جنت کی سوداگر: مائیں


ویسے تو مدرز ڈے تو گزر گیا جب ماؤں کو ہوا لگوائی گئی تھی سوشل میڈیا پہ۔ پر ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کے لیے ایک دن مختص کرنا زیادتی ہے۔ اور ماں کی محبت پہ شک توبہ توبہ، بلکہ اکثر تو کہتے ہیں ماں کی محبت پہ شک خدا کی محبت پہ شک کے برابر ہے۔ پر محبت میں صرف حقوق ہی نہی فرائض بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں حقوق و فرائض میں ہمیشہ اولین ترجیح حقوق کو دی جاتی ہے۔ جیسا کہ والدین کے حقوق، شوہر کے حقوق، بڑوں کے حقوق، امیروں کے حقوق، استاد کے حقوق اعلیٰ افسران کے حقوق وغیرہ۔

جب بات فرض کی آتی ہے تو ہم اکثر نظریں چرا لیتے ہیں۔ ماں کے فرائض کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ فرض کی ادائیگی کے وقت ایک جملہ زباں زد عام ہے جو کر سکتے تھے کیا ہم نے، اب اور کیا کریں۔ میں جب یہ جملہ سنتی ہوں حیرت میں ڈوبنے کی بجائے غوطے لگانے کو جی چاہتا ہے کے میری ماں نے ایسا کوئی جواز کیوں نہیں تراشا، کیوں وہ معاشرے کے جو کر سکتے ہیں کے جواز بنا کر اولاد کی تربیت سے جان کیوں نا چھڑوا لی، کیوں حرف سوال رہی معاشرے میں

جب ان سے کہا گیا لڑکی کو اور کتنا پڑھانا ہے تو کیوں نا ڈر کر میری یونیورسٹی چھڑائی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ کیوں جب ایم فل شروع کیا تو کہا ان پیسوں سے جہیز نا سہی، شادی کے لیے زیورات بنا لیتی، تب کیوں نہی سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے۔

جہاں جہاں بھائی جاسکتا تھا وہاں مجھے جانے سے کیوں نا روکا جب لوگ کہتے تھے آپ کی ہمت ہے بیٹی کو اکیلے بھیج دیتی ہیں ہر جگہ۔

گھر کے کاموں میں کیوں یہ نہیں کہا کہ لڑکے یہ کام نہیں کرتے بھائی نے ہر وہ کام کیا جو مرد کی شان کے خلاف ہو سکتا ہے، یہ نہیں سوچا بیٹے برتر ہوتے ہیں۔ جبکہ سب نے کہا آپ بیٹے سے کام کرواتی ہیں بیٹی کے ہوتے۔

کیوں ہر اچھا ملنے والا تحفہ، اور ہر مہنگی خریدیں چیز کو یہ کہہ کر کے ابھی نہیں استعمال کرنا، یہ جہیز کے لیے ہے سنبھالا۔ ۔ ۔ جب کہ لوگوں نے اتنا سمجھایا کہ بیٹی پیدا ہوتے ہی جہیز جوڑنا چاہیے۔

کیوں ہر اس رشتے دار، محلے دار یا دوستوں سے بنا کر نہیں رکھی جہاں مستقبل میں رشتے دینے یا لینے کا امکان ہو سکتا تھا۔

جب جب میری سہیلیوں، حتی کہ ایک ٹیچر تک نے شکایت کی کہ یہ فٹنگ والے کپڑے پہننے کی بجائے کھلے کپڑے پہنتی ہے، لڑکیوں کو ایسا بے ڈھنگا نہیں ہونا چاہیے، پہ مجھے نہیں ڈانٹا۔

کیوں جب ہر مہینے ہزاروں کا میک اپ نہیں خریدا کہ مجھے بھی ہر وقت کسی فلمی ہیروئن کی طرح تیار ہونا آتا ہوتا، اور جب کسی نے شکایت کی کہ اس کو کہیں آئی بروز تو بنا لیا کرے مجھے سے زبردستی کیوں نہیں کہا۔

جب سب نے کہا ہماری بیٹی ڈرتی ہے اکیلے نہی آتی جاتی کالج یونیورسٹی، آفس، تب مجھے گھر سے کوئی لینے نہیں آیا، بلکہ ایک دفع مال روڈ پہ پینوراما سنیٹر سے نکل کر جب ہم نے روڈ کراس کی آکسفورڈ کی دکان پہ جانے کے لیے، جو تقریباً سات منٹ کی واک تھی تب کسی نے فٹ پاتھ پہ چلتے ہوئے آوازیں لگائیں تھی اور میرے جواب دینے پہ آپ نے سڑک سے پتھر اٹھا کر اس پہ پھینکا تھا اور کہا تھا یہ پتھر اس کام آتے ہیں۔ تب کیوں نہیں سمجھایا ایسے کوئی تنگ کرے تو چپ کر جاتے ہیں، کسی کو نہیں بتاتے۔

اپنے بچوں کو ہر کام خود کرنا کیوں سکھایا، یہ کیوں نا کہا کہ دوسروں کی مدد لو۔

یونیورسٹی آفس یا کسی خاندانی فنکشن میں جاتے یہ کیوں نا سمجھایا کہ ہر نظر آتے الیجیبل بیچلر کو شرما کر لجا کر ادا دیکھا کر بات کرنی ہے کیا پتہ کوئی رشتہ مل جائے۔

بیٹے کو ہر وہ کام کیوں سکھایا جو لڑکیاں کرتی ہیں، یہ کیوں نا بتایا مرد کی شان کے خلاف ہے غصہ نا کرنا، آرام سے دھیمے لہجے میں بات کرنا (جس پہ اکثر لوگوں نے شکایت کی کہ بیٹے کو آزادی دیں وہ ڈرا رہتا ہے بات بھی اتنے آرام سے کرتا ہے ) ۔

کیا مائیں ایسی ہوتی ہیں؟ ماؤں کو ایسا ہونا چاہیے، پر ایسی ماں ہمارے معاشرے کی 2 فیصد بھی نہی، وجہ تعلیم کی کمی بالکل نہی، بہت پڑھی لکھی مائیں بھی ایسی نہی بلکہ اس کے برعکس ہیں جس نے معاشرے کے بگاڑ میں کافی کردار ادا کیا ہے۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے اب آتے ہیں 98 فیصد ماؤں کی طرف جو معاشرے کو چلا رہی ہیں اپنی ہوم پولیٹکس سے۔ ایک بیٹی ساری زندگی یہ ہی الفاظ ماں سے سنتی ہے، ایسے بیٹھو، ایسے اٹھو، ایسے دوپٹہ لو، ایسے کھانا کھاو، ایسے چلو، کون بتاتا ہے ماں، کیونکہ ماں کو لگتا ہے بحثیت ایک عورت ایک لڑکی کو یہ سب بتانا ان کا فرض ہے۔ مطلب ایک عورت ہی دوسری عورت کو بتارہی ہوتی ہے۔ تھوڑی اور عمر کو لڑکی پہنچتی ہے تو پھر آ جاتا ہے، چپ رہتے ہیں، فضول نہی بولتے، عورت منہ در منہ جواب نہی دیتی، عورت برداشت کرتی ہے، عورت زبان نہی چلاتی، عورت گھر بناتی ہے، عورت کھانا بناتی ہے، عورت بچے پالتی ہے۔

عورت تھی چپ کر جاتی، عورت تھی نبھا لیتی، گھر بنانا عورت کا کام ہے، سمجھوتا کر لیتی ماں نا صرف یہ سمجھاتی ہے بلکہ پریکٹکلی کر کے بھی دکھاتی ہے۔ ان سب کا اثر کیا ہوا اولاد میں بیٹا اور بیٹی کی تفریق ہو جاتی ہے آسان سی بات ہے جب دو لوگ ایک جگہ ہوں اور ایک (بیٹی) کو ہی سب کچھ سمجھایا جائے، دوسرے (بیٹے ) کو نہی تو دوسرا فریق (بیٹا) خود کو برتر سمجھ ہی لیتا ہے اور اگر ساتھ نظر آتے تجربات بھی ہوں، جہاں عورت کمتر رہے تو وہاں کے مرد کا ایسا ہونا کوئی انہونی بات نہی کیونکہ مرد کی یہ تربیت بنا الفاظ کے ہوتی ہے۔

اوالاد نرینہ کی خواہش اور محبت کے قصے عام نظر آتے ہیں، مگر ایک بات حیران کن ہے اسی اولاد نرینہ کی تربیت کی بجائے اسے ذہنی مفلوج بنا دیا جاتا ہے۔ کبھی اس پہ ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر، کبھی محبت کی انتہا کے بیٹے پہ اپنی پسند زبردستی لاد کر۔ اور وہی منتوں مرادوں والا بیٹا ذمہ داریوں اور محبت کے بوجھ میں خوار ہو جاتا ہے۔ جسے عورت کی عزت کا چورن تب کھلایا جاتا ہے جب اسے وہ چورن ہضم ہونا بند ہو جاتا ہے۔ تربیت بچوں کی ہوتی ہے اور بچپن میں بیٹے کو اہم فریق کا درجہ، پھر مرد کی شان کے قصیدے گھول کر پلادیے جائیں تو وہ معاشرے کا ظالم اور خوفناک فرد تو ہو سکتا ہے پر انسان نہی۔

بڑا بیٹا ہونا یا اکلوتا بیٹا ہونے میرے خیال میں بیٹے کے لیے بھی کسی سزا سے کم نہی ہوتا۔ پہلے تربیت نہی کی جاتی بالکل ویسے ہی جیسے بیٹی کو ہر وقت کی روک ٹوک سے جہالت کے اندھیروں میں دکھیلا جاتا ہے اسی طرح بیٹے کو بنا تربیت کے جاہل بنایا جاتا ہے۔ ماں کی محبت کا نعم البدل نہیں، بیٹے پہ جان چھڑکتی ماں محبت میں اندھی ہو جاتی ہے یا اس قدر محبت کا تاوان لیتی ہے، یا معاملہ کچھ اور ہے۔ نہ تو اس کی تربیت کرتی ہے کہ وہ معاشرے میں عورت کی عزت کرنا سیکھ جائے، نا ہی وہ سگھڑ ہوتا ہے۔

بیک وقت وہی ماں اپنی بیٹی کی تربیت میں ہلکان پھر رہی ہوتی ہے۔ جبکہ بیٹی اولاد نرینہ بھی نہی پھر بھی توجہ، سسرال جانے کی، اٹھنے بیٹھنے بات کرنے کی تمیز۔ وہی عورت بیٹی کی ماں کے روپ میں ایک مختلف عورت ہوتی ہے۔ لیکن کیا اس سب کو تربیت کہنا تربیت جیسے لفظ کی توہین ہے۔ ڈبے میں بند دماغ جس کو ایک مرتب کردہ کتابچہ (مینویل) کے مطابق منی بیک گارنٹی کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔ گارنٹی یہ ہوتی ہے کہ لڑکی کا دماغ بند کر دیا گیا ہے، اور لڑکا ریموٹ کنٹرول کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ یہ بھی انسانیت کی اتنی ہی توہین ہے جتنے شاہ دولہ کے بچوں کی ان کو جسمانی طور پر ایسا بنایا جاتا ہے اور یہاں ذہنی طور پہ۔ دونوں صروتوں میں ایک مفلوج معاشرہ تیار کیا جاتا ہے۔ اور یہی دائرہ نسل در نسل چلتا آ رہا ہے۔

جس ماں نے بیٹے کو حاکمیت کی تربیت دی ہے اور اس نے اپنے باپ کو بھی ویسا پایا کیونکہ وہاں بھی تربیت ویسی ہی تھی تو فرق کیسے آئے گا وہ بچہ بھی وہی سب دوہراے گا۔ دوسری طرف بیٹی کو جو تربیت دی گئی ہے وہ ویسی ہی تربیت اولاد کی کرے گی۔ سچ کہوں توتربیت کے نام پہ ماں نے ایک طرف پدرسری معاشرے کی بنیاد مضبوط کی ہے اور مرد کو پجاری کے سنگھاسن پہ بیٹھا دیا ہے کہ وہ اسی زعم میں رہے کہ وہ مضبوط، کڑیل ہے۔ اور دوسری طرف عورت کی تربیت میں مینیوپلیشن (ہیرا پھیری) بھر دی ہے۔

عورت بظاہر مرد کو ساتوں آسمان پہ بیٹھا دیتی ہے اور مرد اسی زعم میں خود کو عقل کل سمجھتا رہتا ہے جبکہ ہوتا وہی ہے جو عورت کروانا چاہتی ہے۔ آسان الفاط میں کہیں تو جیسے سیاست میں کنگ میکر ہوتے ہیں جبکہ سامنے نظر آتے انسان کے ہاتھ میں کچھ نہی ہوتا وہ صرف مہرہ ہوتا ہے، بس مرد بھی وہ ہی مہرہ ہے۔ جس عورت کو یہ گر نہی آتے جس سے مرد جیسے مہرہ کو چلایا جا سکے تو اسے ہمارے ہی معاشرے میں بے وقوف عورت کہتے ہیں اور پوچھا جاتا ہے کہ ماں نے کچھ نہیں سمجھایا۔

عورت کی تربیت میں بیک وقت ظالم کرنے کے گر اور مظلوم ہونے کی ادا کوٹ کوٹ کے بھری جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مرد ( شوہر، بھائی، بیٹا) اسیر کرنے کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔ اور یہ اسیری ہر رشتے کی اپنی مناسبت سے کبھی ماں کے روپ میں ادب آداب کے چکروں میں جنت کے لالچ میں، کبھی بہن کے روپ میں خونی رشتے و عزت کے نشے سے اور بیوی کے روپ کے انداز تو ہوتے ہی نرالے جسے گھول کر سکھایا جاتا ہے چپ کی مار۔ پر ایسے گھروں میں تربیت کا مقابلہ شدید ہی رہتا ہے جہاں اسیر رکھنے کی ماں کی خواہش کا مقابلہ اسیر رکھنے کی خواہش بیوی کے ساتھ ہوتا ہے۔

ماؤں کے ان دو روپ میں جس میں سے ایک 98 فیصد ہے اور دوسرا 2 فیصد۔ کہنے کو تو آئیڈیل 2 فیصد والا ہے پر ہم میں سے کوئی اسے اپلائی کرنا نہی چاہتا۔ الٹا اچھی تربیت کرنے والی ماں کو معاشرے میں کافی مشکلات کا سامان کرنا پڑتا ہے کبھی ماڈرن ازم، کبھی بے حیائی کا طعنہ، کبھی اولاد کی صحیح تربیت نا کرنے باتیں۔ جنت اصل میں ایسی ہی ماؤں کے قدموں تلے ہوتی ہے جو معاشرے کو ایک اچھا انسان دیتی ہیں، پر ہوتا الٹ ہے اور جنت نا ملنے کی تنبیہ، دودھ نا بخشنے کا ڈائیلاگ اور عزت نا کرنے پر خدا خوفی کے سبق دیے جاتے ہیں اور پڑھے سے پڑھا لکھا شخص اسی جھانسے میں ڈگڈی بن کر اشاروں پہ ناچتا ہے اور فساد پھیلاتا ہے جس کی اصل جڑ جنت کے سودے کرتی مائیں ہیں۔

جہاں دنیا میں اتنے دن مناے جاتے ہیں وہیں ماؤں کی تربیت کا کوئی دن اور ادارہ بنایا جائے پر اس کے لیے پہلے ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عورت جو ماں بنتی ہے وہ اس اصول سے ہٹنے کو تیار نہی اور جو ماں ایسا کرے اسے بھی گاہے بگاہے تنبیہ کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں نا مرد کی داڑھی باہر جتنی ہوتی ہے عورت کی اندر اس سے بڑی داڑھی ہوتی ہے جو ایک ماں کو جنت کے سودوں پہ اکساتی ہے، پر تربیت پر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments