ایسے مرد کی خواہش کبھی نہ رکھو جو برابر کی عزت نہ کرتا ہو


وہ پچھلے ایک گھنٹے سے میرے سامنے بیٹھی مسلسل رو رہی تھی۔ روتے ہوئے اس نے سامنے پڑے ٹشو کے ڈبے سے ایک اور ٹشو پیپر نکالا اور اپنی آنکھیں صاف کیں جو مسلسل رونے سے سرخ ہو رہی تھیں۔ میں نے اسے پانی کا گلاس پیش کیا مگر اس نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان ایک دفعہ پھر وہ اپنی بات جاری رکھتے بولی، ”میم میں اس کی ساری باتیں مانتی ہوں، ہر طرح سے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہوں، صرف اس لئے بات ختم کر دیتی ہوں کہ کوئی بات اسے بری نہ لگ جائے، مگر وہ ذرا سی، بظاہر بالکل بے ضرر بات کو بہانہ بنا کر مجھ سے لڑتا ہے، برا بھلا کہتا ہے، طعنے دیتا ہے اور بات چیت بند کر دیتا ہے، اس وقت تک جب تک میں اپنے گھٹنوں پر جھک کر معافی نہ مانگ لوں، یہ تسلیم نہ کر لوں کہ غلطی میری تھی“ ۔ اس نے ایک دفعہ پھر اپنی آنکھوں اور ناک کو ٹشو پیپر سے رگڑا۔

”میں یہ تو نہیں پوچھوں گی کہ وہ تمہارے ساتھ ایسے کیوں کرتا ہے، لیکن یہ ضرور جاننا چاہوں گی کہ تم اس کا یہ رویہ کیوں برداشت کرتی ہو“ ۔ میں نے پانی کا گلاس دوبارہ اس کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ اور جواب میری توقع کے عین مطابق تھا، اس نے کچھ جھجکتے ہوئے سر کو ذرا سا جھکایا اور بے خوابی سی کیفیت میں بولی، ”کیوں کہ میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں، اور اس کے بغیر بالکل نہیں رہ سکتی“ ۔ پھر ایک نظر میری طرف دیکھ کر کچھ بے یقینی سے بولی، ”اور جب کسی کو پتا چل جائے کہ آپ اس کے بغیر نہیں جی سکتے تو پھر وہ آپ کو جینے نہیں دیتا، ہے ناں میم“ ؟ جیسے مجھ سے اپنی بات کی تائید چاہ رہی ہو۔

وہ ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھی تنخواہ پر تعینات کمپیوٹر انجینئر تھی۔ میرے کلینک پر اس کا یہ پہلا وزٹ تھا، سانولی رنگت، متناسب جسم، مناسب سے نقش و نگار اور عمر اٹھائیس سال، بہت خوبصورت نہیں تو جاذب نظر ضرور تھی۔ پہلی ملاقات میں مجھے یہ اندازہ تو ہو گیا کہ اسے مجھ سے مشورہ تو بالکل نہیں چاہیے، بلکہ وہ میرے سامنے اپنے منتشر خیالات اور جذبات کو صرف اس لئے بیان کر رہی ہے کہ اسے یقین ہے کہ ماہر نفسیات بہترین رازدار ہوتے ہیں، اور اپنے دل کی ساری باتیں ان سے کی جا سکتی ہیں۔

میں نے گفتگو کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے پھر پوچھا، اگر تم اس سے اتنی محبت کرتی ہو کہ تم اس کے بغیر رہ نہیں سکتیں تو وہ تمہاری بے عزتی کیوں کرتا ہے، کیوں ذلیل کرتا ہے تمہیں؟ اس دفعہ اس کے جواب نے مجھے چونکا دیا۔ ”شاید اسے میں ایسی ہی لگتی ہوں کہ جسے ذلیل کیا جا سکتا ہے، جس کی بے عزتی کی جا سکتی ہے“ ۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے کا کرب کچھ اور بڑھ گیا۔

”تم ایک دلکش، تعلیم یافتہ، جوان لڑکی ہو، اچھے سلجھے ہوئے تعلیم یافتہ گھر سے تمہارا تعلق ہے، تم کیسے سمجھتی ہو کہ تمہیں بے عزت کیا جا سکتا ہے“ ؟ یہ پوچھتے ہوئے میرے لہجے کا تاسف مجھے خود بھی محسوس ہوا۔

”میم آپ نہیں سمجھ سکتیں، وہ بہت ہینڈسم ہے، آفس میں سب لڑکیاں اس سے بات کرنے کے لئے بے چین ہوتی ہیں، اسے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں ہے، اور وہ تو میرے مقابلے میں بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ وہ تو پی ایچ ڈی ہے، وہ بہت سلجھا ہوا، سوبر شخص ہے، سب سے ادب سے بات کرتا ہے، عورتوں کی بہت عزت کرتا ہے۔ بلکہ آفس کے دوسرے مردوں کو بھی عورتوں کے بارے میں غلط رویہ رکھنے پر تنبیہ کرتا ہے، اسی لئے سب اس کا بہت احترام کرتے ہیں، مگر پتا نہیں اچانک ہی اسے کیا ہو جاتا ہے اور میرے ساتھ وہ اتنا برا سلوک کیوں کرتا ہے“ ۔ روانی میں بولتے ہوئے اس کی آنکھیں پھر سے چھلک گئیں۔

اب کے میں نے ٹشو پیپر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ”پیاری سی لڑکی میری بات غور سے سنو پہلے عزت عزت عزت اور پھر محبت۔ اگر وہ تمہیں ٹوکنا، اور تمہاری غلطیوں پر سرزنش کرنا اور تمہیں جذباتی سزا دینا اپنا حق سمجھتا ہے تو یہ حق تم نے اسے دیا ہے، اپنی بے عزتی کرنے کا حق بھی تم نے خود اسے دیا ہے، تمہاری اس کے لئے بے چینی، بے تابی، بے صبری نے اسے یہ باور کرایا کہ تمہارے ساتھ یہ رویہ رکھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ آج عزت نہیں کرتا تو کبھی نہیں کرے گا۔ اس لئے ایسے مرد کی خواہش بالکل نہ رکھو، جو برابر کی عزت نہیں دے سکتا۔ مجلس میں چاہے سارا زمانہ اس کی تعریف کر لے، لیکن اگر خلوت میں وہ تمہارے ساتھ اچھا نہیں ہے تو مطلب وہ اچھا نہیں ہے۔ خود کو اس تعلق کے سحر سے آزاد کر لو جو تمہیں مسلسل، تذلیل، تضحیک، تحقیر اور بے سکونی دے رہا ہو۔ چاہے تمہیں اپنی سنہری کندن نظر آتی زنجیریں کتنی ہی پیاری کیوں نہ ہوں۔ اور جب تم ایک دفعہ اس خودساختہ قید سے آزاد ہو جاؤ گی تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ دنیا کتنی خوبصورت ہے، اور تمہاری محدود سوچ اور من چاہی خواہش نے تمہیں پابند سلاسل کیا ہوا تھا۔ یقین کرو تمہیں جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ جن زنجیروں کو تم کھرا سونا اور کندن سمجھ رہی تھیں وہ اصل میں لوہے کہ بدنما کڑے تھے“ ۔ میں روانی میں بولتی چلی گئی۔

اس نے بے یقینی سے میری طرف دیکھا، پھر اپنے ہاتھوں کی سبز رنگ کانچ کی چوڑیوں کو دیکھا، کچھ دیر آنسو روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ اور پھر بغیر کچھ کہے، اٹھ کر چلی گئی۔ میں انتہائی دکھی دل کے ساتھ بند دروازے کو دیکھتی رہی۔ دفعتاً میرے فون کی بیل بج اٹھی، اسکرین پر مانوس نمبر جگمگا رہا تھا۔ فون کان سے لگاتے ہی دھاڑتی ہوئی آواز آئی، ”آج کلینک میں ہی رہنے کا ارادہ ہے کیا، ٹائم دیکھا ہے، گھر واپسی کی کوئی فکر نہیں ہے“ ؟ میرے کانوں میں اپنی ہی آواز گونجی، ایسے مرد کی خواہش کبھی نہ رکھو جو برابر کی عزت نہ کرتا ہو۔ ایک آنسو لڑھک کر میرے رخسار پر بہہ نکلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments