ایویں مار نہ شاکر قسطاں وچ


عجیب زمانہ ملا ہے ہمیں جینے کو۔ اطلاعات ہیں کہ مینہ کی طرح برستی ہیں۔ اب کس کس خبر کی تحقیق کی جائے کہ سچ ہے یا جھوٹ۔ سچ یہ ہے کہ جھوٹ بھی جب کانوں سے ٹکراتا ہے تو سننے والے پر اثرات بہرحال مرتب کرتا ہے۔ بہرحال انفرمیشن کا یہ برستا پانی جب خوف اور اندیشوں کی آنچ پر کھولتا ہے تو عجیب عجیب خیالوں کی بھاپ اٹھ کر حواس کو گھیرنے لگتی ہے۔ کیا بنی آدم کا سفر اب ختم ہوجانے کو ہے؟ اختتام قریب آن لگا ہے کیا؟ کیسی ویراں زمیں ملی تھی ہمیں، صحرا، میدان، جنگل اور پہاڑ۔ دس ہزار برس کی محنت سے اور ریاضت سے ہم نے اسے سجایا، سنوارا۔ اب کیا ہمیں اٹھا لیا جائے گا اور کسی اور ہئیت و شکل و صورت کا انسان دھرتی کا چارج لینے کو پر تول رہا ہے؟

یووال نوح حراری اپنی کتاب ہومو سیپئنز میں انسان کی کتنی ہی شکلیں گنواتا ہے جو زمین کے سینے پر ماری ماری پھرتی تھیں مگر معدوم ہوچکیں۔ سب سے طویل عرصہ، بیس لاکھ برس کا، ہومو ایریکٹس انسان نے یہاں گزارا۔ ہراری کہتا ہے یہ ریکارڈ شاید کوئی نہ توڑ پائے۔ میں اور آپ ہومو سیپئینز ہیں یعنی عقل و خرد رکھنے والے انسان۔ ہماری عمر وہ دس ہزار سال بتاتا ہے۔ اہل علم نے ہومو سیپئینز کا ترجمہ ”خرد مند انسان“ کیا ہے۔

اگر ہم ہراری اور اس سے پہلے کے محققین کو ایک طرف کر کے ادیان ابراہیمی کے مطابق اپنے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک کا زمانہ شمار کریں تو یہی کوئی دس ہزار برس کے آس پاس ہی بنتا ہے۔ دس ہزار سال ہی ہوئے اس وقوعے کو جب تلمیذالرحمان جناب آدم علیہ السلام زمین پر اتارے گئے۔ پہلا خردمند انسان جس نے خالق کے بتائے ہوئے اشیا کے ناموں کو یاد کیا اور فرشتوں کو لاجواب کر دیا۔

انتیسویں پارے کی سورۃ دہر، جس کا ایک نام سورۃ انسان بھی ہے، شروع ہی اس آیت سے ہوتی ہے

”بے شک انسان پر ایک طویل زمانہ ایسا گزر چکا جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا“ ۔ ہو سکتا ہے یہ وہی وقت ہو، وہی لاکھوں سال جب انسان عقل و خرد سے عاری دیگر جانداروں کی ساتھ انہی کی طرح رہتا تھا، پھر اسے عقل و شعور عطا ہوا۔ اب وہ ناقابل ذکر انسان کہاں ہیں؟ ظاہر ہے، نہیں رہے۔ معدوم ہوگئے۔ تو کیا ہم معدوم نہیں ہوسکتے۔ اپنی اس زمین پر کسی اور کو لابسانا اس کے لئے مشکل ہے کیا؟ سب ممکن ہے مگر صاحب، ہجرت ہمیشہ سے ایک تکلیف دہ امر رہا ہے، ملال و افسردگی کا باعث۔ ہراری کہتا ہے خردمند انسان کب تک رہے گا؟ کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔

انسان کی یہ تاریخ اور پھر مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا کی خبریں عجب کیفیت میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ہجرت کا خوف۔ گھوڑوں کی ٹاپ ہو، توپوں کی گھن گرج ہو یا فضا میں چنگھاڑتے جہاز تو انسان مقابلے کی کوئی سبیل کرے۔ یہ عجیب دشمن ہے کم بخت۔ برہنہ آنکھ سے تو کیا نظر آئے گا، خوردبین سے مشکل دکھائی دیتا ہے مگر میری برادری، ہومو سیپئیبز کو نگلے چلا جا رہا ہے۔ کب، کہاں، کس پر حملہ آور ہوکر شکار بنا لے، کوئی پتہ نہیں۔

سرکار دربار کے مکینوں سے لے کر مزدور تک، کوئی بھی قابو آ سکتا ہے۔ روز بہ روز اموات بڑھ رہی ہیں۔ گھر سے باہر کسی شے کو چھوتے ہوئے خوف آتا ہے، خدا جانے کم بخت کہاں بیٹھا ہو اور آپ اپنے ساتھ ساتھ گھر والوں کو بھی اس کے دام کا اسیر بنادیں۔ زندگی پل صراط کا سفر ہوگئی ہے۔ موت کے دریا کا پل جس پر آپ کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ چلنا ہے۔ خوب سنبھل کر۔ سچی بات یہ ہے کہ جیسے ہم نے شروع کے دنوں میں (مارچ اواخر اور اپریل) احتیاط کی تھی، ویسی ہی سخت احتیاط کی دراصل اب ضرورت ہے۔

پابندیوں سے انسان جھلا جاتا ہے۔ دو ماہ کی مسلسل احتیاط سے اب ہم تھک چکے ہیں۔ اس تھکاوٹ نے غفلت پر مائل کیا اور کوویڈ انیس کا ڈنک تیز ہوگیا ہے۔ غفلت اور لاپروائی تو اب اس عالم کو پہنچ گئی ہے کہ سڑکوں پر بازاروں میں یار لوگ یوں بغیر کسی ماسک یا دستانے کے کھوے سے کھوا چھلاتے پھرتے ہیں گویا کورونا کو شکست دے چکے ہوں۔ اس میں بھی اسی سوشل میڈیائی انفرمیشن کا ہاتھ ہے۔ اب ہر شخص گوئبلز ہے۔ کسی نے کیا خوب جملہ بھیجا ہے ”ہم وہ قوم ہیں جو کورونا کو ڈرامہ اور ارطغرل کو حقیقت سمجھتے ہیں“

خیر، اب جئیں یا مریں، کورونا کے ساتھ ہی رہنا ہے، بحکم جناب وزیراعظم۔ اگلے روز ایک اخبار میں چھپی برطانوی رپورٹ نے دہلا دیا۔ لکھا تھا کہ پولٹری فارموں سے ایک اپو کلپٹک نام کا وائرس پھوٹ پڑنے کو ہے جو (خاکم بہ دہن) دنیا کی آدھی آبادی کو نگل جائے گا۔ مائیکل گریجر نامی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ زیادہ انڈوں اور گوشت کے لالچ میں مرغی خانوں میں ایسی فیڈ دی جارہی ہے جس سے دیگر کئی بیماریوں کے ساتھ یہ وائرس جنم لے سکتا ہے۔ لالچ کا مارا ہوا بدطینت کاروباری مرغیوں کے واسطہ سے انسانوں کو کچھ بھی کھلا سکتا ہے۔

پھر وہ ٹڈی ہے جو دل (لشکر) کی صورت حملہ آور ہے۔ سوڈان، صومالیہ، ایتھوپیا، کینیا، یوگنڈا کو کھا چکنے کے بعد اب پاکستان، ہندوستان میں دندناتی ہے۔ پاکستان کے اکسٹھ اضلاع اس کی راجدھانی ہیں۔ ماہرین کہ رہے ہیں کہ ٹڈی ملک کو قحط سالی کے رو بہ رو کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ صوبائی حکومتیں زور لگا رہی ہیں مگر کروڑوں کے لشکر قابو نہیں آرہے۔ افزائش کی شرح بھی حیران کن ہے۔ ایک مادہ اسی سے سو تک انڈے دیتی ہے۔ گرم علاقوں میں ان انڈوں سے نکلی سو ٹڈیاں فقط ساٹھ روز میں بالغ ہوجاتی ہیں جبکہ سردیوں میں یہ دورانیہ ایک سو اسی دن ہوتا ہے۔ پاکستان میں تو ابھی گرمی کا آغاز ہے۔

اکیسویں صدی کا یہ بیسواں برس عجب آفات کے ساتھ ہمارے کیلنڈروں پر اترا ہے۔ اچھا گلوبل ویلج بنایا ہم نے، اب وبائیں اور آفات بھی گلوبل ہوگئیں۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں آرہی۔ حساس کان، موت کی چاپ شش سمت سے سنتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ہوموسیپئینز کے کرتوت اب خود ہمارے ہی درپے ہیں۔ تو کیا وہ ہم سے مایوس ہوگیا ہے۔ ؟ ہماری نائب فی الارض کی مدت تمام ہوئی؟ ایسا ہی ہے تو پھر ڈرا ڈرا کے قطرہ قطرہ کیوں مارتا ہے۔ اپنی زمین کی جان ہم سے ایک ہی دفعہ میں کیوں نہیں چھڑوا لیتا۔ شاکر شجاع آبادی سے لفظ مستعار لے کے ہم ارداس کرتے ہیں کہ

جے تنگ ہیں ساڈی ذات کولوں
ڈے صاف ڈسا تیڈی جان چھٹے
ایویں مار نہ شاکر قسطاں وچ
یکمشت مکا تیڈی جان چھٹے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments