’یورپ کی آخری سزائے موت کا انتظار کرتے میرے بھائی‘


Stanislaw and Ilya Kostsew

Belsat
سٹانسلا اور الیا جنوری میں عدالتی کارروائی کے دوران

بہت ممکن ہے کہ اب کسی بھی دن سزائے موت پر عمل کرنے والے واحد یورپی ملک میں دو مجرموں کو یہ سزا دے دی جائے، لیکن ان کے خاندان کو یہ کبھی پتہ نہیں چلے گا کہ انہیں گولی کب ماری گئی اور انہیں کہاں دفن کیا گیا ہے۔

پانچ ماہ قبل ہانا کوسٹسیوا اس وقت عدالت میں تھیں جب ان کے دو بھائیوں سٹانسلا اور الیا کو، جن کی عمر انیس اور اکیس سال ہے، قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔

جب جج نے ’سزائے موت کی صورت میں غیر معمولی سزا کے اطلاق‘ کا فیصلہ سنایا تو عدالت میں موجود لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔

’پہلے ایک پھر ایک اور پھر ایک اور جب تک پورا ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ مجھے اس وقت ایسا لگا جیسے میری اپنی زندگی کو ختم کیا جا رہا ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

یورپ کا واحد ملک جو کورونا وائرس سے پریشان نہیں

سعودی عرب سزائے موت کے معاملے میں سرفہرست

ہانا کہتی ہیں کہ وہ اس کے بعد اس پنجرے کی طرف بڑھیں جس میں ان کے دونوں بھائی تھے۔ دونوں نے ہانا کے ایک ہمسائے کو قتل کرنے کے جرم کا اعتراف کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے سلاخوں کے باوجود انہیں گلے لگانے کی کوشش کی اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

Hanna Kostseva with photograph of herself and her brothers as children

ہانا اور ان کے تین بھائیوں کی بچپن کی تصویر دیکھتے ہوئے

اس سب سے ایک ماہ پہلے بیلاروس کے صدر الیکزینڈر لوکاشینکو نے ایک روسی ریڈیو سٹیشن سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کیس ان کے ذاتی کنٹرول میں ہے۔

’یہ گندگی کی طرح ہیں۔ ان کے لیے اور کوئی لفظ نہیں۔ انہوں نے ایک ٹیچر کا قتل کیا۔ صرف اس لیے کہ وہ ان کی بہن کے دو بچوں کو بچانا چاہتی تھی۔ ان کی بہن کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک غیر سماجی عنصر۔ وہ ٹیچر صرف ان بچوں کی حفاظت کرنا چاہتی تھی، ان کو اس خاندان سے دور کر کے۔ ان دونوں نے رات بھر اس پر چھریاں چلائیں۔‘

انہیں ملنے والی سزا کے خلاف دونوں بھائیوں کی اپیل کو بائیس مئی کو خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے پاس صرف ایک راستہ بچا تھا، صدر سے رحم کی اپیل۔

بہت ممکن ہے کہ صدر دو جون کو اپنا فیصلہ کر چکے ہیں اور اگر فیصلہ انہیں معاف کرنے کا ہوتا تو اب تک خبروں میں شامل ہو گیا ہوتا۔

پچیس سال پہلے بیلاروس کی پہلی اور اب تک کے واحد صدر بننے والی لوکاشینکو نے اپنے دور میں صرف ایک بار رحم کی اپیل قبول کی ہے۔

جب دونوں بھائیوں کو سزا سنائی گئی تو ان کی والدہ ناٹالیا کوٹسیوا عدالت میں موجود نہیں تھیں۔ اس کے پیچھے جو وجہ ہے باہر کے لوگوں کے لیے شاید اسے سمجھنا مشکل ہو۔

Hanna Kostseva with her eldest brother, and one of her sons

Hanna Kostseva
ہانا اور ان کے بھائی (دائیں جانب) اور ایک بیٹا

یہ کہانی انیس سال پہلے تب شروع ہوتی ہے جب ناٹالیا کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا سٹینسلا اس وقت پانچ ماہ کا تھا اور الیا دو سال کا۔

اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ناٹالیا نے ایک ڈیئری فارم پر کام شروع کر دیا۔ اس کے بعد انہیں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں کام مل گیا جہاں کئی انہیں گھر آنے میں دیر ہو جایا کرتی تھی۔ اکثر سٹینسلا، الیا اور ان کے بڑے بھائی کا خیال رکھنے کی ذمہ داری ہانا کو نبھانی پڑتی، جو بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں۔

ناٹالیا کہتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ وہ ایک مثالی ماں نہیں تھیں۔ بچوں پر نظر رکھنے والے سوشل ورکرز جب ان کے گھر آتے تو گھر کے بنے کھانے کی تعریف بھی کرتے لیکن ساتھ ہے اپنے رپورٹ میں یہ بھی لکھتے کہ ناٹالیا نے شراب پی رکھی تھی۔

اس سب کے باوجود پرانی فوٹوز میں ناٹالیا اپنے بچوں، پوتے پوتیوں کو گلے لگاتے نظر آتی ہیں۔

تیرہ سال اسی طرح گزرے۔ آخر کار جب سٹانسلا چودہ اور الیا سولہ سال کے تھے تو انہیں سکول نہ جانے اور جھگڑوں میں ملوث ہونے کے سبب گھر سے الگ کرکے بچوں کے ایک سرکاری ہوم میں داخل کر دیا گیا۔

بیلاروس میں جب سرکار بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے تو ان کے والدین، جو اس کیس میں ناٹالیا تھیں، اس کا خرچہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ان پر اب بھی تقریبا چار ہزار ڈالر کا قرضہ ہے، جو ہر ماہ ان کی تنخواہ میں سے کاٹا جاتا ہے، اور یہ ابھی اگلی آٹھ سال تک چلے گا۔ یعنی وہ یہ قرضہ اپنے بیٹون کی موت کے بعد بھی چکاتی رہیں گی۔

یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے ناٹالیا مشرقی شہر موگیلیو میں مقیم اس جیل میں اپنے بیٹوں سے ملاقات کے لیے بھی نہیں جا سکیں جہاں وہ قید ہیں اور نہ ہی عدالت میں سنوائی کے دن موجود تھیں۔ قرضے کی کچھ قستیں ادا کرنے میں تاخیر کی وجہ سے ایک عدالتی حکم نامے کے تحت وہ تب تک دارالحکومت منسک سے باہر نہیں جا سکتیں جب تک وہ پورا قرضہ اتار نہیں دیتیں۔

اپریل دو ہزار انیس میں جب ان کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تب سے ان کا رابطہ صرف خطوں کےذریعے ہے۔

Hanna Kostseva looks at a photograph of her parents' wedding

ناٹالیا اور ان کی شوہر کی شادی کی یادگار تصویر

ناٹالیا اور ہانا اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ دونوں لڑکے خونی ہیں اور انہیں سزا ملنی چاہیے۔

ان کی بہن ہانا کہتی ہیں، ’میں یہ ہرگز نہیں کہتی کہ جو انھوں نے کیا اس کا کوئی جواز تھا۔ وہ مجرم ہیں۔ کسی کی جان لینے کا حق کسی کو بھی نہیں۔ اس ایک لمحے میں انھوں نے کسی اور، خود اپنی اور ہماری زندگیاں بھی ختم کر دیں۔‘

یہ سب سٹینسلا کے اٹھارہویں جنم دن کی بعد ہی ہوا جب اسے سرکاری ادارے سے نکلنے کی اجازت ملی اور وہ ہانا کے ساتھ اسی گھر میں رہنے کے لیے گیا جہاں وہ سب بڑے ہوئے تھے، روسی سرحد کے قریب چیریکاو کے شہر میں۔

الیا دو سال پہلے ہی واپس آ گیا تھا۔

اتنے عرصے تک الگ رہنے کے بعد ملنے کی خوشی زیادہ دیر نہیں رہی۔ کچھ ہی دن بعد دونوں بھائی پڑوس میں رہنے والی ایک ٹیچر سے بدلہ لینے چلے گئے۔ اس ٹیچر نے سوشل سروسز سے ہانا کے بچوں کے بارے میں شکایت کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں بھی سرکاری ادارے میں داخل کر دیا جانا چاہیے۔

سٹینسلا اور الیا نے ٹیچر کو چھریاں مار کر ہلاک کر دیا اور پھر گھر کو آگ لگا دی۔ دونوں کو اس کے بعد جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔

Natalya Kostseva with Stanislaw and a grandson

Natalya Kostseva
نٹالیا سٹینسلا (بائیں جانب) اور اپنے نواسے کے ساتھ

عدالت میں گونجنے والی تالیوں کی بعد ہانا کہتی ہیں کہ انہیں لوگوں کے رویے کی وجہ سے شہر چھوڑنا پڑا اور وہ نوے میل دور ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے لگیں۔ وہاں سے وہ کبھی کبھی وہ سات گھنٹے ٹرینوں اور بسوں پر سفر کر کے اپنے بھائیوں کے لیے کھانے پینے کا سامان جیل تک پہنچاتیں۔

وہ ان دونوں سے الگ الگ ملتیں، کیونکہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے ملنے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو خط لکھنے کی اجازت تک نہیں ہے۔

فیصلہ آنے کے بعد ہانا کو پتہ چلا کہ یورپ کے دیگر ملکوں بشمول ہمسایہ روس اور یوکرین میں موت کی سزا کو ختم کر دیا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ قاتلوں کو عمر قید ہونی چاہیے۔

’قید سے سب لوگ زندہ بچ کر نہیں نکلتے، لیکن آپ کو قید کاٹنی پڑتی ہے، بہت کچھ سہنا پڑتا ہے اور پھر آپ پچھتاوے اور ندامت کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ سزائے موت آپ سے نادم ہونے کا حق چھیں لیتی ہے۔‘

منسک میں موت

ایک اندزے کے مطابق انیس سو اکانوے میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک بیلاروس میں چار سو سے زیادہ افراد کی سزائے موت پر عمل درامد کیا گیا ہے، حالانکہ حالیہ عرصہ میں ہر سال ہونے والی ہلاکتوں میں کمی آئی ہے۔

انیس سو چھیانوے کے بعد سے کسی بھی دیگر یورپی ملک میں سزائے موت پر عمل درامد نہیں کیا گیا۔

Natalya Kostseva

نٹالیا اپنے بیٹوں کے خط اٹھائے کھڑی ہیں

بیلاروس میں سزائے موت پر عمل درامد پر پابندی لگانے کے مطالبات کو صدر لوکاشنکو یہ کہہ کر رد کرتے آئے ہیں کہ یہ عوام کی مرضی ہے۔

انیس سو چھیانوے میں ہونے والی ایک رائے شماری میں اسی فیصد افراد نے سزائے موت کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔

بیلاروس میں صرف مردوں کو سزائے موت دی جا سکتی ہے، خواتین کو نہیں۔

عدالت میں دونوں بھائیوں نے ٹیچر کے خاندان سے معافی کی بھیک مانگی اور ہانا کہتی ہیں کہ دونوں نے پادری سے ملاقات کی درخواست بھی کی ہے۔

انہیں اب وسطی منسک میں گورکی ڈرامہ تھئیٹر، بیلاروسی سینیما کی تاریخ کے میوزیم، ایک میکڈونلڈز اور ٹی جی آئی فرائیڈے کے قریب واقع ایک حراستی مرکز منتقل کیا جا چکا ہے۔

Hanna Kostseva

یہ ایک کھلا راز ہے کہ دہائیوں سے یہیں سزائے موت پر عمل درآمد کی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن اینڈرے پولودا کہتے ہیں، ’سب کچھ بالکل ویسا ہی ہے جیسا سوویت دور میں تھا۔ کچھ نہیں بدلا۔ لواحقین کو قیدیوں کی لاشیں تک نہیں دی جاتیں، سزا پر عمل کا وقت نہیں بتایا جاتا، یہ تک نہیں بتایا جاتا کہ انہیں دفن کہاں کیا گیا ہے۔‘

وسطی منسک میں واقع اس حراستی مرکز کے ایک سابق ڈائیریکٹر اولیگ الکاییو جو اب مغرب میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ ایک اکیلا جلاد پستول کا استعمال کرتا ہے۔

اینڈرے پولودا کہتے ہیں ’اس عمل کے دوران ایک ڈاکٹر موجود ہوتا ہے جو بعد میں موت کی تصدیق کرتا ہے۔ استغثیٰ کا ایک وکیل بھی موجود ہوتا ہے۔ جب میں منسک میں میٹرو پر سفر کرتا ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ کیا اس سارے عمل میں شامل کوئی شخص بھی اس وقت سفر کر رہا ہے؟‘

Natalia Kostseva with letters from her sons

ناٹالیا کے بیٹے کا خط جس پر تحریر ہے ’آپ کا بے کار بیٹا‘

ناٹالیا اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان کے بیٹوں کی سزا پر عمل ہونے والا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’خدا نہ کرے اگر میں نے انہیں کھو دیا تو میں زندہ نہیں رہوں گی۔ میں ان کے بعد زندہ رہنا ہی نہیں چاہتی۔‘

سزا پر عمل ہونے کے کچھ عرصے بعد ناٹالیا کو ایک پیکیج ملے گا جس میں ان کی بیٹوں کی چیزیں ہوں گی اور ایک سرکاری خط جس میں صرف یہ لکھا ہو گا کہ ان کی بیٹوں کو دی جانے والی سزا پر عمل کیا جا چکا ہے، اور کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp