بھارت کی چین سے سرحدی معاہدوں کی خلاف ورزی


قوموں کے تعلقات کی بنیاد ان کے نفسیاتی مطالعہ پر ہوتی ہے اگر کسی قوم کے یا کسی ملک کے رہنما اپنے ادا کیے گئے الفاظ کی حفاظت نہ کرسکے تو ایسی صورت میں ان سے سرحدی یا معاشی طور پر تعلق رکھنے والی اقوام ان کی ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور اپنے دفاع کا اور اپنے قومی مفادات کے تحفظ کا حق رکھتے ہیں۔ چین اور بھارت کے حالیہ تنازعات میں بھی اصل مسئلہ یہی ہے۔ بھارت اپنی سرحدوں پر فوجی نوعیت کی تعمیرات میں مصروف ہے اور ان تعمیرات کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں کہ ان کو نظر انداز کر دیا جائے۔

پاکستان کو تو بھارت سے ایک طویل تجربہ ہے اس لیے ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بھارت کی امن دوستی کے پیچھے درحقیقت توسیع پسندی یا کم از کم اپنے ہمسائے کو تنگ کرنے کی خواہش ضرور موجود ہوتی ہے۔ لیکن یہ صرف پاکستان ہی نہیں جانتا بلکہ چین بھی اس کا اب ایک طویل تجربہ رکھتا ہے اور جیسے ہی اس نے محسوس کیا کہ بھارت ایل اے سی کے اس پاس ایسی فوجی نوعیت کی تعمیرات کر رہا ہے جو کہ مستقل خطرہ بن سکتی ہے تو اس نے اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا دیا تاکہ بھارت کو اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جائے کہ اگر شرارت کی گئی تو اس کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔

اس صورتحال سے خطے کے دیگر ممالک ہی پریشان نہیں ہیں بلکہ ایک عالمی صورتحال ایسی موجود ہے کہ جس کی سبب سے سب چین اور بھارت کے اس کشیدگی کو بہت بغور دیکھ رہے ہیں اور کوئی ایسا نتیجہ جو کہ تصادم کی طرف جاتا ہو، کے خدشے سے بہت پریشان ہیں۔ چین بھارت کے حوالے سے اتنا چوکنا کیوں ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کی غرض سے ہمیں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا ہوگا۔

جب برصغیر پر برطانوی نوآبادیاتی حکومت تھی تو اس وقت برطانوی سرکار اور چینی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں سرحدوں کی ایک حد بندی کردی گئی تھی۔ اس معاہدے کو کنونشن آف کلکتہ کہا جاتا ہے اور یہ 1890 میں کیا گیا تھا اس معاہدے کے بعد اٹھارہ سو پچانوے تک تمام سرحدی معاملات کو طے کر لیا گیا تھا۔ جب برطانوی نوآبادیاتی راج اپنے اختتام کو پہنچا اور برصغیر آزاد ہو گیا تو اس کے بعد بھارت میں پنڈت جواہر لال نہرو برسر اقتدار آئے اور انہوں نے اپنی ”بے مثال ذہانت“ کے سبب سے ناصرف کے پاکستان سے سرحدی تنازعات کو پیدا کیا بلکہ دیگر ہمسائیوں کے ساتھ بھی ہر ممکن کوشش کی کہ بھارت کے سرحدی تنازع ضرور موجود ہوں اور چین کی ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔

چین کی کمیونسٹ قیادت نے انقلاب کے بعد سے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ چین امکانی حد تک اس بات کی کوشش کرے گا کہ وہ کسی بھی جگہ پر کسی بھی ملک کے ساتھ فوجی تصادم میں نہ الجھے۔ لہذا چین نے یہی طریقہ کار بھارت کے معاملے میں بھی اختیار کیا۔ جواہر لال نہرو کی حکومت کا طریقہ کار دوسرا تھا اور بھارت عملی طور پر آج تک اسی طریقے کار پر کاربند بھی نظر آتا ہے کہ آپ موقف کچھ بیان کریں اور عمل اس سے مکمل طور پر دوسری سمت میں کرے۔

یہی حکمت عملی بھارت نے چین کے معاملے میں بھی اپنائی۔ بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے چینی وزیر اعظم چو این لائی کو خط لکھا اور اس خط میں یہ تسلیم کیا کہ وہ 1890 میں کیے گئے کنوینشن آف کلکتہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ بیان کرتا چلوں کہ ان کے اس خط کی تعبیر بھی اب بھارتی دوسری طرح کرتے ہیں کہ وہ یہ کہہ رہے تھے، ان کا مطلب تو یہ تھا، وہ تو جواب دے رہے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس خط کے مندرجات ثابت کرتے ہیں کہ وہ چین کے دعوے کو تسلیم کر رہے تھے۔

مگر عملی طور پر بھارت اس وقت بھی کچھ اور ہی کر رہا تھا بھارت مستقل تبت کے معاملات میں مداخلت کر رہا تھا اور بدقسمتی سے آج بھی کر رہا ہے۔ بھارت کی اسی مداخلت کے سبب سے تبت میں ایک بدامنی کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی جو چین کے لئے ناقابل برداشت تھی اور اسی سبب سے چین بھارت جنگ ہو گئی۔ اس جنگ نے چین کو یہ احساس دلا دیا کہ بھارت اپنے الفاظ کا پاس نہیں کرتا لہذا قابل اعتبار نہیں ہے۔ اور اس وقت سے چین نے یہ سوچ لیا کہ بھارت کو اس بات کا احساس کروا دینا ہی سمجھداری ہوگی کہ وہ درست نہیں کر رہا ہے اور غلطی نتائج پیدا کرتی ہے۔

بھارت نے اس کے بعد بھی اپنی حرکتیں جاری رکھی اور اس نے سکم کی آزاد ریاست کو ایک ملٹری ایکشن کے ذریعے اپنے ساتھ زبردستی شامل کر لیا۔ سکم کی ریاست کو 1970 کی دہائی کے شروع تک بھارت ایک آزاد ملک تسلیم کرتا تھا مگر چھوٹی سی شاہی ریاست ہونے کے سبب سے اس میں یہ طاقت موجود نہیں تھی کہ وہ بھارت کی توسیع پسندی کا مقابلہ کر سکتی۔ بھارت نے جب سکم پر قبضہ کر لیا تو 1975 میں خود ہی ایک ریفرنڈم کا انعقاد کروا کر اس کو اپنے ساتھ باضابطہ طور پر شامل کر لیا۔

یہ علاقہ چین کا ہمسایہ ہے چین حیران رہ گیا کہ بھارت نے کیسے عالمی قوانین اور اپنے ساتھ کیے گئے ریاست سکم کے معاہدوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ 2003 تک چین سکم کے علاقے کو اپنی ہمسایہ آزاد ریاست کے طور پر دیکھتا تھا۔ ان تمام واقعات جس میں سانحہ مشرقی پاکستان میں بھارتی کردار بھی شامل ہیں نے بھارت کے حوالے سے خطے کی ایک نفسیات تشکیل دے دی ہے۔ چین بھی بھارت کو اسی نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ ناقابل اعتبار قوم ہے جب ڈوکلام میں 2017 میں چین انفراسٹرکچر تعمیر کر رہا تھا تو اس وقت بھوٹان کے نام پر بھارت نے اس علاقے میں فوجی مداخلت کردی اور اس فوجی مداخلت میں حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ علاقہ بھارت اور چین کے درمیان متنازعہ نہیں تھا مگر پھر بھی ایک تیسرے ملک بھوٹان کے نام پر بھارت آ دھمکا۔

اس مداخلت نے چین کو مکمل طور پر الرٹ کر دیا کہ اب بھارت کی جانب سے ایسی کسی کارروائی یا تعمیر کی سختی سے مخالفت کی جائے گی جس کا مقصد فوجی طاقت دکھانا ہو۔ اب بھارت اس وقت اپنے فوجی مسل مسلسل دکھا رہا تھا۔ اس کا ارادہ ہے کہ وہ سڑک کے ساتھ ساتھ جس میں متنازعہ علاقے میں بھی تعمیر شامل ہے میں بڑے پیمانے پر انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کرے اور اس کی تعمیر کے لئے آخری تاریخ 2022 ءتک مقرر کی گئی ہے۔ ڈوکلام کے مسئلے پر بھی چین نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا تھا مگر اس کے تحمل کو غلط معنی پہنائے گئے۔ اس لئے چین نے اب تحمل کے ساتھ ساتھ اپنی عسکری طاقت کا بھی مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ امن صرف امن چاہنے والوں کو ملتا ہے اور بھارت کی یہ خواہش ہے کہ امن کو وہ بازو پٹھے دکھا کر حاصل کرے جو چین کے لئے ناقابل قبول ہے۔ جھگڑا صرف بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments