہو رہی ہے
اور اس نے ہمارے چہرے چوری کرنے شروع کر دیے ہیں۔

زندگی کی شام ہوتے ہی یہ رنگ چور کیا سارا کے کفن کو بھی نہیں بخشیں گے؟ اسی نظم میں اس نے یہ بھی لکھا تھا:
آدمی جب روتا ہے
اپنے آنسوئوں میں ڈوب جاتا ہے
اس وقت تم آدمی کا کوئی رنگ چوری نہیں کر سکتے

سارا کے چہرے کے خد و خال چرانا آسان کام نہیں ہے، چاہے اخباری کترنوں سے بنے ہوئے زرد رو آدمی اسے ٹیلی وژن کی منی اسکرین پر گھسیٹ کے لانے کی کوشش کیوں نہ کریں۔

اپنے ٹنڈو آدم میں بیٹھ کر چیونٹی کے انڈے کو آسمان سمجھنا اور سارا کے گرد گھٹیا رومانی ہالا بنا دینا بہت آسان ہے۔ سارا کی کتابِ زندگی سے صفحے چرانے والے ان لوگوں میں اتنی ہمّت بھی کہاں کی اس کی نہج پر جی کر دکھانا تو درکنار، چند لمحوں کے لیے ہی سہی، ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں کہ ان سوالوں ہی کو سچّائی کے ساتھ دُہرا سکیں سارا کی زندگی جن سے عبارت تھی۔ اور پھر طرہ یہ کہ سارا کے نام کو گالی بنا کر ان لوگوں کے منھ پر ملنا چاہتے ہیں جن کا قبیلہ سارا کا قبیلہ ہے۔ اس ناٹک کا مقصد کیا ہے؟ اگر یہ مچھندر اسی طور روٹی کما کھانا چاہتے ہیں تو سارا کے نام کو ڈگڈگی کے طور پر استعمال کرنا بند کر دیں۔ سارا کی زندگی پر قلم اٹھانے کا دعویٰ ایسے بالشت بھر کے لوگوں پر سجتا نہیں۔ زندگی بھر کے استحصال سے بھی مطمئن نہ ہو کر اس کی موت کے بعد بھی یہ لوگ سارا کو سستی شہرت کے حصول کے لیے بیساکھی بنا رہے ہیں۔ وہ ادبی اور سماجی Establishment جسے سارا نے منہ لگانے کے قابل نہیں سمجھا، اور جو زندگی بھر سارا سے گریزاں رہا جیسے شرفا کوڑھی سے بچتے ہیں، اب اس کی شہرت میں حصہ بٹانے آ گیا اور وہ بھی نقب زنی کے ذریعے۔ کیا یہ کوے اور گدھ اسے مردار گوشت سمجھ کر نوچتے رہیں گے؟

(15 جون 1987)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments