یاسمین لاری: صرف 50 ہزار روپے میں ماحول دوست گھر بنانے والی پاکستانی ماہرِ تعمیرات


یاسمین لاری، پاکستان، تعمیرات، ماحولیات، ماحول دوست، سندھ، ٹھٹھہ

یاسمین لاری کہتی ہیں کہ 2005 میں آنے والے زلزلے نے انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا

پاکستان میں کیا صرف 50 ہزار روپے میں مکان بنایا جاسکتا ہے؟ یقیناً آپ پکی اینٹوں، سیمنٹ کی بوریوں اور سریے کا تخمینہ لگا کر جواب نفی میں دیں گے۔

لیکن نامور ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری کا دعویٰ ہے کہ دیہی علاقوں میں یہ ماحول دوست مکانات اس سے بھی کم قیمت میں تعمیر ہو سکتے ہیں۔

کراچی کی مرکزی سڑک شارعِ فیصل سے گزرتے ہوئے یقیناً کئی لوگوں کی نظریں گورا قبرستان کے نزدیک سرخ گرینائیٹ سے تعمیر شدہ بلند عمارت پر پڑی ہوگی۔

ایف ٹی سی نامی اس عمارت میں کئی ٹن لوہا، سیمنٹ، شیشہ اور کنکریٹ استعمال ہوا اور یاسمین لاری یہ عمارت تعمیر کرنے والی آرکیٹیکٹ تھیں۔ مگر اب انھوں نے اس مٹیریل کے استعمال کو ترک کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ریت: جس کے لیے لوگ جان بھی لینے کو تیار ہیں

فن تعمیر کو اجاگر کرنے والی چند حیرت انگیز تصاویر

عمارتیں جو کبھی بہترین فن تعمیر کا نمونہ تھیں

اہرام مصر کی تعمیر کی پیچیدہ ترین گتھی حل؟

عالمی ایوارڈ یافتہ ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ ہر کوئی ’سٹار آرکیٹیکٹ‘ بننا چاہتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں بنائیں، ان کا بھی وہ ہی حال تھا اور تقریباً 36 سال انھوں نے یہی کیا۔

یاسمین لاری، پاکستان، تعمیرات، ماحولیات، ماحول دوست، سندھ، ٹھٹھہ، کراچی، ایف ٹی سی،

یاسمین لاری کراچی کی مشہور ایف ٹی سی بلڈنگ کی معمار ہیں لیکن اب وہ اس مٹیریل کا استعمال ترک کر چکی ہیں

’اس وقت دنیا اور تھی۔ کھپت مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ خیال نہیں آیا کہ ہم دنیا کے گولے کے وسائل ختم کرتے جا رہے ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ کیا تباہی آئی ہے۔ ہم نے زمین کو بری طرح سے استعمال کیا ہے۔ قدرتی آفات بڑھ گئی ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے سیلاب آرہے ہیں۔‘

یاسمین لاری لاہور کے شاہی قلعے کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے سائنس، تعلیم اور ثقافت یونیسکو کی مشیر رہی ہیں۔ اسی دوران 2005 میں کشمیر میں زلزلہ آگیا اور بقول یاسمین لاری کے یہ زلزلہ ان سمیت کئی لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لایا۔

’میں نے یہ سوچا کہ تعمیرات میں مقامی طریقوں اور زمین کو کیسے استعمال کروں؟ اس میں چونے کا بڑا ہاتھ تھا۔ جو تاریخی عمارتیں ہیں، ان کے تحفظ میں چونے کا استعمال ہوتا ہے۔ وہ میں نے وہاں سے سیکھا اور بعد میں زلزلے سے متاثرہ علاقے میں یہی استعمال کیا۔ اس کی وجہ سے ہمارے گھر بڑے سستے بنتے تھے اور لوگ خود بنا سکتے تھے۔ لکڑی ہو یا پتھر، اس سے ہم نے تعمیرات کیں۔‘

پاکستان میں 2010 اور 2011 میں آنے والے سیلاب اور بعد میں زلزلوں نے یاسمین لاری کو ’کم قیمت‘ مکانات کی تعمیر کا موقع فراہم کیا۔ ’میں نے جو کچھ سیکھا ہے، وہ پرانی قدروں سے سیکھا ہے۔ میں جو بھی ڈیزائن کرتی ہوں وہ ورنیکیولر روایات (دیسی طرزِ تعمیر) ہیں یا تاریخی عمارتوں کی مرمت سے سیکھا۔

یاسمین لاری، پاکستان، تعمیرات، ماحولیات، ماحول دوست، سندھ، ٹھٹھہ

یاسمین لاری نے پنج گوشہ اور اگلو سٹائل سمیت جیومیٹری کی مختلف اشکال کے گھر بنائے ہیں جو ایک کمرے سے لے کر تین کمروں تک پر مشتمل ہیں

یاسمین لاری نے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں مکلی قبرستان کے قریب اپنا ماڈل ولیج بنایا ہے اور ہیریٹیج فاؤنڈیشن نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے زیرو کاربن یا ماحول دوست تعمیرات کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کی تعمیرات میں مٹی، چونے اور بانس کا استعمال عام ہے۔

’مٹی ہر جگہ موجود ہے۔ چونا ایک قدیم میٹریل ہے جو اہرامِ مصر، رومن طرز تعمیر اور جو بڑے بڑے قلعے ہیں، ان میں بھی استعمال ہوا۔ 1990 کی دہائی سے چوں کہ سیمنٹ کا دور دورہ شروع ہوگیا اس لیے عام لوگ صرف سیمنٹ کو جانتے ہیں حالانکہ چونے میں سے سب کم کاربن کا اخراج ہوتا ہے اور یہ ہوا سے کاربن کو جذب بھی کرتا ہے۔ مٹی دوبارہ جا کر مٹی میں مل سکتی ہے اور بانس کی فصل ہر دو سال کے بعد مل جاتی ہے۔ لکڑی استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘

یاسمین لاری نے پنج گوشہ اور اگلو سٹائل سمیت جیومیٹری کی مختلف اشکال کے گھر بنائے ہیں جو ایک کمرے سے لے کر تین کمروں تک پر مشتمل ہیں، جن کی دیواریں مٹی جبکہ چھت، دروازے، کھڑکیاں اور دروازے بانس سے بنے ہوئے ہیں۔

یاسمین لاری کے مطابق یہ بانس کا پری فیب یا پہلے سے تیار شدہ گھر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو ایک ڈھانچہ دیتے ہیں جس کی فنیشنگ وہ خود کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ٹوائلٹ جو بھی بانس سے بنتا ہے اور ہینڈ پمپ جو پانچ لوگ شیئر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ چولھا بھی ہوتا ہے جس کو ہم نے پاکستان چولھے کا نام دیا ہے، اس کو عالمی ایوراڈ مل چکا ہے۔ ان سب چیزوں کی لاگت تقریبا 27 ہزار روپے بنتی ہے، یہ ہر خاندان کو ملنا چاہیے۔‘

یاسمین لاری، پاکستان، تعمیرات، ماحولیات، ماحول دوست، سندھ، ٹھٹھہ

ایک گھر کی تعمیر کے دوران یاسمین لاری کام کا معائنہ کر رہی ہیں

یاسمین لاری کے مطابق یہ گھر گرمی میں ٹھنڈا بھی رہتا ہے جبکہ کنکریٹ بہت زیادہ گرم ہوجاتا ہے۔ ’دیہاتوں میں ماحول مختلف ہے، وہاں ضرورت ہی نہیں ہے کہ کنکریٹ یا سٹیل کا استعمال کریں۔ جو تعمیرات کے پرانے طریقے ہیں، ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ہم ایسی چیزیں کریں جو غریبوں کے لیے مناسب ہوں۔ ہمیں یہ فکر نہیں کرنی چاہیے کہ یہ امیروں کے لیے اچھی ہیں یا نہیں؟‘

پاکستان میں 2010 اور 2011 کے سیلاب کے بعد ہزاروں گھر تعمیر ہوئے جن کے لیے مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے متاثرین کی مالی معاونت کی۔ یاسمین لاری کے مطابق ان دنوں جو بڑے بڑے عالمی ادارے مدد کے لیے آئے، انھوں نے جو گھر بنائے وہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کی مالیت میں ایک کمرہ بناتے تھے۔ اُن میں پکی اینٹیں، کنکریٹ کے بلاک اور سٹیل کے شہتیر استعمال کیے جاتے تھے۔ ڈیڑھ لاکھ روپے ایک کمرے کے لیے بہت زیادہ ہوتا ہے، اس زمانے میں ہمارے گھر 20 ہزار سے لیکر 30 ہزار روپے میں بن جاتے تھے۔

یاسمین لاری، پاکستان، تعمیرات، ماحولیات، ماحول دوست، سندھ، ٹھٹھہ،

یاسمین لاری کے ماحول دوست تعمیراتی منصوبوں میں خواتین بھی کام میں حصہ لیتی نظر آتی ہیں

وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے مختلف شہروں میں کم آمدنی والے لوگوں کے لیے 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا جس کے لیے رجسٹریشن کا بھی آغاز کیا گیا، تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد مزید پیش رفت رک گئی۔

یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ ابھی جو سکیم آئی ہے یا پہلے جو آئیں، وہ کبھی بھی غریبوں تک نہیں پہنچ پائیں۔ ’موجودہ سکیم میں بھی ایک کمرہ 15 لاکھ روپے تک کا ہوگا، یہاں تو کئی لوگوں میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ پانچ ہزار روپے بھی کسی چیز میں ڈال سکیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp