جارج فلائیڈ کی ہلاکت: امریکہ میں عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے واقعات میں ملوث پولیس افسروں کو کبھی کبھار ہی سزا کیوں ہوتی ہیں؟


Police officers face off with demonstrators during protests over the Minneapolis arrest of George Floyd, who later died in police custody, in Dallas, Texas, USA, 30 May 2020. (EPA)

پولیس والوں کو سزا سے بچانے کے لیے قانونی تحفظ ہمیشہ سے متنازع موضوع رہا ہے

ایک اندزے کے مطاق امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں ہر سال 1200 افراد مارے جاتے ہیں لیکن ان میں سے 99 فیصد واقعات میں ملوث پولیس افسروں پر کبھی کوئی فردِ جرم بھی عائد نہیں ہوتی ہے۔

مینیسوٹا میں جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور عوامی دباؤ کی وجہ سے اس مرتبہ اس کے قتل میں ملوث افسران کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔

ایک پولیس افسر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جب اس نے 25 مئی کو جارج فلائیڈ کی گردن کو اپنے گھٹنے سے دبا کر رکھا جو کہ مبینہ طور پر فلائیڈ کی ہلاکت کی وجہ بنی۔

تین دیگر افسران جو موقعے پر موجود تھے ان پر اس جرم کی اعانت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ چاروں 8 مئی کو عدالت کے سامنے پیش ہوں گے۔

اسی بارے میں

امریکہ: پُرتشدد مظاہروں میں ہلاکتیں، ٹرمپ کی فوج بلانے کی دھمکی

وکیل: جارج فلائیڈ کو ’سوچ سمجھ کر قتل کیا گیا‘

جارج فلائیڈ کی موت پر امریکہ میں کالے گورے کی سیاست گرم

کیا صدر ٹرمپ امریکی ریاستوں میں فوج تعینات کر سکتے ہیں؟

احتجاج کرنے والوں کو امید ہے کہ جارج فلائیڈ کی موت امریکی نظام میں کسی بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے یعنی یہ کہ اب قانون پولیس افسران کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے جو اپنے فرائص کے دوران کسی کو ہلاک کرتے ہیں کیونکہ مینیسوٹا کا واقعہ پچھلے واقعات سے بالکل مختلف ہے۔

امریکہ میں فرائص کی ادائیگی کے دوران جو پولیس افسران کسی کو جان سے مار دیتے ہیں ان کو سزا دینا تو درکنار، ان کی اکثریت پر قتل کا مقدمہ تک درج نہیں ہوتا ہے کیونکہ انھیں ایک قانونی استثنیٰ حاصل ہے۔

A protester speaks with an LAPD officer during a demonstration over the death of George Floyd in Hollywood, California on June 2, 2020. (AFP)

فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد مشتعل مظاہر ہوئے

مقدمہ سے محفوظ (بولڈ)

ایک تحقیقی ادارے ‘میپنگ پولیس وائیلنس’ نے سنہ 2013 سے لے کر سنہ 2019 کے درمیان پولیس کے ہاتھوں 7666 افراد کے قتل کے واقعات کی دستاوازات جمع کیں ہیں جو کہ کُل ایسے واقعات کی 92 فیصد بنتی ہیں۔

ان میں صرف 99 افسران کے خلاف الزامات عائد ہوئے جو کہ ہلاکتوںص کے واقعات میں ملوث افسران کا 1.3 فیصد بنتے ہیں۔ اور ان میں سے صرف 25 کو سزائیں سنائی گئیں۔

واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر برائے فوجداری انصاف، کلارک نیلی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے ‘ کہ استغاثہ ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف فردِ جُرم عائد کروا سکے، جس طرح جارج فلائیڈ کے مقدمہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ استغاثہ کو پولیس کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے، مقدمے کی گتھیاں سلجھانے اور مقدمہ چلانے کے لیے درکار شواہد کے لیے پولیس پربھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ اور پولیس ہلاکتوں کے ایسے واقعات میں قانون توڑے بغیر بھی کسی کو ہلاک بھی کرسکتی ہے۔

اس طرح کےواقعات میں ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کے پاس آخر میں یہ رستہ رہ جاتا ہے کہ وہ پولیس کے خلاف دیوانی عدالتوں میں نقصان کے ازالے کے لیے مقدمہ دائر کرسکیں، لیکن نیل کے مطابق اکثر عدالتوں کے دروازے ان کے لیے بند ہوتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات پر ‘استثنیٰ کی اہلیت’ کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔

یہ اصول سرکاری ملازمین کو اس طرح کے الزامات کے مقدمے سے محفوظ بناتا ہے سوائے اس کے کہ افسران ایسے حقوق کو پامال کریں جو زیادتی کے نشانہ بننے والے کے مستند حقوق بنتے ہوں۔

کلارک نیل کہتے ہیں کہ جو بات عملی طور بنتی ہے وہ ہے قانونی نظیر جس کی وجہ سے کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف مقدمہ دائر کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔

Demonstrators talk to the National Guard during a march in response to George Floyd

کووڈ 19 کے خطرے کے باوجود امریکہ مںی مظاہرے جاری ہیں

تشدد کی ‘کُھلی چھٹّی’ (بولڈ)

سنہ 2014 میں ایمی کوربٹ ایک پولیس کے پیچھا کرنے کے واقعہ میں پھنس گئی تھیں جب کوئی شخص اس کے گھر کے پچھلے حصے میں غیر قانونی طور پر دخل ہوگیا تھا۔ مسلح پولیس کے ارکان اس کے گھر میں گھس گئے اور انھوں نے وہاں موجود چھ بچوں کی بندوق کے زور پر انھیں زمین پر لیٹنے کو کہا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق، جب ایمی کا پالتو کتا، بروس وہاں پہنچا تو اس پر پولیس افسر نے بغیر انتباہ کے دو گولیاں چلا دیں باوجود اس کے کتا پولیس افسران کے لیے خطرہ نہیں تھا۔

اگرچہ گولیاں کتے کو نہیں لگیں لیکن ان میں سے ایک گولی ایمی کے دس برس کے بیٹے، ڈکوٹا، کو لگی جو کے صرف ایک میٹر کے فاصلے پر لیٹا ہوا تھا۔ اس لڑکے کی زندگی تو بچ گئی لیکن اُس کی ٹانگ میں گہرا زخم آیا اور اُسے شدید نفسیاتی تکلیف سے گزرنا پڑا۔

ایمی کی اس درخواست کو عدالت نے مسترد کردیا جس میں اس نے گولی چلانے والے پولیس افسر پر مقدمہ چلانے کی استدعا کی تھی۔ عدالت کا موقف تھا کہ گرفتاری کے دوران طاقت کے حادثاتی استعمال سے محفوظ ہونے کا کوئی واضح حق نہیں تھا۔’

اسی طرح کا ایک مشہور مقدمہ ملائکا برُوکس کا تھا جس میں آٹھ ماہ کی حاملہ ہونے کے باوجود 11 برس کے بیٹے کے سامنے اُس پر ٹیزر گن سے تین مرتبہ فائر کیا گیا، اُسے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا گیا، زمین پر الٹا لٹا کر اس کو ہتھکڑیاں پہنائی گئیں۔

اُسے زیادہ سے زیادہ 20 میل فی گھنٹہ رفتار گاڑی چلانے کی حد والے علاقے میں 32 میل فی گھنٹہ کی رفتار پر گاڑی چلانے کی وجہ سے پولیس نے روکا تھا لیکن اُس نے تیز رفتاری کے اس واقعے کی رسید پر اقبالِ جرم کے طور پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔

اس نے بھی مقدمہ دائر کیا لیکن اسے عدالت نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ‘ٹیزر گن کے استعمال کے لیے باقاعدہ اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں۔’ مقدمے کے دس برس بعد اس کا پولیس کے ساتھ 45000 ڈالر زرِ تلافی کا ماورائے عدالت تصفیہ طے پایا۔

کلارک نیل کہتے ہیں کہ ‘یہ بہت ہی حیران کن بات ہے کہ کن حالات میں عدالت پولیس کو طاقت کے استعمال کی کھلی چھٹی ملتی ہے۔ جیسے میں کہتا ہوں کہ اس طرح کے فیصلے قانون نافذ کرنے والوں کو ہر قسم کے احتساب سے بالکل محفوظ بنادیتے ہیں۔’

Demonstrators reflections are seen in the glasses of a US Capitol police officer during a protest in front of the United States Capitol in Washington, DC, on June 2, 2020.

اگر کسی واقعے میں واضح تشدد کا معاملہ نہ ہو تو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو سزا سے تحفظ مل جاتا ہے

جارج فلائیڈ کے لیے انصاف (بولڈ)

نیل کہتے ہیں کہ استثنیٰ کے اس اصول کی وجہ سے جارج فلائیڈ کے ورثا کے لیے انصاف حاصل کرنے بہت مشکل ہوگا۔

‘اگر وہ ایسی کوئی نظیر نہیں ڈھونڈ پاتے ہیں جس میں عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہو کہ کسی کی ریڑھ کے ستون کے بالائی سات مہرے نو منٹ دبائے رکھنے سے اس کی موت واقعہ ہوجائے، تو قانونی طور پر طاقت کے استعمال کا ایک غیر قانونی فعل ہے، تو پھر یہاں استثنیٰ کے اصول کا اطلاق ہوگا۔یعنی پھر آپ مقدمہ دائر نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اس قسم کے مقدہے کی کوئی نظیر نہیں ہے۔’

بی بی سی نے امریکہ میں پولیس افسران کی تنظیم، نیشنل پولیس آفیسرز ایسوسی ایشن سے ان کے تبصرے کے لیے رابطہ کیا، لیکن کئی مرتبہ ٹیلی فون کالز کے باوجود اس رپورٹ کے فائل کرنے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

پولیس افسران کی اس تنظیم کے صدر مائیکل میک ہیل، جارج فلائیڈ کے واقعے پر پہلے ہی ایک تبصرے میں کہہ چکے ہیں کہ ‘فلائیڈ کا واقعہ قابلِ مذمت ہے۔ جو کچھ ہوا اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، نہ ہی اپنا بچاؤ، نہ ہی کوئی اخلاقی جواز دیا جاسکتا ہے جو کچھ اس افسر نے کیا۔’

سیاستدانوں کی جانب سے بھی اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

میساچیوسیٹ کی ایک رکنِ کانگریس، ایانا پریسلی نے پولیس کے مظالم کے خلاف ایک قرارداد متعارف کراتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ‘کافی عرصے سے پولیس کی جانب سے سیاہ فام یا گندمی رنگ والے لوگوں کی لاشیں پیش کی جارہی ہیں، انھیں حراست میں لیا جا رہا ہے، انھوں مارا پیٹا جارہا ہے، ان کا گلا دبا کر دم گھونٹا جا رہا ہے، ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، انھیں قتل کیا جا رہا ہے۔ اب ہم نا انصافیوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔’

جارج فلائیڈ کے اس واقعے میں پولیس افسران کے خلاف کی گئی کارروائی کے پیچھے بڑھتا ہوا عوامی دباؤ ہے، لیکن اس دباؤ کے ساتھ قوانین میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

ماہرین اور میڈیا کے تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ چاہے تو وہ استثنیٰ کے اصول کے اطلاق کے پیمانے اور معیار پر نظرِ ثانی کر سکتی ہے۔

اور کئی سماجی اور سیاسی کارکنان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس کو پولیس کے طاقت کے استعمال کے وقت زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے کا قانون یا ‘پیس ایکٹ’ بنانا چاہئیے۔

قانون کا یہ مسودہ قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں پر مہلک قسم کی طاقت کے استعمال پر پابندی عائد کرتا ہے، اور اسے صرف آخری حربے کے طور استعمال کی اجازت دیتا ہے جب تمام دیگر مناسب حربے ناکام ہوگئے ہوں۔

کانگریس کے کئی ارکان نے ایسے قانون کی منظوری کی حمایت کرنے کا اعلان کیا جو فوجی ہتھیاروں کو پولیس کو دیے جانے پر پابندی عائد کرے گا۔ اس قانون ساز ادارے میں اسی طرح کے کئی اور مسودے بھی کرروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔

A man walks past a graffiti on a wall depicting a portrait of George Floyd in Berlin

فلائیڈ کی ہلاکت پر دنیا بھی میں رد عمل سامنے آیا

پولیس کے نئے معیار (بولڈ)

لیکن امریکہ کی شہری آزادیوں کی تنظیم ‘امیریکن سول لبرٹیز یونین’ کے ڈائریکٹر یوڈی اوفر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اس طرح کی قانون سازیوں سے بھی کہیں زیادہ اقدامات لینے کی ضرورت ہے: اس پولیس کے پورے ماڈل کی ثقافت اور اس میں رویے کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

امریکہ کے اس وفاقی نظام میں پولیس بہت زیادہ مرکز گریز ادارہ ہے۔ اوفر کا کہنا ہے کہ یہ بعض شہروں کی مقامی حکومتوں کا 40 فیصد بجٹ کھا رہے ہیں۔

امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے مسلح ادارے مختلف حالات کے لحاظ سے تعینات ہیں جن کی وجہ سے کوئی بھی ایک تنازعہ یا جھگڑا اپنے اندر پرتشدد بن جانے کے شدید خدشات رکھتا ہے، مثلاً سکول کے لیے آتے جاتے بچوں کی حفاظت یا چھوٹے موٹے جھگڑوں سے نمٹنا۔

امریکہ میں ہر تین سیکینڈ میں کوئی ایک شخص گرفتار کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے وفاقی ادارے ایف بی ائی کے مطابق سنہ 2018 میں ایک کروڑ تین لاکھ افراد گرفتار کیے گئے تھے۔

اوفر کہتے ہیں کہ ان گرفتاریوں میں ایک بڑی تعداد پر تو کسی تشدد کرنے کا الزام بھی نہیں ہوتا ہے۔ جارج فلائیڈ مبینہ طور پر ایک جعلی کرنسی نوٹ استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

یوڈی اوفر کہتا ہے کہ ‘اول تو پولیس کو اس قسم کے جرائم میں پڑنے کا اختیار ہی نہیں ہونا چاہئیے۔’

‘ہمیں پولیس پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس رقم کو ان کمیونیٹیز پر خرچ کیا جائے جن کو تاریخی طور پر پولیس (اپنے مظالم کا) نشانہ بناتی رہی ہے۔’

Thousands of demonstrators march in response to George Floyd

حالیہ مظاہروں کو سنہ 1960 کے شہری حقوق کی جد وجہد سے موازنہ کیا جا رہا ہے

اگرچہ پولیس میں بھرتیوں کے معیار بہتر کرنے کی ضرورت کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں، تاہم اوفر اور نیل دونوں کا ہی خیال ہے کہ پولیس کے احتساب کا (موجودہ) نظام صرف ‘لیپا پوتی’ ہے۔

کووِڈ-19 کی وبا کے خطرے کے باوجود احتجاجی مظاہروں میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے، سماجی اور سیاسی کارکنان اپنی توانائیوں کو ایک تبدیلی کے عمل میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔

اوفر کتے ہیں کہ ‘ہم امریکہ میں پولیس میں تشدد کے رجحان اور اس میں نسل پرستی کا بارے میں بہت بنیادی قسم کا مسئلہ دیکھتے ہیں۔ اور باوجود اس کے کہ ہم نے کئی کوششیں کیں ہیں ہم انھیں قابو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمیں انفرادی سطح پر کسی ایک آدھ افسر پر مقدمہ چلا کر کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp