کورونا وائرس ہو یا نہ ہو، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’لاک ڈاؤن تو دس ماہ سے جاری ہے‘


محمد یعقوب

Majid Jahangir/BBC
محمد یعقوب کا شکارا پانچ اگست سے ڈل جھیل میں بیکار پڑا ہے اور وہ چھ افراد پر منبی اپنے کنبے کی کفالت کے لیے دوسرے کام کاج کرنے پر مجبور ہیں

انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت والے آرٹیکل 370 کو پانچ اگست سنہ 2019 کو ختم کیے جانے کے بعد سے سرینگر کی ڈل جھیل میں کھڑی عبدالخالق کی ہاؤس بوٹ میں کوئی سرگرمی نہیں ہوئی۔

70 سالہ عبدالخالق کہتے ہیں کہ ’پانچ اگست سے پہلے میری ہاؤس بوٹ پر سیاح آتے تھے۔ لیکن جب انڈین حکومت نے ایڈوائزی جاری کرتے ہوئے سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے کے لیے کہا تو تمام سیاح یہاں سے نکل گئے۔ اس کے بعد سے اب تک ایک بھی سیاح وہاں نہیں دیکھا گیا ہے۔ ہم اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ہمیں ایک روپے کی بھی کمائی نہیں ہوئی۔‘

عبدالخالق بتاتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر وہ پانچ سو سے ایک ہزار روپے تک کما لیتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں ’پچھلے دس مہینوں کے دوران اپنے کنبے کا خرچ چلانے کے لیے میں نے قرض لیا اور سونے کے زیورات اور دیگر سامان فروخت کیا۔ اب ویران ڈل جھیل ہماری طرف دیکھتی ہے اور ہم اس کی طرف حسرت سے دیکھتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ہم آپ کے قرض دار ہیں لیکن بے عزتی نہ کریں‘

کشمیریوں کے دل و دماغ پر چھائی مایوسی کی چادر

سیاحوں، زائرین کو کشمیر سے نکلنے کا مشورہ

ڈل جھیل میں تقریباً آٹھ سو سے زیادہ ہاؤس بوٹس ہیں۔ کشمیر آنے والے سیاح ہاؤس بوٹ میں قیام کرتے ہیں اور اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔

لال چوک

Majid Jahangir/BBC
گذشتہ سال پانچ اگست کو انڈین حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی

محمد یعقوب کا شکارا پانچ اگست سے ڈل جھیل میں بیکار پڑا ہے اور وہ چھ افراد پر منبی اپنے کنبے کی کفالت کے لیے دوسرے کام کاج کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’جب سیاحوں کی آمد بند ہو گئی تو میں نے گدھے کی طرح مزدوری شروع کردی۔ میں نے نالیاں صاف کیں اور جو بھی کام ملا وہ کیا۔ دن کا وقت ہم سوچتے ہوئے گزارتے ہیں لیکن جب رات آتی ہے تو میں سو نہیں پاتا‘

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ پورے انڈیا کے منظر نامے پر غور کریں گے تو جموں و کشمیر کی صورتحال بہت مختلف ہے۔ آپ یہاں لوگوں کو ذہنی مریض بنتے دیکھیں گے۔

یعقوب کہتے ہیں ’اگر آپ کشمیر میں سروے کروائیں تو حکومت کو کورونا کی وبا سے نمٹنے کے عمل کو بیچ میں ہی چھوڑ کر دماغی ہسپتالوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔ ہم نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ہمارا کنبہ ہمیں نہیں پہچانے گا کہ ہم کون ہیں۔‘

حال ہی میں حکومت نے ہاؤس بوٹس اور شکارا مالکان کے لیے ایک ایک ہزار روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یعقوب اس پیکیج کو ایک ’بہت بڑا مذاق‘ قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’جب میں نے حساب لگایا کہ اس ایک ہزار روپے کے پیکیج کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے تو میں نے محسوس کیا کہ ہم اس سے ایک سینیٹائزر، ایک صابن اور ایک ماسک خرید سکتے ہیں۔‘

یعقوب بتاتے ہیں کہ انھیں گھریلو اخراجات کے لیے اپنے بیٹے کا فکسڈ ڈپازٹ توڑنا پڑا۔ انھوں نے کہا ’اب بھی مجھے یہ تکلیف ہوتی ہے کہ باپ نے بیٹے کا فکسڈ اکاؤنٹ کیوں توڑا؟‘

’میرے بوڑھے والد نے کچھ دس ہزار روپے بچا کر رکھے تھے لیکن مجھے وہ رقم بھی خرچ کرنا پڑی۔ میں بالکل بے بس تھا، میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔‘

گذشتہ سال پانچ اگست کو انڈین حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور پورے خطے کو مرکز کے زیر انتظام دو علیحدہ علاقوں میں منقسم کر دیا تھا۔

پانچ اگست کے بعد سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی معیشت کو تقریباً 18 ہزار کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ اعداد و شمار کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے جنوری سنہ 2020 میں جاری کیے تھے۔

پانچ اگست کے بعد سے کشمیر میں پانچ ماہ سے زیادہ عرصے تک کرفیو، پابندیاں اور ہڑتالیں جاری رہیں۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے انڈین حکومت نے تمام مواصلاتی ذرائع کو بند کر دیا اور غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے تھے۔

بیٹ کی دوکان

Majid Jahangir/BBC
گذشتہ جمعے کو جب ڈار نے دس ماہ بعد اپنی دکان کا شٹر اٹھایا تو وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ ان کی دکان کو چڑیوں نے اپنا گھونسلہ بنا لیا تھا

جنوبی کشمیر میں کرکٹ کے بلے بنانے والی صنعت کو بھی پانچ اگست کے بعد سے مشکلات کا سامنا ہے۔

غلام نبی ڈار سنگم میں بلے بنانے کا یونٹ چلاتے ہیں، پچھلے دس مہینوں میں انھیں شدید مالی نقصان ہوا ہے۔

گذشتہ جمعے کو جب ڈار نے دس ماہ بعد اپنی دکان کا شٹر اٹھایا تو وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ ان کی دکان کو چڑیوں نے اپنا گھونسلہ بنا لیا تھا۔

ڈار کہتے ہیں ’آپ نے خود دیکھا ہے کہ ہمارے کاروبار کا کیا ہوا ہے۔ پرندوں نے ہماری دکانوں کے اندر گھونسلے بنا لیے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’ہم نے پانچ اگست سے اپنی دکانیں نہیں کھولیں۔ ہم بجلی کے بل ادا کرنے کے قابل بھی نہیں اور نہ ہی ہم بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ اگر ہم بلے بناتے بھی ہیں تو انھیں کسے فروخت کریں گے۔ انڈیا بھر میں دکانیں بند ہیں اور کشمیر میں فیکٹریاں بند ہیں۔ ہم اپنی مصنوعات پورے انڈیا میں فراہم کرتے ہیں۔ اب بھی میرے پاس فیکٹری میں بیس لاکھ روپے سے زیادہ کی مصنوعات پڑی ہیں۔‘

سنگم میں بلے بنانے والے تین سو سے زیادہ کارخانے ہیں اور ہزاروں افراد کا روزگار بلے بنانے کی تجارت سے جڑا ہے۔

اننت ناگ ضلع میں شیراز حافظ کی اخروٹ فیکٹری کو بھی پانچ اگست کے بعد بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

شیراز کہتے ہیں ’میرے یہاں اخروٹ کی موسمی پیداوار پانچ لاکھ کلو ہوا کرتی تھی جو کہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے کم ہو کر 80 ہزار کلو رہ گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں بغیر کوئی منافع کمائے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دے رہا ہوں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’میں نے اپنے کارخانے کے لیے بیرون ملک سے مشین خریدی ہے جس کی قیمت دو کروڑ روپے سے زیادہ ہے لیکن وہ مشین پانچ اگست سے خاموش ہے اور ہم اپنے کاروبار سے کوئی منافع کمائے بغیر بینک کا سود ادا کر رہے ہیں۔ کشمیر میں صنعتیں بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔‘

کے سی سی آئی کے صدر عاشق حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پانچ اگست کے بعد دوسرے طویل ترین لاک ڈاؤن میں ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’ہمارا حال سب کو معلوم ہے۔ دو اگست 2019 کو کشمیر بند ہونے کی ابتدا اس وقت ہو گئی تھی جب سیاحوں اور یاتریوں (ہندو زائرین) کو کشمیر چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’پانچ اگست کے بعد سے ہماری تجارتی سرگرمیاں تقریباً چار مہینوں تک بند رہیں۔ اس کے بعد لوگوں کو یہ امید ہوئی تھی کہ نقصان کی تلافی تین چار مہینوں میں ہو جائے گی۔ بہار کی آمد سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹنے لگی تھی۔ لیکن پھر ہمارے سامنے کورونا وائرس آ گیا اور تجارتی برادری کو یوں محسوس ہوا جیسے ہم لاک ڈ اؤن سے باہر ہی نہیں آ سکے۔‘

عاشق حسین کہتے ہیں ’انڈیا بھر میں لوگ شور مچا رہے ہیں کہ ان کی تجارت کو مشکل ترین دور کا سامنا ہے۔ لیکن ہم نے بیٹھ کر حساب کتاب لگایا تو ہمارا معاملہ بالکل ہی مختلف ہے۔ ہم گذشتہ دو ماہ سے بے کار نہیں بیٹھے بلکہ ہم تو گذشتہ دس مہینوں سے یہی خراب حالات دیکھ رہے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’حکومت نے اعلان کیا ہے کہ قرضے ادا کرنے کی خصوصی قانونی مہلت کو مزید تین ماہ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ لیکن چھ ماہ کے بعد آپ کا بوجھ آپ کے کندھوں پر ہے۔ ہر سال ہمیں لاک ڈاؤن جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں کام کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ایسے میں کشمیر کے کاروباری طبقے کے لیے مالی انجیکشن کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp