ہتھنی کی موت کو ’فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے مسلمانوں کے ضلع پر الزام لگایا گیا‘


انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں بی جے پی رہنما مینکا گاندھی کے خلاف حاملہ ہاتھی کی موت کے معاملے میں قابل اعتراض تبصرہ کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان کے خلاف درج کی جانے والی ایف آئی آر میں کیرالہ کے ضلع ملاپورم کے لوگوں پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا الزام ہے۔

اس مقدمے کے چھ مدعیوں میں سے دو نے بی بی سی کو بتایا کہ ملاپورم کے بارے میں ان کا غلط بیان ضلع میں رہنے والے لوگوں کی توہین ہے۔ یہ بیان صرف اس لیے دیا گیا ہے کہ کیرالہ کے اس ضلع میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ہم گنیش کو پوجتے ہیں پھر ہاتھیوں پر ظلم بھی کرتے ہیں‘

ہتھنی جو تین دن تک دریا میں کھڑی موت کا انتظار کرتی رہی

وکیل سبھاش چندرن کے آر نے بی بی سی کے معاون صحافی عمران قریشی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ‘انھوں نے ملالہ پورم کے عوام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو فروغ دینے اور ضلع میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو خراب کرنے کے لیے ایک متعصبانہ بیان دیا ہے۔’

سبھاش چندرن نے یہ بھی کہا کہ مینکا گاندھی ملاپورم ضلع اور اس کے لوگوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں شامل تھیں۔ گذشتہ دنوں کیرالہ کے ضلع پلککڈ کے منناڑکڈ میں دھماکہ خیز انناس کھانے کے باعث ایک حاملہ ہاتھی ہلاک ہوگیا۔ تاہم کچھ لوگوں نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے اسے ضلع ملاپورم میں رونما ہونے والا واقعہ قرار دیا ہے۔

مینکا گاندھی

مینکا گاندھی بی جے پی کی اہم رہنما اور رکن پارلیمان ہیں۔ اس سے قبل وہ مرکز میں وزیر بھی تھیں

ایک اور ایف آئی آر درج کرانے والے ریاض مککولی نے کہا: ‘ملا پورم پورے ملک کے لیے ایک ماڈل ضلع ہے جہاں مسلمان، ہندو اور عیسائی فرقے کے تمام لوگ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں مسلم آبادی زیادہ ہے۔ انھوں نے یہ کہہ کر ضلع کے عوام کی توہین کی ہے کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔’

پولیس سپرنٹنڈنٹ عبدالکریم نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہمیں سات سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ہم نے آئی پی سی کی دفعہ 153 (اشتعال انگیز چیزیں کہہ کر امن کو خراب کرنے اور اشتعال بھڑکانے کی کوشش کرنے) کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔

خیال رہے کہ مینکا گاندھی اترپردیش کے سلطان پور انتخابی علاقے سے بی جے پی کی رکن پارلیمان ہیں اور وہ جانوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے جانی جاتی ہیں۔

کیرالہ میں حاملہ ہاتھی کی دردناک موت کے بعد سابق مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے جو الزامات لگائے انھیں لوگوں نے اور ہاتھی کے ماہرین اور مالکان نے ‘غلط’ قرار دیا ہے۔

https://twitter.com/Manekagandhibjp/status/1268217198624903169

دہلی میں نیوز ایجنسی اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے مینکا گاندھی نے ہتھنی کی موت کو قتل قرار دیا اور کہا کہ اس طرح کے واقعات کے لیے ملاپورم بدنام ہے۔

انھوں نے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘یہ بھارت کا ایک انتہائی پرتشدد ضلع ہے۔ مثال کے طور پر یہاں کی سڑکوں پر وہ لوگ زہر پھینک دیتے ہیں جس سے ایک جگہ میں 300 سے 400 پرندے یا بہت سے کتے مر جاتے ہیں۔’

مینکا گاندھی نے کہا: ‘لگ بھگ 600 ہاتھیوں کے پیروں کو توڑ کر یا مندروں میں بھوکا رکھ کر یا نجی مالکان کے ذریعہ غرقاب کر کے یا زنگ آلود کیلین کھلا کر مار دیے جاتے ہیں۔

دوسری طرف ہاتھی کے ماہر اور کیرل فارسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر پی ایس عیسیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ کیرالہ میں ‘گھریلو ہاتھیوں کی گنتی میں مجموعی طور پر 507 ہاتھی پائے گئے ہیں، جن میں سے 410 نر اور 97 مادہ ہیں۔ سنہ 2017 میں 17 ہاتھی، 2018 میں 34 اور 2019 میں 14 ہاتھی ہلاک ہوئے۔

دوسری جانب کیرالہ کے وزیر اعلی وجیین پینارائی نے کسی کا نام لیے بغیر غلط معلومات دیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا: ‘۔۔۔ ہمیں اس بات سے دکھ پہنچا ہے کہ بعض لوگوں نے اس سانحے کا نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ غلط معلومات اور آدھی ادھوری سچائی پر جھوٹ پھیلانا سچائی کا گلا گھونٹا ہے۔ بعض لوگوں نے تو اس میں تعصب کو بھی شامل کر دیا۔۔۔’

https://twitter.com/vijayanpinarayi/status/1268489435907121152

مینکا گاندھی کے بیان کے بعد لوگوں نے بڑے پیمانے پر مینکا گاندھی کو سوشل میڈیا پر ٹرول کیا ہے جبکہ بعض لوگوں نے اترپردیش کے جس علاقے سے وہ منتخب ہوئی ہیں یعنی سلطان پور اور ملاپورم میں جرائم کا موازنہ بھی کیا۔

انیب اینتھونی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘ہمیشہ قابل اعتماد جانوروں سے پیار کرنے والی مینکا گاندھی کے مطابق کیرالہ میں ہر سال 600 ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔ لیکن سچائی تو یہ ہے کہ گذشتہ پورے پانچ سال میں انڈیا بھر میں 373 ہاتھی مارے گئے ہیں۔

https://twitter.com/AneebAntony/status/1268547117871763456

سوشل میڈیا پر ہتھنی کی ہلاکت کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا یہاں تک کہ بعت سے نیوز چینل اور اہم صحافیوں نے یہ تک ٹویٹ کیا کہ اس معاملے میں دو مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور انھوں نے دو مسلمان نام بھی پیش کیے جبکہ کیرالہ پولیس نے ان کے دعووں کو مسترد کر دیا۔ بعض لوگوں نے اپنا ٹویٹ تو دیلیٹ کر دیا لیکن بعضے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp