تازہ ہوا ضروری ہے اس سے پہلے کہ سب کا دم گھٹ جائے


بیس ڈالر کے مشتبہ طور پر جعلی نوٹ سے سگریٹ خریدنے کے جرم میں امریکی سیاہ فام باشندے جارج فلائیڈ کی موت نے پورے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صرف امریکہ ہی کیا پوری دنیا نے یہ درد محسوس کیا ہے۔ پاکستان میں ہمارے ہسپتالوں میں مریض اگر چہ کورونا کے باعث لقمۂ اجل بن رہے ہیں لیکن ہمارے ڈاکٹرز کا ہمارے ہاتھوں دم گھٹ رہا ہے۔ حکومت نے ڈاکٹرز کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ ہمارا علاج کرتے ڈاکٹرز بلاشبہ ایک عظیم جہاد لڑ رہے ہیں، جس میں ان کا مقابلہ حکومت کی نا اہلی، ہماری جہالت اور بے حسی اور کورونا جیسی وباؤں سے ہے۔ اس کے باوجود ہم اگر جارج فلائیڈ کی موت کا ماتم کرتے ہوئے امریکی مظاہروں پر لکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب انسان رنگ و نسل، مذہب، ملک اور قومیت سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کا درد محسوس کر رہے ہیں۔

یکجہتی کیا ہے؟ سیدھے سادے لفظوں میں یہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسروں کی جان کی حفاظت کرنا ہے، جیسا کہ ہمارے حقیقی ہیرو ہمارے ڈاکٹرز کر رہے ہیں، جس طرح امریکی عوام ایک بے گناہ کے قتل پر ردعمل دے رہے ہیں، جس طرح پوری دنیا امریکی عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ان کا درد محسوس کر رہی ہے کہ یہ درد ہم سب کا سانجھا ہے، ہم سب اس استبدادی کرب کی آہنی گرفت میں ہیں۔

پورے یورپ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطی میں لوگ امریکی عوام سے یکجہتی کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے درد مشترک ہیں اور یہ کہ پوری دنیا کی قیادت کو اس درد کی دوا کرنی ہوگی وگرنہ دنیا تو رہے گی لیکن موجودہ قیادت کسی طور برداشت نہیں کی جائے گی۔ کورونا کے خوف سے بڑھ کر خوف سٹرکچرل نسل پرستی کا ہے جس کا شکار دنیا کے ہر خطے میں مظلوم اور مجبور لوگ ہیں، تبھی تو کورونا کا خوف اپنے پیروں تلے مسلتے لاک ڈاؤن کی ایسی کی تیسی کر رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کو داخلی دہشت گردی کہا اور فوج تعینات کرنے کی دھمکی دی۔ ٹرمپ کے جارحانہ روئیے کے باوجود پولیس احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کھڑی رہی بلکہ کچھ مقامات پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ احتجاج میں شریک بھی ہوئی۔ ایک جگہ پولیس احتجاجیوں کے ساتھ ایک گھٹنے پر جھک گئی۔ یاد رہے کہ 2016 ء میں امریکن نیشنل گیمز کے دوران سیاہ فام باشندوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے پولیس کے پر تشدد روئیے کے خلاف کئی اتھلیٹس امریکی ترانے کے دوران ایک گھنٹے پر جھک گئے تھے، جس کو بعد میں ’ٹیکنگ اے نی‘ یا ’ٹیکنگ دی نی‘ کہا گیا۔ ایک پولیس چیف نے اپنے سٹاف سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں جارج فلائیڈ کے کیس میں نا انصافی نظر نہیں آ رہی تو بہتر ہے کہ وہ اپنی نوکری چھوڑ دیں۔

امریکی شہر مینیا پولس میں ایک انڈین بنگالی ریسٹورنٹ کو مظاہرین نے پولیس کے شیلنگ کے دوران پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا، ریسٹورنٹ کو بعد میں نذر آتش کیا گیا، اس کے باوجود ریسٹورنٹ کے مالک نے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے عالمی انصاف کی دہائی دی۔ ریسٹورنٹ کے مالک کی بیٹی حفصہ اسلام نے فیس بک پر لکھا ”گاندھی محل کو اگرچہ آگ کے شعلوں کی نذر کیا گیا لیکن اپنے لوگوں کے کی مدد، حفاظت اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہمارا عزم کبھی نہیں مرے گا“ ۔ ریسٹورنٹ کے مالک نے کہا، ”ہماری بلڈنگ کو جلنے دو، انصاف ہونا چاہیے، ان پولیس افسران کو جیل میں ڈال دو“ ۔

’مینیسوٹا فریڈم فنڈ‘ نامی فلاحی ادارے نے چار دن میں بیس ملین ڈالرز کی خطیر رقم جمع کی۔ ادارے نے لوگوں سے اپیل کی کہ ایسے فلاحی اداروں کو اپنے عطیات دیں جن کے لیڈرز سیاہ فام ہوں تا کہ سیاہ فام باشندوں کی مدد ہو سکے۔ اسی طرح ’ہینڈز اپ ایکٹ‘ نامی آن لائن تحریک نے لوگوں کے دستخط لینے شروع کیے تاکہ واشنگٹن میں بیٹھے قانون بنانے والے کسی بھی نہتے آدمی پر پولیس کی فائرنگ کی سزا پندرہ سال قید کرنے کا قانون بنائیں۔ اس تحریک نے اب تک پندرہ لاکھ لوگوں کے دستخط حاصل کر لئے ہیں جبکہ ٹارگٹ دس لاکھ لوگوں کا تھا۔

ایک علاقے میں پچھتر گورے ایک سیاہ فام شخص کے ساتھ باہر نکل آئے جس کو اپنے محلے میں نکلتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اس طرح ایک اور جگہ پر سفید فام لوگ سیاہ فام مظاہرین اور پولیس کے بیچ حائل ہو گئے جبکہ دوسری جگہ پر ایک سفید فام پولیس کے گرد سیاہ فام لوگوں نے حفاظتی دائرہ بنا لیا جو کہ اپنے پولیس ساتھیوں سے جدا ہو گیا تھا۔
اس طرح کی اور لاتعداد مثالیں ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ بس بہت ہو چکا، تازہ ہوا ضروری ہے اس سے پہلے کہ سب کا دم گھٹ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments