عیسیٰ کے حواری اور آئین اکبری


عہد قدیم میں عیسیٰ نور بصارت سے محروم انسانوں کوخدا کے دیے علم کے سبب چشم بینا عطا کرتے تھے۔ لمحہ موجود کے آئین اکبری میں رقم ہے کہ منصب قضا پر فائز عیسیٰ اپنے عیال کے ناکردہ گناہوں کا مجرم ہے۔ امید پر دنیا قائم ہے لیکن مملکت خداد اد کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ امید دم توڑ دیتی ہے کہ آج عیسیٰ کو اپنے ہی حواریوں کی حمایت میسرہو گی۔ وطن عزیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں انصاف کی باد نسیم اپنے بچوں کے رزق کے لئے قوم کے منتخب وزیراعظم کو سولی چڑھا چکی ہے۔

عہد جدید میں انصاف کا ترازو حرکت میں آنے کے لئے دبئی میں چھلکتے جاموں اور تھرکتے جسموں سے سنوری حسیں شام کے اختتام کا منتظر ہے تاکہ ریاست کا خود ساختہ سابق سربراہ پورے سرکاری تزک و احتشام سے سفر آخرت پر روانہ ہو۔ عہد قدیم میں کہیں قانون اور انصاف کی فراہمی کے ذمہ داروں نے ایک اصول طے کیا تھا کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ دور جدید کا ماورائی دستور یہ تقاضا کر رہا ہے کہ طاقت کے زعم میں مبتلاہجوم کی خوشنودی کے لئے بغیر شہادت اور بنا ثبوت عیسیٰ کوہوس اقتدار کی سولی چڑھا دیا جائے۔ جرم معلوم نہ شواہد دستیاب لیکن فروغ انصاف کا ”شفاف نظام۔“ بانی پاکستان کے دوست کو بعد از مرگ یہ اعزاز عطا کرنا چاہتا ہے کہ اس کا فرزند سپاہ اقتدار کی چاکری سے انکار کی غداری کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔

برصغیر کے نقشے پر موجود جنت نظیر خطہ کشمیرغیر ملکی قبضہ گیروں نے دھن اور دھونس کی بنیاد پر ڈوگرہ راج کے تسلط میں دیا۔ اس مقدمے نے سیاسیات کے طالب علموں کے اذہان میں ڈوگرہ راج کی یاد تازہ کر دی ہے۔ مقدمے کے مدعی عبدالوحید ڈوگر کو یقین ہے کہ طاقت کی مبادیات ہر دور میں ایک سی رہی ہیں۔ لیکن عبدالوحید ڈوگر طاقتوروں کی پشت پناہی اور چاردانگ عالم شہرت کے باوجود گم نام ہے۔ عبدالوحید ڈوگر نامی اس اجنبی نے عالم اعراف سے آئین اکبری کے تحت وطن عزیز کے عوام کے لئے انصاف طلب کیا ہے۔

عالم ناسوت میں بیٹھے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے منصف متلاشی ہیں۔ نقارے پر لگنے والی چوٹ بلند آہنگ ہے لیکن نظام ریاست سامنے موجو دہونے کے باوجود اس اجنبی کی بوکو بھی نہیں پاسکا۔ ایک طرف ریاست اتنی مضبوط اور باوسائل ہے کہ سات سمندر پار لاکھوں جائیدادوں کے بیچ گم تین عدد جائیدادوں کی فرد ملکیت لئے عدالت میں حاضرو موجود ہے تو دوسری طرف منصفوں کے استفسار کے باوجود مدعی کا کھرا تلاش کرنے کے سوال پر لاجواب۔

مقدمہ یہ ہے کہ نظام ریاست کو ہموار رکھنے کے ذمہ داروں کی راہ میں روڑے اٹکانے والا منصف عوام کی دولت لوٹ کر بیرون ملک لے گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سات برس پہلے ہونے والا یہ وقوعہ سچ بھی تسلیم کر لیا جائے تو یہ قضیہ ریاست کے اس وقت کے قانون میں کہیں بھی جرم قرار نہیں پاتا۔ منصف کے عیال کی دولت کا حساب موجود ہے لیکن دولت کے حساب کے قانون (انکم ٹیکس ) کے تحت ریاست عیال سے معترض نہیں۔ فروغ انصاف کا دعویدار سوالوں کی کثرت سے بھنا چکا ہے لیکن بیسیوں سوالات ایسے ہیں جو ابھی منصفوں کی زبان پر آئے ہی نہیں۔

یہ اجنبی عبدالوحید ڈوگر کون ہے؟ وطن عزیز کے بائیس کروڑ عوام کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ اس نے کب اور کیوں اٹھایا؟ مملکت خداداد پاکستان کے عوام نے اس اجنبی کو اپنے حقوق کی حفاظت کا ذمہ کب سونپا؟ اجنبی عبدالوحید ڈوگرکی اہلیت کیا ہے؟ اس کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں؟ ا س کے وسائل کیا ہیں؟ اس اجنبی کو یہ الہام کیسے ہوا کہ اسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے منصف کے خلاف شکایت مروجہ قانون کے تحت سربراہ ریاست کی بجائے ریاست کے اثاثوں کی واپسی کے ذمہ دار کے دربا ر میں پیش کرنی ہے؟

”ایسٹ ریکوری یونٹ“ ریاستی اثاثوں کی واپسی کے لئے بنایا گیا یہ ادارہ کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا؟ اس ادارے میں کون کون کس طریقہ کار کے تحت کون کون سے عہدوں پر فائز ہے؟ عہد جدید میں آئین اکبری کے خالق اس ادارے کے سربراہ کے علاوہ اس یونٹ میں کوئی اور شامل بھی ہے یا نہیں؟ اثاثوں کی بحالی کے لئے اس ادارے کو کون سے اختیارات کس قانون کے تحت دیے گئے ہیں؟ یہ یونٹ بیرون ملک موجود ریاستی اثاثوں کی واپسی کس قانون کے تحت کس طریقہ کار سے وطن واپس لائے گا؟

کیا ایسا کوئی قانون موجود ہے؟ اس یونٹ میں کام کرنے والے اہلکاروں کی اہلیت کیاہے؟ کن تعلیمی اداروں سے انہوں نے کس شعبے میں تعلیم حاصل کی ہے؟ ریاست پاکستان میں موجودہ ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے اس یونٹ کے سربراہ کیا کرتے تھے؟ عوام یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ان کی اہلیت اور قابلیت کیاہے؟ پاکستان میں انتہائی اہم ذمہ داریاں ملنے سے پہلے کن اداروں نے ان کی اس مہارت سے استفادہ کیا؟ اپنے قیام سے لے کر اب تک مذکورہ یونٹ بیرون ملک سے پاکستانی عوام کی لوٹی گئی کتنی دولت واپس لایا؟

وجہ تنازعہ بننے والی تین عدد جائیدادیں کیا اس سے پہلے ملکی نظام کے تحت ریاست کے علم میں نہیں تھیں؟ اگر یہ جائیدادیں ریاست کے علم میں تھیں تو پہلے جرم کیوں نہ قرار پائیں؟ ملزم کے کٹہرے میں کھڑے کیے گئے منصف نے اگر یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ اس کے عیال کا اثاثہ ہیں تو کیا اس کے عیال سے اس بارے کبھی استفسار کیا گیا؟ اگر نہیں کیا گیا تو کیوں؟ سوالوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن خاکسار کا سوال صرف ایک ہے۔

سال دوہزار انیس کے اختتام پر بغیر کسی کوشش، ایک پائی خرچ کیے بغیر ریاست برطانیہ نے اپنے ملکی قوانین کے تحت بے نامی جائیدادوں کے ایک مقدمے میں مک مکا کرنے کے بعد مملکت پاکستان کو ایک سو نوے ملین پاؤنڈدینے کا اعلان کیا تھا، کیا وہ رقم پاکستان وصول کر چکا ہے؟ اگر ریاست پاکستان یہ رقم وصول کر چکی ہے تو اسے حکومت پاکستان کے کس کھاتے میں ظاہر کیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب طے کرے گا کہ ملکی تاریخ کے اس اہم مقدمے کا انجام کیا ہوگا۔ ممکن ہے کوئی انہونی ہو جائے اور منصب قضاء پر فائز عیسیٰ تین برس تین ماہ بعد قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہوجائیں لیکن، اس قوم نے خوشگوار انہونیاں کبھی دیکھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments