پھٹی ہوئی شلوار اور ٹک ٹاک کا ”پرینکستان“


ٹک ٹاک چین کی ایک بین الاقوامی کمپنی ByteDance کی ملکیت ہے۔ بنیادی طور پر یہ موبائل فون میں استعمال ہونے والا ایک سافٹ ویئر ہے جس کو انسٹال کر کے آپ مختصر دورانیے کارقص، اپنا ٹیلنٹ، گانوں پر لِپ سنک یا مزاحیہ ویڈیو بنا کر شیئر کرتے ہیں۔ ٹک ٹاک کے مالک کے نام Zhang Yiming ہے جس کی عمر محض 37 برس ہے۔ ژینگ نے بائٹ ڈانس نامی کمپنی 2012 میں قائم کی اور Toutiao کے نام سے ایک پلیٹ فارم قائم کیا جس کا بنیادی مقصد لوگوں کو معلومات اور خبریں فراہم کرنا تھا۔

دو ہزار سترہ سے روزانہ کے لحاظ سے اس کے ایک سو بیس ملین صارفین ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ اس کی نیٹ ویلیو بیس بلین امریکی ڈالرز یعنی/۔ 3,217,938,000,000 پاکستانی روپے بنتی ہے۔ بائٹ ڈانس نے 9 نومبر 2017ء کو ٹک ٹاک نے نام سے ویڈیو شیئرنگ پروگرام بنایا۔ نومبر 2018 میں ٹک ٹاک کے روزانہ کی بنیاد پر 800,000,000 یعنی اسی کروڑ صارفین ہو گئے۔ کمپنی نے ایک اور کمپنی Musical۔ ly کے ساتھ شراکت داری کر لی۔ اس وقت دنیا کے ہر بڑے ملک میں ان کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں۔

2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق بائٹ ڈانس کے اثاثہ جات مئی کے مہینے تک 2,067,267,500,000/۔  پاکستانی روپے تھے جب کے ژینگ کی ذاتی دولت 2,606,529,780,000/۔ پاکستانی روپے بتائی جاتی ہے۔ ٹک ٹاک دنیا میں بہت مقبول ایپ ہے۔ دنیا کی پینتالیس فی صد آبادی سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ جنوری 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والی سماجی رابطے کی سائٹ فیس بک ہے جس کے صارفین کی تعداد 2449000000 یعنی اڑھائی ارب کے کچھ کروڑ کم۔

دوسرے نمبر یو ٹیوب کے صارفین ہیں جو دو ارب سے کچھ زائد ہیں۔ تیسرے نمبر پر وٹس ایپ جس کے صارفین ایک ارب ساٹھ کروڑ جب کہ ٹک ٹاک کے صارفین کی تعداد دنیا بھر میں 800 000 000 یعنی اسی کروڑ سے کچھ زائد ہے۔ جب کہ سماجی رابطوں کی سائٹس کی ترتیب میں ٹک ٹاک کا نمبر چھٹا ہے۔ تاہم آڈینس Engagement کی شرح کے لحاظ سے 2019ء میں پہلے نمبر پر انسٹا گرام، دوسرے پر ٹک ٹاک اور تیسرے نمبر پر ٹویٹر رہے۔ چین میں ٹک ٹاک کے چالیس کروڑ صارفین موجود ہیں۔

چین سے باہر دنیا میں سب سے زیادہ ٹک ٹاک کے صارفین بھارت میں تقریباً بارہ کروڑ، دوسرے نمبر پر امریکہ جہاں اس کے صارفین کی تعداد ساڑھے تین کروڑ، تیسرے نمبر ترکی جہاں تقریباً اڑھائی کروڑ، چوتھے پر روس جہاں پر اڑھائی کروڑ کے قریب، پانچویں پر میکسیکو، چھٹے پر برازیل اور ساتویں پر پاکستان جہاں پر ٹک ٹاک کے صارفین کی تعداد ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ کر قریب ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ٹک ٹاک کے فالورز Charli D ’Amelio کے ہیں جن کا تعلق امریکہ سے ہے۔

ان کے فالوورز کی تعداد 6 کروڑ ہے۔ یاد رہے کہ یہ محترمہ ٹک ٹاک پر اپنے رقص کے ویڈیوز شیئر کرتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ویڈیو کے پچیس ہزار امریکی ڈالرز لیتی ہیں جو پاکستانی کرنسی میں 4,022,422 روپے بنتے ہیں [واللہ اعلم بالصواب]۔ محترمہ کے اثاثہ جات کے متعلق بتایا جاتا ہے چالیس لاکھ امریکی ڈالرز سے زائد ہیں۔ دوسرے نمبر پر امریکی گلوکارہ Loren Gray ہیں جن کے فالوورز کی تعداد چار کروڑ تیس لاکھ کے قریب ہے۔

اس کے بعد نمبر آتا ہے Zach King کا یہ بھی امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں اس شخص کو آپ میں سے بہت سے لوگوں نے دیکھا ہو گا اس کے ویڈیوز کو magic vines کہا جاتا ہے۔ آپ نے اکثر ویڈیوز دیکھیں ہوں گے یہ نوجوان بادل کو ہاتھ سے پکڑتا ہے تو وہ کاٹن کینڈی بن جاتا ہے۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر سنگترے کا جوس پھینکتا ہے تو وہ لیپ ٹاپ کی سکرین میں نظر آ رہے کسی شخص کے سر پر گرتا دکھائی دیتا ہے اور اس قسم کے بیسیوں معروف ویڈیو زاس کے فالوورز کی تعداد بھی لورین گرے کے قریب قریب مگر کچھ کم ہے۔

پاکستان میں ٹک ٹاک کے سب سے زیادہ فالوورز محترمہ جنت مرزا کے بتائے جاتے ہیں، جن کی تعداد چھیالیس لاکھ ہے۔ ان کی عمر بیس برس ہے اور تعلق فیصل آباد سے ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ میں نے ان کے ایک انٹرویو میں سنا تھا کہ انہیں ایک ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے پچیس ہزار روپے ملتے ہیں [واللہ اعلم بالصواب]۔ دوسرے نمبر پر قبلہ ذوالقرنین سکندر ہیں جن کے چاہنے والوں کی تعداد تقریباً اڑتیس لاکھ ہے۔ محترمہ پنکی فرانسس کا نمبر تیسرا ہے، جن کے پیروکاروں کی تعداد تقریباً ستائس لاکھ ہے۔

آپ کا قیام دبئی میں ہے۔ تاہم کچھ اداکاروں اور اداکاراوں کے چاہنے والوں کی بھی تعداد لاکھوں میں ہے جیسے نور حسن پاکستانی اداکار ہیں، ان کے چھہتر لاکھ فالوورز ہیں جب کہ دوسرے نمبر یاسر حسین جن کے بتیس لاکھ فالوورز بتائے جاتے ہیں۔ [یاد رہے پاکستانی ٹک ٹاکرز کے بارے میں معلومات غیر محتاط ہیں۔ مختلف جگہوں پر مختلف اعداد و شمار ہیں لہذا غلطی کی گنجائش ہے]۔ سوال یہ ہے ٹک ٹاک کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ اس کی مختلف وجوہ میں سے ایک سب سے بڑی وجہ یقیناً پیسے کمانا ہے [ٹک ٹاک سے پیسے کیسے کمائے جاتے ہیں اس کے بارے میں میری معلومات صفر ہیں]۔

تاہم یہ تمام لوگ جنہیں اب Influencers کا نام دے دیا گیا ہے۔ اب ایک متوازی سٹارڈم کا مزا چکھ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیسے کمانے والی امریکی ٹک ٹاکر محترمہ Charli D‘ Amelio کو آفر کی جاتی ہے کہ فلاں گانے پر رقص کیا جائے اور انہیں اس مقصد کے لیے بھاری رقم بھی پیش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے ان کو خاص لباس پہننے کا بھی کہا جاتا ہو گا، جس کے لیے الگ سے رقم دی جاتی ہو گی۔ لوگ ان Influencers کو دیکھتے ہوں گے اور ویسا بننے اور کرنے کی کوشش میں مارکیٹ سے وہ مصنوعات خریدتے ہوں گے۔

تاہم میں نے کچھ دن ٹک ٹاک کا [انتہائی] گہرا مطالعہ کیا [جس نے مجھ پر خاصے خوش گوار اثرات ڈالے) ] یہاں بڑے دلچسپ لوگ موجود ہیں۔ مثلاً ایک محترمہ خاصی مذہبی نوعیت کی ہیں کہ وہ رقص فرماتی ہیں لیکن کیمرے کی طرف چہرہ شریف نہیں کرتیں تاہم رقص سے جو کوئی ان کے بارے میں غیر شریفانہ اندازہ لگانا چاہتا ہے، اسے یوں بھی سوچنا چاہیے کہ دوران رقص محترمہ اپنی روایات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں اور کبھی بھی غیر مرد کی طرف چہرہ شریف نہیں کیا۔

خیر ایک اور محترمہ ہیں جو باقاعدہ مختلف رنگوں کے برقعے پہن کر رقص فرماتی ہیں اور کبھی بھی انہوں نے نقاب چہرے سے نہیں اتارا۔ کچھ ایسی خواتین ہیں جنہیں شاید کیمرا مین بتانا بھول جاتا ہے کہ آپ کی قمیص مبارک اس طرف سے بدپرہیزی کر رہی ہے یا اس طرح اپنے فالورز سے خطاب کرتے ہوئے جھکنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور حیرت کی بات ہے کوئی کسی کو یہ بھی نہیں بتاتا کہ پھٹی ہوئی شلوار پر پیوند لگایا جاتا ہے نہ کہ ایک خاص زاویے سے فلم بند کی جاتی ہے۔

کچھ شرارتی کیمرا مین خواتین کو پاوں سے دکھانا شروع کرتے ہیں لیکن چہرے سے قبل جا کر رک جاتے ہیں شاید محترمہ کی حیا آڑے آ جاتی ہو۔ میں نے ایک چیز اور نوٹ کی کہ زیادہ تر ویڈیوز چھتوں پر بنائے گئے ہیں، جہاں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا ایسی خواتین کی معاشی اور سماجی حالت کیا ہے۔ کچھ خواتین ایلیٹ کلاس کی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک بہت پر لطف تجربہ ہوا کہ ایک آئی ڈی پر خواتین کی ایک خاص انداز سے فلم بندی کی گئی اور آخر میں ہر ویڈیو پر لکھا ہوا ابھرتا ”ویکھو کنی بے حیائی اے پاکستانی چ اللہ ایہناں نوں ہدایت دووے“ ۔

موصوف خاصے دردمند واقع ہوئے یہ پیغام انہوں نے مکمل ویڈیوز دکھا کر دیا تاکہ سند دے۔ دوسری طرف ٹک ٹاک پر دو قسم کے مرد پائے جاتے ہیں ایک وہ جو ظاہراً مرد ہی دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو شاید مرد بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس وقت یہ موصوف مرد سے عورت بن جائیں۔ ٹک ٹاک پر ہمارے اداکاروں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اپنے اختراع شدہ سکرپٹ کے مطابق ویڈیوز بنا کر زیادہ سے زیادہ لائیکس حاصل کرنے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں۔

یہ ٹک ٹاکرز ہر نئے سیاسی اور سماجی منظر نامے کو عکس بند کرتے ہیں اور مزاح یا دکھی انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ ایک اکیلے بندے کا کام نہیں اس تمام ”تعلیمی“ سرگرمی کے پیچھے ان کی ایک ٹیم ہوتی ہو گی۔ بہر حال سنا ہے کہ ایک بڑی سیاسی شخصیت نے ان ٹک ٹاکرز کو اپنے ہاں مدعو کیا اور انہیں کرونا کے خلاف جنگ لڑنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ وہ کتنا پر اثر کردار ادا کریں گے لیکن ایک بات طے ہے کہ ان کے فالوورز زیادہ ہو جائیں گے اور ان کے ویڈیوز کی قیمت بڑھ جائے گی۔

بالکل ایسے ہی جیسے میرے اس کالم کے بعد تمام قارئین اس کالم میں مذکورہ لوگوں کے ٹک ٹاک پر جا کر ان کو ایک بار ضرور دیکھیں گے۔ [شاید ٹک ٹاک پر مجھے بھی فالور ز مل جائیں]۔ کچھ ماہ قبل مجھے ایک ادارے کے نمایندے کا خطبہ سننے کو ملا جس میں انہوں نے بتایا کہ گاڑی چلاتے ہوئے احتیاطی تدابیر کیا برتنی چاہیں۔ جب وہ تمام بات کر چکے تو میں نے عرض کی حضرت کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس عمر میں جب ہماری عادات پختہ ہو گئیں ہیں ہم لیکچر سن کر سیکھ لیں گے۔

گاڑی چلانا ایک مشق ہے اور عادات بد کے خاتمے کے لیے اسے مشق کے ذریعے سے ہی ختم کرنا ہو گا۔ دوسری بات کیا ہی اچھا ہو آپ یہ بات بچوں کے نصاب میں کہانیوں کی صورت میں شامل کروائیں۔ کچھ کارٹون پروگرامز میں ان موضوعات کا شامل کریں۔ ان پر کچھ ڈرامے اور فلمیں بنوائیں جن میں حادثے اور اس کے اثرات کو بہتر اور پر اثر انداز میں پیش کریں تو وہ حضرت خاموش ہو گئے اور اس کے بعد مجھے ابھی تک کچھ ایسا دکھائی نہیں دیا جس سے ثابت ہوا ہو کہ کچھ بہتر ہوا ہے۔

بالکل ایسے ہی موجود حکومت نے پاکستان کو پرینکستان بنا دیا ہے یہ عوام کے ساتھ مذاق کر رہی ہے جب آپ کا بیانیہ کرونا کے خلاف لڑنے کا ہو ڈرنے کا نہ ہو تو عوام نہیں ڈرے گی۔ کرونا سے متعلق ایک ڈرامہ بھی کسی چینل پر پیش نہیں کیا گیا، یاد رہے روز رٹا رٹایا ہوا جملہ کلیشے بن کر بے معنی ہو جاتا ہے۔ آپ نے ٹک ٹاکرز کو بلا لیا لیکن کسی پروفیسر، کسی میڈیا کے دماغ، کسی شاعر ادیب، کسی بلاگر، کسی موسیقار، کسی کارٹونسٹ کو نہیں بلایا کہ کرونا کے خلاف کوئی تخلیقی سطح پرچیز سامنے لائیں جو لوگوں کو بتا سکے کہ کرونا کے خلاف کیسے احتیاطی تدابیر کرنی ہیں۔

پچھلے دنوں ایک امریکی سیاست دان نے اپنا رونا ان الفاظ میں رویا کہ ”امریکہ گزشتہ کچھ برس سے نادان لیڈر شپ کا شکار رہا ہے“۔ ان تک سید مظہر مسعود کے اس شعر کی شکل میں یہ پیغام پہنچا دیا جائے کہ :

ہمارے غم تمہارے غم برابر ہیں
سو اس نسبت سے تم اور ہم برابر ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments