کورونا ریلیف ٹائیگر فورس: رضاکار کچھ کر بھی رہے ہیں یا صرف اعلانات ہو رہے ہیں؟


پاکستان میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کی تشکیل اور ذمہ داریوں کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ فورس دو ماہ میں زیادہ متحرک نہیں ہو سکی اور تجزیہ کار اس فورس کو ماضی کی امن کمیٹیوں اور خدمت کمیٹیوں کی ہی ایک نئی شکل سمجھتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا اعلان 31 مارچ کو کیا تھا اور اگلے ہی روز کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے سربراہ عثمان ڈار نے اس فورس کے لیے رجسٹریشن کا اعلان کر دیا جس کے لیے 10 اپریل تک تاریخ مقرر تھی۔

کورونا ریلیف ٹائیگر فورس قائم کر دی گئی لیکن یہ فورس کیا کرے گی اس بارے میں کوئی واضح روڈ میپ نظر نہیں آیا۔ اس ٹائیگر فورس کا منصوبہ بظاہر کورونا وائرس کی طرح نوول ہی ہے جو ہر دوسرے روز شکل یا ذمہ داری تبدیل کر دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کرسی سلامت رہے!

عمران خان: ’گھبرانا نہیں ہے‘ سے ’چلو مری چلیں‘ تک

قوم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم یہ جنگ جیتیں گے: عمران خان

ذمہ داریوں میں ترامیم

اس فورس کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ شامل تھا کہ فورس نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی یعنی این ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں لوگوں کے گھروں تک راشن اور خوراک فراہم کریں گے۔

یہ رضا کار فورس یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح تک قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر اتھارٹیز کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیوں میں شامل رہیں گے۔ یہ رضا کار مستحق افراد کی نشاندہی کریں گے اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے بارے میں انتظامیہ کو آگاہ کریں گے جس پر پولیس کارروائی کرے گی۔

اس کے علاوہ قرنطینہ قرار دیے گئے علاقوں کی نگرانی اور اور متاثرہ علاقوں میں متاثرہ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے اور نماز جنازہ اور دیگر مذہبی اجتماعات میں انتظامیہ کی مدد کریں گے۔

بنیادی طور پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محدود افراد کو کھانا یا راشن فراہم کرنے کے منصوبے سے لے کر لوگوں کو آگہی فراہم کرنا اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے سے مساجد میں ڈیوٹیاں دینے تک سب کچھ تبدیل ہوتا رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ٹائیگر فورس کے رضا کار ماہ رمضان میں تراویح کے دوران ایس او پیز یا ضابطہ کار پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے اس کے علاوہ لوگوں میں اس وائرس سے بچاؤ کے لیے آگہی کے پیغامات دیں گے۔

لیکن ماہِ رمضان اور اس کے بعد عید کے دنوں میں کم ہی ایسے رضاکار سامنے نظر آئے ہیں جو اس بارے میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ چند ایک علاقوں میں بعض اوقات کچھ نوجوان بازاروں میں لوگوں کو آگاہی دیتے نظر آئے ہیں لیکن ان کی تعداد انتہائی کم بتائی گئی ہے۔

بنیادی طور پر جوں جوں نوول کووڈ 19 کی شکلیں اور اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جس طرح پالیسیوں میں تبدیلیاں آتی رہیں اسی طرح ٹائیگر فورس کے ذمہ داریاں بھی یا بدلتی رہیں یا ان میں اضافہ اور کمی ہوتی رہی ہے ۔

اب یہ ٹائیگرز کیا کریں گے؟

کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے انچارج عثمان ڈار کے مطابق صوبہ پنجاب میں 93000، خیبر پختونخوا میں 19000 اور صوبہ بلوچستان میں 1500 جوان ٹائیگر فورس کا حصہ بنے ہیں۔

انھی میں سے ایک نوجوان رفیع اللہ خان خیبر پختونخوا کے صوبائی حلقہ پی کے 77 میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے انچارج ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبے کے تمام اضلاع میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کی کمیٹیاں قائم کی جا رہی ہیں، بیشتر اضلاع میں پہلے ہی یہ کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں جبکہ چند ایک اضلاع میں جلد یہ کام مکمل کر لیا جائے گا۔

صوبہ سندھ کے علاوہ کسی بھی صوبے میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا سربراہ ابھی تک کسی کو مقرر نہیں کیا گیا جبکہ صوبہ سندھ میں جہاں گورنر سندھ کو اس فورس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے وہاں اب تک کورونا ریلیف ٹائیگر فورس قائم ہی نہیں کی گئی۔اضلاع کی سطح پر ڈپٹی کمشنرز اس فورس کی نگرانی کریں گے۔

رفیع اللہ خان نے بتایا کہ انھوں نے اپنے علاقوں میں آگہی مہم شروع کر دی ہے جن میں وہ ان مارکیٹوں اور بازاروں میں جاتے ہیں جہاں دکانیں کھلی ہوتی ہیں وہاں وہ دکانداروں اور گاہکوں کو کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں ماسک کے استعمال اور ہاتھوں کی صفائی کے بارے میں بتاتے ہیں اور انھیں سماجی دوری کے مقررہ فاصلے سے آگاہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی بنیادی ذمہ داری لوگوں کو آگاہی دینا اور انھیں بتانا ہے کہ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ جائیں۔ اس کے علاوہ احساس سینٹرز میں لوگوں کی مدد کرنا اور انھیں بتانا کہ وہ کیسے اس وائرس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ رفیع اللہ نے بتایا کہ اگر انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی علاقے میں کوئی کورونا وائرس کا مشتبہ مریض موجود ہے تو وہ اس کی نشاندہی کرکے متعلقہ حکام کو آگاہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹائیگر فورس اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ اور ضلع کے طبی افسران سے رابطے میں رہیں گے اور اگر کسی کو گھروں میں قرنطینہ کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کو مدد کرنا ان رضاکاروں کی ذمہ داری ہوگی۔

رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ ٹائیگر فورس صرف کورونا ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں کے بنیادی مسائل جیسے پانی کی فراہمی، بجلی اور گیس کے مسائل کے علاوہ گلیوں میں توڑ پھوڑ اور نکاسی آب جیسے مسائل کے حل کے لیے، انتظامیہ اور لوگوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

https://twitter.com/UdarOfficial/status/1262431690846277640?s=20

رضاکاروں کی اس فورس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟

بظاہر چین میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سرکاری سطح پر ایسے رضاکار تیار کیے گئے تھے جو ان لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچاتے تھے جو کافی دنوں تک گھروں میں محدود رہے تھے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھے۔

ان رضاکاروں کو لوگوں کی جانب سے اطلاع دی جاتی تھی کہ انھیں کھانا چاہیے تو اس کے لیے رضاکار کھانا ان کے گھروں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور لوگ کھانا اٹھا لیتے تھے۔

یہی منصوبہ پاکستان میں بھی نافذ کیا گیا لیکن جب تک کورونا وائرس کا اعلان کیا گیا اور انھیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا گیا تب تک پالیسیاں بڑے پیمانے پر تبدیل کر دی گئیں۔

اس رضا کار فورس کے سربراہ عثمان ڈار نے ماہ رمضان کے آغاز میں کہا تھا کہ 115000 رضاکار مساجد میں لوگوں کو آگاہی دیں گے اور خاص طور پر عید کے دنوں میں یہ رضا کار عید کی نماز اور دیگر مواقع پر لوگوں کو محدود رہنے کی تلقین کریں گے۔لیکن ماہ رمضان اور عید کے دنوں میں اس رضا کار فورس کے جوان کہیں نظر نہیں آئے۔

عثمان ڈار نے کہا تھا کہ صوبہ سندھ میں 154000 ٹائیگر فورس کے رضا کار تیار ہیں لیکن اب تک صوبہ سندھ میں یہ جوان سامنے نہیں آ سکے۔

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مساجد اور بازاروں کے علاوہ احساس پروگرام اور یوٹیلیٹی سٹورز پر یہ ٹائیگرز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ان رضا کاروں کی تعداد بڑھائی جائے گی جو دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اور یہ نوجوان اس ملک کا اہم اثاثہ ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ رضا کار ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔

حکومت کے فیصلے اور منصوبے اپنی جگہ پر لیکن جب سے اس فورس کے قیام کا اعلان ہوا ہے تب سے لے کر اب تک اس فورس کی کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی بلکہ اکثر شہروں میں ان نوجوانوں نے شکایات کی ہیں کہ انھیں اجلاس کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور حکام اس اجلاس سے غائب ہوتے ہیں۔

تجزیہ کاروں اور لوگوں کے رائے مختلف کیوں ہے؟

کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے قیام کے اعلان کے بعد سے حکومت کے اس منصوبے پر ذرائع ابلاغ نے اپنے اپنے تجزیے کیے ہیں اور منصوبے کے ثمرات اور اس کے منفی پہلوں پر نظر ڈالی ہے۔

سینییر صحافی محمود جان بابر کہتے ہیں کہ دراصل یہ منصوبہ امن کمیٹی اور مسلم لیگ نواز کے دور میں قائم خدمت کمیٹی کی مانند ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے ووٹ بینک کو یکجا رکھنا چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ خدمت کمیٹی بھی ان رضا کاروں پر مشتمل تھی اور اس کا مقصد بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ اسی طرح اس فورس کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ جو سیاسی جماعت کے حمایتی ہوتے ہیں انھیں یہ احساس دلایا جا سکے کہ وہ جماعت کے لیے اہم ہیں اور اس بنیاد پر ضلع اور تحصیل کی سطح پر افسران ان رضاکاروں کو اہمیت بھی دیتے ہیں۔

محمود جان بابر نے بتایا کہ انھیں ملک کے مختلف علاقوں سے لوگوں نے فون کالیں کی ہیں اور اس فورس کی حمایت میں کم ہی لوگ بولے ہیں بیشتر نے ان پر تنقید کی ہے اور ایسے رضا کار بھی سامنے آئے ہیں جو انتظامیہ پر تنقید کرتے نظر آئے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے نوجوانوں کو انتخابات کے دوران بھی یکجا کیا تھا اور اس کے ثمرات یہ سامنے آئے تھے کہ جماعت کو اچھے خاصے ووٹ ملے لیکن اب صورتحال مختلف نظر آتی ہے کیونکہ حکومتی دعوؤں اور پالیسیوں میں تضاد سامنے آیا ہے اور حکومتی وعدوں کے مطابق عام لوگوں کو کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملا جس وجہ سے ان رضا کار فورس کو بھی کڑے چیلینج کا سامنا ہوگا اور حکومت کے لیے بھی اس منصوبے پر عمل درآمد مشکل ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp