امریکی نسل پرستی اور پاکستانی انتہا پسندی


یہ بات ہے 1994 کی، جب امریکہ کے مشہور فٹ باؤلر او جے سمپسن کو اس کی سابق بیوی نکول براون اور اس کے دوست، رون گولڈ مین کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ مقدمہ اپنی بین الاقو امی تشہیر کی وجہ سے یہ مقدمہ امریکہ میں ”صدی کے مقدمے“ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس مقدمے کے اہم ہونے کی وجہ یہ تھی کہ سارے ثبوت سمپسن کے خلاف تھے اور پراسیکیوٹرز کو پورا یقین تھا کہ وہ یہ مقدمہ با آسانی جیت جائیں گے۔ لیکن سسمپسن کے وکلا نے عدالت میں یہ ثابت کر دیا کہ لاس اینجلس کی پولیس افریقی امریکیوں سے نسل پرستی کی بنیاد پر ناروا امتیازی سلوک برتتی ہے اس لیے ان کے پیش کیے گئے ثبوتوں پہ بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔

اسی بنیاد پر جیوری نے سسمپسن کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور اسے دو لوگوں کے قتل کے الزام سے با عزت بری کر دیا گیا۔ مرکزی پولیس افسر کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا اور امریکی صدربل کلنٹن نے کہا، ”امریکیوں کا دنیا کو مختلف انداز سے دیکھنا، عام طور پر، اپنی نسل کی بنیاد پر، مجھے پریشان کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سننے میں زیادہ وقت گزاریں اور اپنے آپ کو ایک دوسرے کی جگہ پر رکھ کر سمجھیں کہ ہم دنیا کو مختلف طریقوں سے کیوں دیکھتے ہیں اور اس پر قابو پانے کی کوشش کریں۔“

یہ ایک مقدمہ تہذیب یافتہ قوموں کی سائیکالوجی کو پیش کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ قومیں ترقی کیسے کرتی ہیں آپ جب تک ملک میں بسنے والی سارے انسانوں کو بلا تفریق مساوی حقوق نہیں دیتے آپ ترقی نہیں کر سکتے۔ امریکہ نے اس مقدمے کے پندرہ سال کے اندر بارک اوباما کو اپنا پہلا افریقی امریکی صدر بنا کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ نسل پرستی کی کڑوی جڑ کو اپنے ملک سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ لیکن ملک سے نسل پرستی سرے سے ختم نہیں ہوئی اور اس کا عملی مظاہرہ پوری دنیا نے چند روز پہلے دیکھا جب امریکی ریاست مینیسوٹا میں سابق پولیس افسر ڈیرک چوون کے تشدد کے باعث سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ ہلاک ہوگیا تھا۔

پولیس افسر متاثرہ شخص کی گردن پر کافی دیر تک گھٹنا رکھے بیٹھا رہا جو اس کی موت کا باعث بنا۔ اس کے بعد دنیا میں مظاہروں اور احتجاج کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس میں پاگل پن ہے جذبات ہیں اور اپنا حق لینے کا جوش بھی ہے۔ ان مظاہروں میں صرف کالے نہیں بلکہ ان سے زیادہ تعداد میں گورے بھی شامل ہیں۔ ابھی تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا اور ڈونلڈ ٹرمپ اس مسئلے کو طاقت کے زور پہ ختم بھی نہیں کر پائیں گے۔

دوسری طرف جب میں اس صورتحال کا موازنہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے کرتا ہوں تو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اس طرح کی نسل پرستی کا سامنا ہمیں نہیں ہے۔ کیونکہ زیادہ تر پاکستانیوں کا خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہے اور یہاں کسی گندمی کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ہاں البتہ ایمان کے لحاظ سے ہر فرقہ دوسرے سے افضل ہے۔ اور ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کافر قرار دینے میں پیش پیش ہے۔ یہ فرقہ واریت اپنی انتہائی شکل میں شدت پسندی یا انتہا پسندی کو ہوا دیتی ہے اور اگر تھوڑا سوچا جائے تو پاکستان اب پاک لوگوں کی نہیں بلکہ کافروں کی سرزمین بن جاتی ہے۔ اس کافر بنانے کے عمل میں یہ سارے کافر صرف ایک نقطے پہ متحد ہیں کہ پاکستان میں بسنے والی ساری اقلیتیں کافر ہیں اور انہیں جینے کا، آگے بڑھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ اگر امریکہ والی صورتحال کا سامنا پاکستان کو ہو تو کوئی بھی اہلکارتو کیا کوئی ادارہ بھی قابل بھروسا نہیں ہے۔ ملک میں آئے روز اقلیتوں پہ ظلم ڈھائے جاتے ہیں پر کوئی پرسان حال نہیں اور احتجاج کرنے والوں کو اس طرح عبرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ آئندہ کوئی احتجاج کرنے کا سوچے بھی نہ۔ سانحہ یوحنا آباد میں گرفتار ملزمان کی ہڈیاں توڑ دی گئیں اور دو قید میں ہی دم توڑ گئے۔ ابھی مئی 2020 میں ایبٹ آباد حویلیاں یونین کونسل باغ میں چار غیر مسلم اساتذہ کی تعیناتی کو ناظم ویلج کونسل جھگیاں کی رائے میں عوامی جذبات کو اشتعال دینے کی سازش سمجھا جا رہا ہے۔

سندھ میں بسنے والے ہندو اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں ہر سال ہجرت کر رہے ہیں اور کراچی میں ان کی تعداد دو فیصد رہ گئی ہے۔ فیروز والہ میں چرچ کو گرا کر اس پر قبضہ کرنے والے مرکزی ملزم کو رہا کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ تو ہیرو سمجھا گیا ہے۔ مقدمہ بنانے والے، تفشیش کرنے والے اور انصاف کرنے والوں کا ہیرو آزاد ہی ہونا چاہیے۔

امریکہ میں سیاہ فام امریکیوں کا مسئلہ تو حل ہو جائے گا لیکن پاکستان میں حکومت اور پالیسی بنانے والے ادارے کوئی سستا نشہ پی کے سو رہے ہیں اور جب تک ملک میں بسنے والی اقلیتیں کسی کافر فرقے کا حصہ نہیں بن جاتے یا ملک بدر نہیں ہو جاتے یہ مدہوش رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments