انقلاب بذریعہ ٹڈی دل، زندہ باد


حیرت ہوتی ہے اور حیران کن حد تک ہوتی ہے۔ لوگ جب یہ کہتے ہیں کپتان کی حکومت کچھ نہیں کرتی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی دودھ والے نے مجھ سے کہا باؤ جی! دودھ اب ایک سو دس روپے لٹر میں ملے گا۔ میں نے پہلے اس کا منہ دیکھا، پھر دودھ دیکھا اور پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی نیت کر کے کہا کہ شریف صاحب! جب نواز شریف کا دور تھا تو پیٹرول 76 روپے کا تھا اور دودھ 70 روپے کا۔ اب بھی پٹرول کی قیمت اتنی ہی ہے لیکن جناب دودھ ایک سو دس روپے کا دے رہے ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں؟ دودھ والا بھی شاید خود کو دودھ کا دھلا سمجھتا تھا، کہنے لگا باؤ جی! آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں چینل میں کام بھی کرتے ہیں آپ کو پتا ہے کہ پیٹرول کے علاوہ بھی دنیا میں اور چیزیں ہیں جو مہنگی ہیں اور ویسے بھی بھینسوں کو کیا پتا کہ میاں صاحب کا دور ہے یا خان صاحب کا؟ بھینس کا پیٹرول سے کیا لینا دینا؟ اسے تو چارے سے غرض ہے جو ان دنوں ٹڈیوں کا چارا بنا ہوا ہے۔ اب جب چارا مہنگا ملے گا تو کیا میں دودھ کی قیمت نہ بڑھاؤں؟

خاکسار نے دل میں سوچا، کہتا تو یہ ٹھیک ہے لیکن ماضی میں جب یہ دودھ کی قیمت بڑھاتا تھا تو پیٹرول کی قیمت بڑھنے کا عذر پیش کرتا تھا اب پیٹرول کی قیمت کم ہوئی تو اس نے دودھ کے نرخ میں ایک دھیلا کی کمی نہیں کی لیکن میں نے بھی موٹے دماغ میں یہ باریک نکتہ ڈال دیا، ہو نہ ہو دودھ والا ”ن لیگی ہے“ جو خان صاحب کی حکومت کو ناکام کرنے کے لئے دودھ کی قیمت کم نہیں کر رہا۔

ٹڈی سے یاد آیا کہ پاکستان ان دنوں ٹڈستان بنا ہوا ہے۔ آج ہمیں اپنے مردم بے شمار پر شرمندگی نہیں ہو رہی۔ کیا ہوا کہ ہم 22 کروڑ ہیں 22 ارب تو نہیں اس کی برعکس ٹڈیوں کے ایک درمیانے غول میں 80 کروڑ ٹڈیاں ہوتی ہیں باقی غیر درمیانے غول کا اندازہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں، ویسے حیرت ہوتی ہے کہ وہ کتنے فارغ لوگ ہوں گے جو ٹڈیاں گنتے ہوں گے۔ غول میں سے کوئی ٹڈی گننے سے رہ بھی سکتی ہے اور کوئی بد قسمت ہو تو ایک سے زائد بار بھی گنتی میں آ سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے ٹڈیوں کو بے ہوش کر دیا جاتا ہو پھر اس کی گنتی ہوتی ہو اور پھر انہیں ہوش میں لا کر یہ کہہ کر اڑا دیا جاتا ہو کہ جا تجھے آزاد کیا۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ٹڈیاں اتنی اہم کیسے ہو گئیں اور اس سے انقلاب کیسے آئے گا۔ ہمیں بھی اس کا خیال کبھی نہیں آیا لیکن ایک موقر فرنگی پرچے میں اپنے دیسی حکمرانوں سے متعلق جب یہ خبر پڑھی کہ کابینہ کے ساڑھے پانچ گھنٹے کے اجلاس میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ کیوں نہ قوم کو ٹڈیاں پکڑنے پر لگا دیا جائے اس سے ملکی معیشت کو بیش بہا فائدہ ہو گا۔

شرکا اجلاس ہم سب کی طرح کورونا سے ڈرے ہوئے تھے اور اپنے اپنے رخ زیبا پر ماسک بھی چڑھا رکھا تھا تاکہ کورونا کے دخول کے کم از کم دو راستے یعنی منہ اور ناک تو بند ہوں۔ جس نے عینک لگائی ہو اسے اضافی فائدہ میسر تھا کیونکہ بقول شخصے کورونا آنکھ کے راستے بھی جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ ہم نے تو یہ سنا تھا کہ آنکھ کے راستے محبوب کے دل میں اترا جاتا ہے لیکن نیا زمانہ ہے اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بات ہو رہی تھی ٹڈیوں اور وفاقی وزرا کی کہ اول الذکر سے انقلاب لا نے کے لئے ثانی الذکر کیا سوچ رہے ہیں اور کیسے لینن اور ماؤ زے تنگ کی حنوط شدہ جسم میں جھرجھری لانے کا سامان کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں بیٹھے ان انقلاب پسندوں کا فرمانا تھا کہ اگر لوگ ٹڈیاں پکڑ کر پولٹری فارم والوں کو دینا شروع کر دیں تو فی کلو ٹڈیاں کی فروخت سے وہ پندرہ روپے جس کے نصف ساڑھے سات روپے ہوتے ہیں کما سکیں گے۔ ایک وزیر جو ان چیزوں پر پہلے ہی نظر رکھے ہوئے تھے نے لقمہ دیا جناب پندرہ روپے کہاں اوکاڑہ میں بیس روپے کلو میں بھی ٹڈیاں فروخت ہوتی ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ 22 کروڑ کی آبادی اگر ٹڈیاں پکڑنے پر لگ جائے تو انہیں مفت میں کتنا زیادہ منافع ہو گا۔ اگر ان میں سے بچوں اور بزرگوں کو نکال دیا جائے کیونکہ ٹڈیاں پکڑنے کے لئے جس چابکدستی اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں نہیں ہوتی۔ باقی نصف آبادی رہ جاتی ہے یہ نصف آبادی والے وہ ہیں جن سے اقبال ستاروں پہ کمند ڈلوانا چاہتے تھے لیکن ان کی کمند اب ٹڈیاں پکڑا کرے گی۔

فکر اقبال سے آشنا افراد کو یہ بھی علم ہو گا کہ نئی صبح نئی شام پیدا کر اور مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ کا درس بھی ہمیں دیا گیا ہے۔ اب چونکہ یہ نیا دور ہے، نئی حکومت ہے اور نئے مسائل ہیں ایسے میں اگر ٹڈیاں پکڑنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو اس میں ہمیں چیں بجبیں نہیں ہونا چاہیے بلکہ چپ کر کے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے ایسے ہی جیسے مرغی، بھینس اور بکری پروری کے موقع پر سر تسلیم خم کیا تھا۔

ایسے میں وہ جو تبدیلی سرکار سے جل بھن کر کالے کلوٹا ہو رہے ہیں ان کو یہ بات ضرور مدنظر رکھنی چاہیے کہ سرکار نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کی جو بات کی تھی وہ ایسے ہی نہیں کی تھی بلکہ اس میں بھی کسر نفسی تھی اصل میں تو ٹڈیوں کا انتظار تھا کہ وہ آئیں گی تو کیسے اپنے ساتھ کروڑوں نوکریاں لائیں گی ایسا ہی جیسے ہما را ہونہار ”جنگل جابز“ منصوبہ ہے۔ اسے دور اندیشی نہ کہیں تو کیا کہیں۔ یہی نہیں بلکہ ”ٹڈی پکڑ پاکستانی“ منصوبے سے پولٹری فارم والے بھی بہت خوش ہوں گے۔

کہاں وہ حرام جانور ملی مہنگی فیڈ کا بندوبست کرتے تھے اور کہاں صبح سویرے ان کی دہلیز پر ٹڈیوں سے بھری بوریاں لئے لوگ کھڑے ہوں گے کہ حضور یہ تازہ تازہ ٹڈیاں پکڑی ہیں صرف پندرہ روپے کلو، مرغیاں کھائیں گی تو یاد کریں گی۔ رہی بیچاری مرغیاں (بیچاری اس لئے کہ ان کے مرغ تو انڈے سے نکلنے کے بعد ہی رنگ برنگے بنا کر گلی محلوں میں فروخت کے لئے پہنچ جاتے ہیں ) تو وہ اس لحمیات بھری غذا سے خوب لطف اٹھائیں گی کیونکہ آپ میں سے کسی نے اگر مرغی کو جھینگر کے پیچھے بھاگتے اور اسے پکڑ کر کھاتے دیکھا ہو تو اس منظر کو ذرا ذہن میں لاکر ذرا تصور کریں کہ مرغی کے سامنے جب ڈھیر ساری ٹڈیاں پڑی ہوں تو اس کی خوشی کا ٹھکانا کیا ہو گا۔ نرم نرم اور مزے دار ٹڈیاں کھانے سے مرغی کے اندر کیسی توانائی بھر جائے گی اور مرغی کی ”ہارس پاور“ کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی جس کا مظاہرہ وہ بڑے انڈے دے کر کرے گی۔

یہی انڈے اور یہی مرغیاں ہماری قومی معیشت کو توانا کرے گی کیونکہ کسی قوم کی اجتماعی ترقی کے لئے انفرادی ترقی اہم ہوتی ہے اور انفرادی ترقی مرغی کے بغیر ممکن نہیں جبکہ مرغی کی ترقی ٹڈی میں پنہاں ہے اس لئے پہلے والے سارے نسخے بھول جائیں اور آج کی تاریخ میں اس طلسم ہوشربا نسخہ کے سحر میں گرفتار ہوجائیں، لنگوٹ کس لیں ٹڈیاں پکڑنے کے لئے کیونکہ انقلاب اب زیادہ دور نہیں اور آخر میں ایک بات: انقلاب پسندوں کو ٹڈی دل انقلاب پیشگی مبارک۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments