ملک ریٹائرڈ جرنیل اور حکومت ٹائیگر فورس چلائے گی


ایک ایسے وقت میں جب اس بات پر حیرت و استعجاب کا اظہار سامنے آرہا ہے کہ ملک کے اہم ترین اداروں میں حاضر سروس یا ریٹائرڈ جنرل سربراہان کے طور پر مقرر کئے گئے ہیں، وزیر اعظم نے نو ساختہ رضاکاروں کی ’ٹائیگر فورس‘ کے ذریعے اہم قومی مسائل سے نمٹنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ایک ٹیلی ویژن خطاب میں عمران خان نے کہا ہے کہ کووڈ۔19 کے چیلنج کامقابلہ کرنے کے علاوہ اب یہ رضاکار فورس ٹڈی دل کے حملے سے نمٹنے اور ماحولیات کی بہتری کے لئے بھی حکومت کی مدد کرے گی۔
ملک میں کورو نا وائرس سے متاثرین کی تعداد 91 ہزار سے بڑھ چکی ہے جبکہ اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ ملک میں لاک ڈاؤن جو درحقیقت کبھی نافذ ہی نہیں کیا گیا تھا، اب مکمل طور سے ختم ہوچکا ہے۔ حکومت کے پاس وائرس کے پھیلاؤ کا اندازہ کرنے اور اس کے سورس کا سراغ لگانے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے ۔ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر چند ہزار ٹیسٹ کئے جاتے ہیں اور ان میں سے نصف یا اس سے بھی زیادہ کوورنا سے متاثر نکلتے ہیں۔ وزیر اعظم اس کے باوجود یہ دعویٰ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے کہ حکومت کی ’حکمت عملی‘ اور بروقت اقدامات کی وجہ سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار کم رہی ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق حکومت کی پالیسی سے زیادہ سرکار کی لاعلمی سے ہے۔ پاکستان کا کوئی ادارہ یہ نہیں جانتا کہ ملک میں کورونا وائرس کس حد تک پھیل چکا ہے اور کون سے علاقے سب سے زیادہ اس کی زد میں ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 91 ہزار ہے لیکن ان لاکھوں لوگوں کے بارے میں کوئی نہیں جانتا جو کورونا وائرس کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگئے اور کسی کو ان کا پتہ بھی نہیں چلا ۔ اگر وہ اس سے جاں بر ہونے میں کامیاب ہو بھی گئے تو بھی وہ وائرس کے کیرئیر کے طور پر درجنوں یا سینکڑوں دوسرے لوگوں کو متاثر کرنے کا سبب بنے۔ ایسے میں وزیر اعظم تسلسل سے ان ملکوں کا حوالہ دیتے ہیں جنہوں نے تمام تر سرکاری وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ملکوں میں وائرس سے متاثرین کی اصل تعداد کا پتہ لگانے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس لئے یہ موازنہ غلط ہے کہ امریکہ یا برطانیہ میں روزانہ دو ہزار افراد ہلاک ہورہے ہیں جبکہ پاکستان میں اب یہ تعداد دو ہزار تک پہنچی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں اب وائرس کا عروج ختم ہوچکا ہے اور وائرس کا رجحان رو بہ زوال ہے جبکہ پاکستان میں وائر س مسلسل اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ صرف جون کے پہلے چند روز کے دوران ہزاروں لوگوں میں اس وائرس کاپتہ لگا یا جاچکاہے۔
امریکہ میں بھی عمران خان ہی کی طرح ایک مقبولیت پسند صدر اپنے گھمنڈ اور سیاسی ضرورتوں کے تحت کورونا وائرس کی ہلاکت کا بروقت ادراک کرنے میں ناکام رہا تھا اور جب حالات قابو سے باہر ہوگئے تو کونین استعمال کرنے یا جراثیم کش دوا ئیں جسم میں داخل کرکے وائرس کو ختم کرنے کے نادر روزگار مشورے دیتا رہا تھا۔ اس کے باوجود وہاں کروڑوں لوگوں کا ٹیسٹ کیا گیا اور طبی ماہرین نے اس کے پھیلاؤ کے پیٹرن کا اندازہ کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں مزید پھیلاؤ کو روک لیا ہے۔ کورونا وائرس ایک کمان کی مانند پھیلتا ہے ۔ یعنی کم مریضوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے اور عروج کے بعد یہ نیچے آنا شروع ہوجا تا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ناکام پالیسی کی وجہ سے امریکہ نے کورونا وائر س شدید تر نقصان اٹھایا ہے۔ ملک میں 18 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوئے اور ایک لاکھ 7 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس شدید حملے کے باوجود اب امریکہ میں بھی وائرس سے متاثر اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہورہی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کا یہ دعویٰ کہ ان کی حکومت اپنی ’دانشمندانہ پالیسی‘ کی وجہ سے کورونا وائرس کو شکست بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، حقائق سے منہ موڑنے کے مساوی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کا سہرا اب ’ٹائیگر فورس‘ کے سر باندھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان سرکاری رضاکاروں نے عوام کو قواعد و ضوابط کا پابند بنا کر کورونا سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
عمران خان کی باتیں سن کر یہی لگتا ہے کہ وہ خوابوں کی کسی ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں یا تو وہ سچائی سے بیگانہ ہیں یا دیوانگی کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے مشن پر گامزن رہتے ہیں تاکہ عوام بدستور ان کی دیانت اور غریب سے محبت کے نعروں پر واہ واہ کرتے رہیں۔ اس وقت ملک میں کورونا سے متاثرین کی تعداد میں جو اچانک تیزی دیکھنے میں آرہی ہے ، اس کا براہ راست تعلق رمضان المبارک میں مساجد کھولنے، تراویح کا اہتمام کرنے اور عید سے پہلے خریداری کے لئے بازار کھولنے جیسے اقدامات سے ہے۔ ڈاکٹر بتا رہے تھے اور یہ بات دہرائی جارہی تھی کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار کا اندازہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے دو سے چار ہفتوں کے بعد ہوگا۔ پہلے دو تین ہفتوں کے دوران جسم میں اس وائرس کی موجودگی کے باوجود متاثرہ شخص کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دو تین ہفتے کے بعد جب اس کی علامات رونما ہوتی ہیں اور متاثرہ شخص اتنا خوش نصیب ہو کہ ٹیسٹ کرواسکے تب ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ کورونا کا کیرئیر ہے۔ البتہ پاکستان جیسے ملک میں یہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ اس دوران کوئی شخص کتنے دوسرے لوگوں کو کورونا منتقل کرنے کا سبب بنا تھا۔
یہ دعویٰ کرنا بے بنیاد اور گمراہ کن ہے کہ مساجد کھولنے سے ملک میں ایک بھی شخص کو کورونا لاحق نہیں ہؤا۔ وزیر اعظم کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ پولیس کے بعد ’ٹائیگر فورس‘ کے رضاکاروں کی نگرانی کی وجہ سے مساجد میں ’ایس او پیز‘ یعنی سماجی دوری کے قواعد کی مکمل پابندی کی گئی۔ اس طرح پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک بن گیا جس نے وبا کے دور میں بھی مساجد کھولنے اور تراویح پڑھانے کا ریکارڈ قائم کردیا اور اب عمران خان کے بقول باقی اسلامی ممالک بھی پاکستان کی ’نقل ‘ کررہے ہیں۔ شدید خوش فہمی یا غلط فہمی پر مبنی یہ دعویٰ ناقابل فہم ہے۔ جن لوگوں نے رمضان کے دوران مساجد کے اجتماعات دیکھے ہیں یا عیدالفطر پر شاپنگ کے مناظر کو بھگتا ہے یا ان کی تصاویر ملاحظہ کی ہیں وہ وزیر اعظم کی ا ن باتوں کا کیوں کر یقین کرسکتے ہیں۔ ایسا ایمان لانے کی محض ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ انسان شدید ہیرو پرستی کے وبال کا شکار ہو اور ممدوح کے جھوٹ اور دھوکہ دہی کو اس کی دیانت داری قرار دیتے ہوئے واہ واہ کرتا رہے۔
وزیر اعظم کو بتانا چاہئے کہ ان کے پاس کون سے طبی و سائنسی شواہد یا اعداد و شمار ہیں جن کی بنیاد پر وہ عوام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ رمضان میں مساجد نہ کھولنے کی اپیل کرنے والے ڈاکٹر اور دیگر عناصر غلط تھے لیکن عمران خان کی بصیرت مستقبل کی درست تصویر دیکھ رہی تھی۔ کیا ملک کی لاکھوں مساجد میں جانے والے کروڑوں لوگوں کا ٹیسٹ لے کر اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ مساجد کے اجتماعات کی وجہ سے کورونا نہیں پھیلا یا یہ اعلان صرف اس گمان پر کیا جارہا ہے کہ عوام کو جو بھی بتادیا جائے پروپیگنڈا کے زور پر انہیں اسے تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ وجہ کوئی بھی ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ملک میں کورونا کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی بنیادی وجہ وہ لاپرواہی ہے جو عمران حکومت کی کورونا حکمت عملی کی بنیاد رہی ہے۔ بظاہر حکومت یہ طے کرچکی ہے کہ چند ہزار لوگوں کے مرنے سے ملک کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے لاک ڈاؤن سے معیشت کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔
یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اگرچہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اجتماعی تحفظ یا ہرڈ امیونٹی کا بہت چرچا رہا ہے لیکن دنیا میں ایسا کوئی تجربہ نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی ماہرین نے یہ اتفاق کیاتھا کہ وبا کے پہلے مرحلے کے دوران یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے سویڈن کی مثال ضرور دی جاتی ہے لیکن وہاں سے بھی ابھی تک ایسے کوئی اعداد و شمار سامنے نہیں آسکے جن کی بنیاد پر سویڈن یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے ہرڈ امیونٹی حاصل کرکے اپنے لوگوں کو محفوظ کرلیا ہے۔ اس کے برعکس وبا کی وجہ سے وہاں اس کے ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں دس گنا ہلاکتیں ہوئیں۔ اور لاک ڈاؤن کے بارے میں نرم پالیسی اختیار کرنے کے فیصلہ کو سرکاری اور عوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔
ان حالات میں عمران خان نے ’ٹائیگر فورس‘ کھڑی کی ہے اور اب انہیں سرکاری شناختی کارڈ دے کر نیم سرکاری حیثیت دی جارہی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے زیر انتظام منظم کی گئی اس ’فورس‘ کا موازنہ دنیا بھر میں فلاحی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے رضاکاروں سے کیا جاتا ہے۔ حالانکہ رضاکارانہ بنیادوں پر عوامی بہبود کا کام کرنے والی تنظیمیں سرکاری سرپرستی کی محتاج نہیں ہوتیں۔ یوں لگتا ہے پاکستان کے وزیر اعظم ریاست اور اس کے سب قابل ذکر اداروں کا انتظام فوجی جرنیلوں کے حوالے کرکے اب اپنی رضاکار فورس کے ذریعے حکومت چلائیں گے تاکہ آئندہ انتخابات میں اپنی کارکردگی کی دھاک بٹھا سکیں۔ یہ فورس کووڈ۔19 کے خلاف ’کامیابی‘ حاصل کرنے کے بعد اب ٹڈی دل کا خاتمہ کرے گی اور ماحولیات کے الجھے مسئلے سلجھائے گی۔ کوئی یہ نہ پوچھے کہ کیسے؟ عمران خان نے کہہ دیاتو مسئلہ حل ہی سمجھیں کیوں کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments