بتی نہیں، ٹرک بدلو: فل ٹائم کامیڈی ہمراہ سائیڈ پروگرام



ہینڈسم بھی ہے، آل راونڈر بھی ہے، کپتان بھی رہا ہے اور تنازعوں میں بھی۔ فلاحی کام بھی کرتا ہے، غریب عوام کا درد بھی دل میں سموئے پھرتا ہے، ایک فاونڈیشن بھی چلاتا ہے (جو غربت کی لکیر سے نیچے انسانوں کو لکیر سے اوپر کھینچتی ہے) عوام اور خواص میں یکساں مقبول بھی ہے، لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کو سٹیڈیم میں امنڈ آتے ہیں اور جیسے ہی آؤٹ ہوتا ہے سٹییڈیم خالی ہو جاتا یے۔ بس ایک ورلڈ کپ ہاتھوں میں نہیں اٹھا سکا تو کیا ہوا، بہت سے میچ جتوانے میں اہم کردار تو ادا کیا ہی تھا۔ چھتیس کے چھتیس گن تو نصیب سے ہی ملتے ہیں۔ قحط الرجال کے اس دور میں اتنے گن ملنا بھی غنیمت ہیں۔

غریب عوام سے بہت لگاؤ رکھتا ہے اس لئے وبا کی پروا کیے بغیر یہ مرد مومن تن تنہا سارا ملک چھوڑ کے بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں پہنچتا ہے جہاں آج تک حکومت سڑک نہیں پہنچا سکی۔ اور راشن کے تھیلے اپنی کمر پر لاد کر ہمارے دلوں میں خلافت راشدہ کے سنہری دور کی یادیں تازہ کرتا ہے۔ یہ موبائل فون بھی ایک عذاب ہیں۔ جہاں پینے کو پانی نہیں ہے وہاں بھی لوگوں نے ہزاروں روپوں کے سمارٹ فون خرید رکھے ہیں۔ کوئی نا کوئی نا ہنجار غریب فین اپنے سمارٹ فون سے ایچ ڈی کلپ بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا ہی دیتا ہے، حالانکہ وہ خود اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ نیکی ایسے کرنی چاہیے کہ ایک ہاتھ سے کرو تو دوسرے کو پتہ نا چلے۔

کراچی کے طیارہ حادثے پر اپنے کاندھوں پر پڑی اس بھاری ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے سب سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچتا ہے اور امدادی سرگرمیوں کا خود جائزہ لیتا ہے اور سرکاری اہلکاروں کو ضروری ہدایات بھی دیتا ہے۔ اس وقت ناراض ہو کر وہاں سے گیا جب لوگوں نے اور امدادی ورکرز نے اپنے سمارٹ فون نکال کو اس کی ویڈیوز اور تصاویر بنانا شروع کر دیں۔ نمود و نمائش سے سخت نفرت جو ہے۔

پکا مسلمان اور صوم و صلوۃ  کا پابند ہے۔ بقول علامہ اقبال:
آ گیا عین لڑائی میں بھی گر وقت نماز
قبلہ رو ہو کہ زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

جیسے ہی کہیں روڈ ٹرپ پر جاتے ہوئے نماز کا وقت آتا ہے اپنی سفید Porsche سڑک کنارے کھڑی کر کے قبلہ رو ہو جاتا ہے۔ مگر یہ سیلیبریٹی ہونا بھی ایک عذاب سے کم نہیں۔ کم بخت فین ہمیشہ آپ کا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور چاہے آپ نماز جیسا خالصتا ذاتی کام ہی کیوں نا کر رہے ہوں، آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی تصویر لے کر آپ کے آفیشل پیج پر ڈال دیتے ہیں۔ مشہور انسان کی بھی کیا زندگی ہے، پرائیویسی نام کی چیز ہی کوئی نہیں۔ سڑک پر لیٹے ہوئے نشئیوں کا گاڑی سے اتر کر حال پوچھتا ہے کہیں نسوار کی کمزوری کا شکار تو نہیں۔ کئی دفعہ اپنی جیب سے نکال کر ان ضرورت مندوں کی مدد کی اور خود بھوکا رہا۔

سرکاری تقریبات سے سخت نفرت ہے مگر ہمیشہ کسی چھوٹے موٹے اکیسویں گریڈ کے افسر کی منتوں ترلوں سے مجبور ہو کر چلا جاتا ہے اور ایک دفعہ ایک لائیو تقریب میں منہ کی سائیڈ میں ”چیونگم“ رکھنے کا کلپ لوگوں نے اتنا پھیلایا کہ اس نے دوبارہ ایسی کسی بھی لائیو تقریب میں جانے سے توبہ پھر بھی نہیں کی۔ کرپشن سے سخت نفرت کرتا ہے اور اسے ختم کرنے جیسا فضول آئیڈیا مارکیٹ میں فلوٹ نہیں کرتا، کیونکہ اب یہ لفظ عوام کی چھیڑ بن گیا ہے اور جو کوئی ایسی بات کرتا ہے لوگ ہنسنے لگتے ہیں اس لئے نہایت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے عندیہ دیا ہے کہ اگر وہ وزیر اعظم بنتا ہے تو بیروزگاری ختم کرے گا۔ کرکٹ کی دنیا میں چند بڑے Entertainers میں سے ہے اس لئے بخوبی سمجھتا ہے کہ لوگ ایک ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ لگ کے بور ہو جاتے ہیں، اس لئے اس نے ٹرک ہی بدل دیا ہے۔

اسلام آباد جانے کا بہت شوقین ہے مگر جانتا ہے کہ شارٹ کٹ راستہ براستہ ”گرینڈ ٹرنک روڈ“ پنڈی سے ہو کر جاتا ہے اس لئے پہلے ”پنڈی“ پہنچنا ضروری ہے۔ جس کسی نے بھی پنڈی کو بائی پاس کر کے ڈائریکٹ براستہ ”موٹر وے“ اسلام آباد پہنچنا چاہا وہ ہمیشہ ناکام رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments