جنوبی وزیرستان کی ترقی میں رکاوٹ کون؟


\"sheryar-mahsud\"

حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون الیون کے بعد جو خطہ سب سے زیادہ متاثرہوا، وہ فاٹا ہی ہے۔ اس پر آشوب دور میں انسان جانوروں کی طرح ذبح ہوئے، لیکن جس چیز کو کبھی بھلایا نہ جا سکے گا وہ یہ کہ ایک طبقہ اس اندوہناک ماحول میں آگے بڑھتا رہا اورترقی کرتا رہا۔ ترقی سب کا حق ہے لیکن ترقی ایسی ہو جس سے انسان یا علاقے کی فلاح ہو نہ کہ منفی، جس سے لوگوں کے حقوق سلب کیے جائیں، بہرحال اس پر آگے بات ہوگی۔

فاٹا میں وزیرستان ہی وہ علاقہ رہا جو دنیا میں دہشت کی علامت کہا جانے لگا۔ گزشتہ دس پندرہ سال میرے لئے کسی صدی سے کم نہیں کہ اس دوران جوانی کے وہ دن غموں کے حوالے ہوئے جو انسان کے سنہرے دن کہلاتے ہیں یہی کچھ میرے سینکڑوں ہم عمروں کے ساتھ ہوا، لیکن تاریخ کے اوراق میں ایسی اور اقوام بھی ملیں گی جو ایسے حالات کے شکار ہوئیں لیکن پھر سے ایسے ابھریں کہ دنیا میں ان کی کامیابیوں کا کوئی حساب نہیں۔ حکومت کی طرف سے محض دو تین ہفتے کا کہا جانے والا آپریشن راہ نجات اتنے عرصے پر مشتمل رہا کہ ایک نسل جوان ہو چکی ہے۔

میں ذاتی طورپر اپنے چھوٹے سے گاؤں میں بہت سے جوانوں کو نہیں پہچان پا رہا لیکن جیسے کہ میں ہمیشہ ایک بات پر زور دیتا آیا ہوں کہ اس علاقے میں کوئی بھی قوم، یانسل ہوتی تو اس کا یہی حشر ہونا تھا، اس پہ نہ تو کسی کو دوش دوں گا اور نہ ہی حقیقت سے آنکھیں چرانا اچھی بات ہوگی۔ یہ بھی سچ ہے کہ حکومت سے کافی غلطیاں ہوئیں لیکن ہمیں ایک بات سمجھنی ہوگی کہ یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا جا سکتا البتہ اپنے جمہوری حقوق کے لئے جمہوری طورپر آواز اٹھانے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔

\"waziristan-1\"

مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم حکومت کے اچھے اقدامات کو سراہنے میں کنجوسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، خصوصاً حالیہ ایک دو سال میں جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ بن چکا ہے وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ ترقی کے اس نئے دور کا کریڈیٹ پاک فوج کو دینا پڑے گا، کیونکہ ساٹھ سترسال سے پولیٹیکل ایجنٹ کے نظام نے ہمیں پتھر کے زمانے سے نکلنے نہ دیا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک محسود علاقے میں روڈ کے نام پر ایک کچی لکیر تھی جس کی وجہ سے بہت سے مریض ہسپتال پہنچتے پہنچتے فوت ہو جاتے۔ اپنے علاقے تک پہنچتے ہوئے آٹھ سے دس گھنٹے لگ جاتے، لیکن اللہ کے فضل سے آج آپ ٹانک سے مکین اور کانیگرم صرف دوگھنٹوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

اس وقت مکین ایک ماڈل سٹی کے نقشے پر بن رہا ہے۔ محسود علاقے میں پچانوے فیصد گاؤں میں پانی گھر کے دہلیز پر پہنچنے کا تصور بھی نہیں تھا لیکن اب قریباً تمام علاقوں میں، ہر گاؤں میں پانی کی سکیمیں چل رہی ہیں۔ بہت سی سکیمیں مکمل ہیں اور کچھ ہو رہی ہیں۔ جہاں کہیں سکیم کسی وجہ سے نہیں بن رہی وہ بھی پائپ لائن میں ہے اور امید رکھ سکتے ہیں کہ بہت جلد اس کی منظوری دی جائے گی اور اس پر کام بھی شروع ہوگا۔

\"waziristan-2\"

تعلیم کے حوالے سے بھی کافی کچھ ہورہا ہے، تین آرمی پبلک سکولز کی منظوری دی جا چکی ہیں اور تقریباً فنکشنل ہیں۔ دو کیڈیٹ کالج بن چکے ہیں جو اس علاقے کا مستقبل بدلنے کے لئے کافی ہونے چاہیے، لیکن یہ کیڈیٹ کالجز اس وقت تک بنیادی کردار ادا نہیں کر پائیں گے جب تک کہ مقامی بچوں کے لئے کوٹا مقرر نہ کیا جائے کیونکہ مقامی بچے اس معیار کے ایجوکیشن سے محروم ہیں کہ کیڈیٹ کالج کے داخلہ ٹیسٹ پاس کر سکے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی بچوں کے لئے کم از کم چالیس فیصد کا کوٹہ مقرر ہو۔

ابتداء میں ایک طبقے کی بات ہوئی ہے تو ذرا اس طرف آجائیں کہ جب پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن کمزور ہونا شروع ہوئی تو وہ خلا جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پر کر دیا اور وہ بھی اس انداز میں کہ ملکان کے گزشتہ ساٹھ سال بھلوا دیے۔ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ کے دوران حکومتی فنڈز میں بھی کافی اضافہ ہوا، خصوصاً سالانہ اے ڈی پی میں دو تین سو فیصد کا اضافہ ہوا لیکن اس اے ڈی پی سے ترقی علاقے کی بجائے اس طبقے کی ہوئی۔

تین چار سال سے میں ایک ہی عرض کرتا آرہا تھا کہ پاک فوج کو چاہیے کہ وہ اس رقم کو ہڑپ ہونے سے بچائیں تاکہ کچھ تو علاقے کی بہتری ہو، کچھ تو پیسہ عوام پر خرچ ہو، کہیں پہ تو مستحق علاقوں میں کام ہو، کہیں پہ تو اس علاقے میں روڈز بنیں، سکول بنیں، جہاں کے بچے ناخواندگی کی وجہ سے ایک ایسے شر کا ایندھن بن رہے ہیں جس کا انجام موت ہے۔ بالآخر اس سال ہماری دعائیں رنگ لے آئیں اور اے ڈی پی میں فوج کی طرف سے تمام وہ علاقے شامل کرائے گئے ہیں جن کو حقیقت میں ضرورت ہے۔

\"waziristan-4\"

لیکن جو اے ڈی پی جون میں مکمل ہو جانی تھی، اس کو اب تک فائنل نہ کیا جا سکا، کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایم این اے اور سینیٹر صاحبان کو یہ تقسیم منظور نہیں۔ وہ وہی پرانا حصہ چاہتے ہیں، وہ اسی طرح اپنے کارکن کی جیب بھرنا چاہتے ہیں حالانکہ فوج نے اس دفعہ بھی ان کی اس عادت کا کچھ نہ کچھ خیال رکھا ہے لیکن وہ تھوڑے پہ راضی نہیں۔ بہت سے لوگ مولانا ٖفضل الرحمن صاحب کے اس فیصلے پر حیران ہیں کہ انہوں نے نئے نظام کے خلاف جہاد کا اعلان کیوں کیا، کیوں وہ فاٹا کے لوگوں پر ایف سی آری نظام لاگو ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو جناب مجھے مولانا صاحب کی سوچ میں کوئی شک و شبہ نہیںآتا کہ وہ ہمیشہ وہی سیاست کریں گے جس میں ان کی جماعت کو فائدہ ہو گا، جہاں سے ان کو موٹے تازے لوگ ملیں گے۔

\"waziristan-3\"

میں چونکہ علاقے میں ایک مزدور کے طورپر بھی کام کر رہا ہوں لہذا حالیہ عرصے میں بہت کچھ دیکھنے کے بعد اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ علاقے میں کام ہو رہا ہے، کافی سارا کام ہو بھی چکا ہے اور مزید ہوگا بھی، لیکن خبردار ترقی کو ان لوگوں کی پہنچ سے دور رکھنا ہوگا۔ پشتو میں کہتے ہیں کہ، چے رختیہ رسیدل دروغو، کورونا وران کڑی وی۔ یعنی کہ جب سچ پہنچ رہا تھا تب تک جھوٹ گھروں کو دریا برد کرچکا تھا، اس لئے ان دوستوں کے لئے عرض ہے (جو اکثر میرے سامنے بھی ان خدشات کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں کہ علاقے میں کام کے نام پر کچھ نہیں ہو رہا) کہ سچ یہ ہے کہ بہترنہیں بہترین کام ہو رہا ہے اور جو لوگ مایوسیاں پھیلاتے ہیں وہ علاقے کی ترقی کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ ہاں کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں لوگوں کی شکائتیں ہیں لیکن امید رکھنی چاہیے کہ وقت کے ساتھ مزید بہتری آئے گی، لوگ خوش ہوں گے اپنے علاقوں میں، پھر نہ تو اسلحہ ہوگا اور نہ قتل اور نہ ہی یہ خوف ہوگا کہ سامنے بیٹھا بندوق بردار کسی وجہ سے مجھے قتل نہ کردیں۔ آنے والے دنوں میں مزید بہتری آئے گی اور انشاء اللہ آئندہ گرمیوں میں جب تمام علاقہ آباد ہوگا تو ایک نیا وزیرستان دیکھنے کو ملے گا۔

شیریار محسود


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments