اخبارات کے ایک مرحوم سٹال کی یاد میں


کچھ عرصہ پہلے مجھے معلوم ہوا تھا کہ صحافی دوست انور شیخ نے اپنا چھتیس سال پرانا اخبارات کا سٹال چھوڑ دیا ہے۔ یہ سٹال جی ٹی ایس چوک گجرات میں واقع عرب کیفے ہوٹل کے کارنر پر تھا۔ جسے 1982 ء میں انور شیخ کے والد شیخ غلام صابر نے پوسٹ آفس کی اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد لگانا شروع کیا تھا۔ انور اس وقت چھٹی یا ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ فارغ اوقات میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے والد کی اخبارات کے سٹال میں مدد کرتا رہا۔ بعدازاں کالج تک اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فل ٹائم سٹال پر بیٹھنے لگا۔

پتہ چلا کہ نئے مالک اخبارات کے سٹال اور اس سے ملحقہ ہوٹل کی جگہ پر اپنی مرضی کی آرائش کرنی چاہتے ہیں۔ دوسرا اخبارات کم بکنے کے باعث سٹال سے آمدنی نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ بدلتے ہوئے حالات اور کمزور پڑتے پرنٹ میڈیا کے باعث انور کو اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر اب نئے راستے تلاش کرنے ہیں۔

مجھے گزشتہ چھتیس سال سے زائد عرصہ پر محیط انور شیخ کے اخبارات کے سٹال کے بند ہونے کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ اس سٹال سے جڑی ماضی کی یادوں نے آن گھیرا۔ بہت سے چہرے یاد آئے جن میں سے کچھ تو وقت وقت کی دھول میں ادھر ادھر کھو گئے، بہت سے بچھڑ گئے اور بعض بیرون ممالک جا بسے۔ میں بھی 2000 ء میں امریکہ آ کر آباد ہو گیا۔

1990 ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری کے بعد اپنی بے روزگاری کے ابتدائی ایام اور بعدازاں اچھے گزرے وقت کی کتنی ہی حسین اور خوبصورت یادوں سے مہکتے شب و روز یاد آتے رہے۔

انور شیخ کی معیت میں اس جگہ پر گزرے وقت کی کتنی ہی ساعتیں یاد آئیں۔ من کچھ لمحوں کے لیے گہرے دکھ سے بھر گیا۔ پھر سوچا وقت کبھی ساکن نہیں رہتا۔ زندگی نے تو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ یہ تو انور شیخ کے اخبارات کا ایک سٹال تھا جو ڈھے گیا۔ چڑیوں کے گھونسلوں سے گرے بچے بھی بالآخر پل کر اور توانا ہو کر ہواؤں میں اڑان بھرتے اپنی اگلی منزلوں کی جانب نکل جاتے ہیں۔

میرے پیچھے گزشتہ بیس سالوں کے دوران سینئرز اور جونیئرز کو ملا کر بیس کے قریب صحافی ساتھی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان میں ایس اے منشی، شاویز ملک، راجہ طارق محمود، مشتاق ناصر، کرامت اللہ کپور، افتخار الحق تراب، چوہدری اصغر علی گھرال، وجاہت اعجاز، راحت ملک، خان محمد اختر وڑائچ، رمضان صائب، ایم زمان کھوکھر، سید مقدور شاہ، کاوش بٹ، ایم یوسف قریشی، شیخ محمد اقبال، جلیس الرحمن، افتخار بٹ، ریاض مفتی، عزیز احمد، منظور احمد منظور اور پرویز یاسر اللہ کو پیارے ہو گئے۔

جبکہ کئی ایک اپنے بہتر مستقبل کی خاطر بیرون ممالک میں جا بسے۔ جن میں ملک اخلاق احمد (بیلجیم) مجھ سمیت ندیم منظور سلہری، محمد شہباز، محمد صدیق ٹانڈہ، اسلام الرحمن، حنیف طاہر، سید زاہد شہباز، حسام الدین کرامت (امریکہ) قمر کاشمیری اور محبوب الہی بٹ بھی بہت عرصہ پہلے بالترتیب امریکہ اور انگلینڈ آ بسے تھے۔ مشتاق ناصر (انگلینڈ) ان کا گزشتہ دنوں ہی انتقال ہوا ہے۔ لیاقت علی شفقت (انگلینڈ) ارشد وحید چوہدری (ناروے ) اعجاز پیارا، عظمت حسین (جرمنی) ضیا سید (پرتگال) نصراللہ چوہدری (سپین) منصور بہزاد بٹ (کینیڈا) اور صاحبزادہ عتیق ( فرانس) نمایاں ہیں۔

1990 ء کی دہائی کے آغاز میں مجھے انور شیخ کو اس وقت زیادہ قریب سے جانچنے کا موقع ملا۔ جب اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک اخبار ”روزنامہ مرکز“ نے مجھے گجرات سے بیورو چیف اور انور شیخ کو میرے ساتھ ڈسٹرکٹ رپورٹر بنایا گیا۔ ان دنوں گجرات اخبار فروش یونین کے صدر محمد اکرم رانجھا کے پاس ”مرکز“ اخبار کی ایجنسی تھی۔ اکرم رانجھا کے ساتھ بھی بہت عرصہ محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رہا۔

اس دوران میرا اور انور شیخ کا چند سال صحافت کا مثالی ساتھ رہا۔ میں نے اسے حسد اور بغض سے کوسوں دور ایک بے ریا اور من کا اجلا انسان پایا۔ چھوٹی موٹی لغزشیں تو سبھی کرتے ہیں۔ کوئی بھی ان سے مبرا نہیں ہے۔

محمد انور شیخ کی زندگی مسلسل محنت اور لگن سے عبارت رہی ہے۔ انتہائی مخلص اور دھڑے باز انسان ہیں۔ آج بھی انور کے ساتھ ایک احترام اور عزت کا رشتہ برقرار ہے۔ جب کبھی اس سے بات ہوتی ہے آخر میں ایک بات ضرور کہتا ہے۔ پاء جی!

”ہور کوئی میرے لائق خدمت؟“

دیگر منجھے ہوئے صحافت کے شہسواروں کے ساتھ ساتھ مرحوم ایس اے منشی اور شاویز ملک کے ساتھ انور کی بڑی لمبی بیٹھکیں رہیں۔ جن سے اس نے خوب فیض پایا۔

انور شیخ کا جی ٹی ایس چوک میں دفتر نما سٹال جسے میں پیار سے ”ٹھیا“ کہتا تھا۔ شہر کے مرکز میں واقع یہ مقام بہت عرصے تک وہاں آتے جاتے ضلع گجرات کے صحافیوں کا ایک لحاظ سے نان آفیشل ”پریس کلب“ بنا رہا۔ انور وہاں آنے والے ہر شخص کو اچھے اخلاق کے ساتھ ساتھ موسم کے مطابق چائے یا بوتل کی دعوت ضرور دیتا تھا۔ اس کی اسی مہمان نوازی، اخلاص اور محبت نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا۔ جی ٹی ایس چوک میں اگرچہ دو بھائیوں حافظ صدیق اور فاروق کے علاوہ عاشق کے اخبارات و رسائل کے سٹال بھی تھے۔ مگر محل وقوع کے اعتبار سے اصل رونق انور شیخ کے ہاں ہی لگی رہتی۔

گجرات کی صحافت کے ”بابائے صحافت“ کہلائے جانے والے ایس۔ اے منشی اور دیگر کے ساتھ انور شیخ کے ہاں ہی میری نشستیں ہوتی رہیں۔

1990 ء کی دہائی میں گجرات سے نمائندہ بننے کے لیے مجھے خبر رساں ادارے ”این این آئی“ کی نمائندگی درکار تھی۔ مرکز اخبار جب بند ہو گیا تو میں انگریزی اخبار روزنامہ ”بزنس ریکارڈر“ کا گجرات میں نمائندہ بن گیا۔ باقی سارے اخبارات کے گجرات میں نمائندے موجود تھے۔ کسی کی نمائندگی چھڑوا کر اس کی جگہ لینے کو دل نہیں مانتا تھا۔ تقریباً سبھی سے اچھی نیاز مندی تھی۔

سوچا کہ ”ڈیلی بزنس ریکارڈر“ کے ساتھ ساتھ کسی نیوز ایجنسی کی نمائندگی حاصل کی جائے۔ پتہ چلا کہ گجرات میں پاکستان کی ساری نیوز ایجنسیوں کے نمائندے سینئر صحافی ایس۔ اے منشی ہیں۔

اسلام آباد میں ”این این آئی“ کے آفس میں میری جان پہچان انچارج نمائندگان اسلم خاں سے تھی۔ پھر انہی کی وساطت سے وہاں ایڈیٹر محمد طاہر خان سے تعارف ہوا۔ بہت ملنسار اور اجلی شخصیت کے آدمی ہیں خان صاحب۔ وہ جب این این آئی سے ”ثناء نیوز“ میں آئے تو ان کے پیچھے میں بھی ثناء نیوز میں آ گیا۔ وہاں بھی ان کے ساتھ بطور صحافی کافی عرصہ کا ساتھ رہا۔ وہیں معتدل مزاج کے کہنہ مشق صحافی اور درد دل رکھنے والے ثناء نیوز کے ایڈیٹر ان چیف شکیل احمد ترابی صاحب تعارف ہوا۔ پھر امریکہ آنے کے بعد بھی صحافت میں مثبت سوچ کی حامل ان دو شخصیات سے مسلسل رابطہ رہا۔

گجرات میں نمائندہ بننے کے لیے این این آئی کی ریکوائرمنٹ تھی کہ گجرات میں ہمارے پہلے سے موجود نمائندے ایس اے منشی سے این او سی لے آئیں تو انہیں مجھے نمائندہ بنانے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

انور شیخ سے ذکر کیا تو کہنے لگے کہ

”مسئلہ ای کوئی نیں، بلکہ آج ہی آپ کام ہو جائے گا۔ بس آپ کو ایک کام کرنا ہے کہ ابھی ساتھ والے عرب کیفے ہوٹل میں ایک کلو کڑاہی گوشت کا آرڈر دے آئیں۔ آج اکٹھے کھانا کھائیں گے۔ اور وہیں آپ کو“ این او سی ”مل جائے گا“ ۔

ٹھیک ایک گھنٹے بعد پروگرام کے مطابق انور شیخ، ایس اے منشی کے ہمراہ عرب کیفے میں آ گئے اور گرمجوشی سے ملے۔ کھانا کھانے کے بعد انور شیخ نے منشی صاحب کو ان کا پسندیدہ پان اور سگریٹ کا پیکٹ لا کر تھمایا۔ اور فوراً ہی اصل مدعا بیان کرنا شروع کر دیا کہ

”منشی صاحب آپ کے پاس چار پانچ خبر رساں ایجنسیوں کی نمائندگی ہے۔ اس میں سے ایک ایجنسی آپ کو چھوڑ کر اس کا نمائندہ اپنے دوست (طاہر چوہدری) کو بنانا ہے۔ میں پیپر لے کر آتا ہوں، آپ لکھ دیں کہ آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے“ ۔

منشی صاحب پان چباتے ہوئے زیر لب مسکرائے اور گہری نظروں سے مجھے اور انور کو دیکھتے ہوئے کہا کہ

” بابے نوں لنگر نال رجا کے چینگا کیرا پایا جے“ (بابے کو کھانے کے ساتھ سیر کر کے خوب گھیرا ڈالا گیا ہے )

خیر منشی صاحب نے انور شیخ کی بات کی لاج رکھی اور کمال مہربانی کی اور بغیر کسی رد و کد کے وہیں بیٹھے بیٹھے مطلوبہ عبارت لکھ کر نیچے دستخط کیے اور مہر لگا کر پیپر میرے حوالے کر دیا۔ میرا کام ہو گیا۔ میں اور انور اس دلچسپ ”واردات“ کا تذکرہ کر کے بہت عرصے تک لطف اندوز ہوتے رہے۔

کیا باکمال اور صحافیوں کی نایاب ہوتی نسل کے اخبار نویس تھے صغیر احمد منشی صاحب۔ جو ایس۔ اے منشی کے نام سے مشہور ہوئے۔ صحافت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہی۔ صحافت سے انہوں نے کچھ نہیں کمایا۔ منشی صاحب کے روزانہ کے سگریٹ پان کا خرچہ اپنی خوشی سے انور شیخ نے اپنے ذمے لیا ہوا تھا۔ وہ گجرات کے نواحی قصبے جلالپور جٹاں سے روزانہ سیدھے ایس پی آفس جاتے وہاں سے اہم خبریں حاصل کر کے سیدھے انور شیخ کے ہاں آتے۔ وہیں پیچھے بیٹھ کر خبریں لکھتے۔ اور پھر نزدیکی تار گھر سے انہیں اخبارات کے دفاتر بھجواتے۔ سال ہا سال ان کا یہی معمول رہا۔ ارد گرد ہوٹل اور چائے والوں سے ان کا ادھار کھاتا چلتا رہتا۔ تاہم مہینے کے آخر میں اکثر ہوٹل والے منشی صاحب کے صحافتی قد کاٹھ اور ان کی اچھی شہرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان پیسے نہیں لیتے تھے۔

انتہائی سفید پوش تھے۔ اکثر موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے کے پیسے بعض بے تکلف دوستوں سے مانگ لیتے۔ البتہ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ان کی اچھی بنتی تھی۔ سابق ایس ایس پی گجرات ملک اقبال سے کہہ کر انہوں نے پولیس میں اپنے ایک صاحبزادے اور ایک بھتیجے کو بھی بھرتی کروایا تھا۔ ان کا بیٹا آج کل شاید اے ایس آئی ہے۔

انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں خبر نگاری میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ میں اکثر جی ٹی ایس چوک گجرات میں کیفے عرب ہوٹل کے کارنر پر قائم صحافی دوست انور شیخ کے نیوز سٹینڈ پر بیٹھے دیکھ کر انہیں ”صحافت کا منشی“ کہا کرتا تھا۔ خبر نگاری کے حوالے سے ان کی دو چیزیں میرے لیے متاثر کن تھیں۔ اردو اور انگریزی میں ان کی یکساں مہارت، خصوصاً ”پکی تحریر“ کے وہ ماسٹر تھے۔ اور دوسرا ایک بار جب وہ خبر لکھنی شروع کر دیتے تو اس دوران نہ وہ کسی سے بات کرتے اور نہ سر اوپر اٹھاتے تھے جب تک خبر مکمل نہیں ہو جاتی تھی۔ چند سال پہلے منشی صاحب ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے۔

انور شیخ کے والد شیخ غلام صابر مرحوم نہایت شریف النفس انسان تھے۔ تاہم بیٹے کے مقابلے میں طبیعت کے تھوڑے کڑوے تھے۔ اخبارات کے سٹال کے سامنے چاہے کوئی کتنی دیر بھی کھڑا اگر اخبارات کی سرخیاں وغیرہ پڑھتا رہتا تو وہ معترض نہ ہوتے۔ جونہی پڑھنے والا اخبار کو پکڑ کر اس کو الٹنا پلٹنا شروع کرتا، پہلے تو اسے وارننگ کے طور پر ”گھوری“ ڈالتے۔ اخبار میں مگن قاری اگر ان کی جانب متوجہ نہ ہوتا تو کچھ توقف کے بعد گویا ہوتے۔

”ہاں بھئی اخبار خریدنا ہے کیا؟“ نہیں تو اخبارات کی ”استری“ خراب نہ کرو ”۔

جب انور سٹال پر موجود ہوتا تو اس کے واقف کاروں، مفت بروں اور صحافی دوستوں کا وہاں جمگھٹا لگا رہتا۔ بہت عرصہ ہمیں بھی انور کی ایسی صحبتوں کے مواقع میسر آئے۔ جب کبھی ان کے والد محترم کو آتے دیکھتے تو ایک ایک کر کے سب کھسکنے لگتے۔ وہ خود چونکہ اپنی زندگی میں بہت محنتی اور خوددار تھے۔ اپنے بیٹے انور سے انہیں گلہ رہتا کہ وہ دلجمعی سے کام نہیں کرتا۔ اپنے ارد گرد ایسے ویلے یار دوستوں کا مجمع لگائے رکھتا ہے۔ بعض اوقات انور کے بڑے بھائی شیخ غلام سرور بھی جو مقامی جنرل پوسٹ آفس میں سروس کرتے تھے، سٹال پر بیٹھے دکھائی دے جاتے۔

تاہم فل ٹائم انور شیخ کا اوڑھنا بچھونا یہی اخبارات کا سٹال تھا۔ بعدازاں اس نے وہاں پی سی او بھی لگا لیا۔ اور فیکس وغیرہ کی سہولت بھی مہیا ہو گئی۔ انور کو جو بھی خبر ملتی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے بناتا اور اخبارات کے دفاتر فیکس کر دیتا۔ مقامی اخبارات ”جذبہ“ اور اس کے بانی و مینیجنگ ایڈیٹر مرحوم راجہ طارق محمود کے ساتھ اس کی طویل رفاقت رہی۔ روز نامہ ”ڈاک“ کے ساتھ بھی منسک رہا۔ پھر قومی روزنامہ مرکز اسلام آباد، روز نامہ نئی بات لاہور اور اپنا چینل کا گجرات میں ڈسٹرکٹ رپورٹر رہا۔ کچھ عرصہ بطور چیف ایڈیٹر اپنا روز نامہ ”گجرات پوسٹ“ بھی شائع کیا۔ آج کل روزنامہ ”نیا انداز“ کے نام سے گجرات سے اپنا اخبار نکالتے ہیں۔

انور شیخ نے اپنے سینئر صحافی دوستوں اور اپنے ہاں ہوئی انہی مجلسوں سے صحافت کے اسرار و رموز پر دسترس حاصل کی۔ وہ گجرات پریس کلب کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔

انور شیخ ایک روشن خیال، جرات مند، اور سیلف میڈ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ گجرات میں صحافت کا میٹھا چشمہ ہے۔

انور شیخ کا کہنا ہے کہ ”وہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ ایک متوازن انداز سے صحافت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گجرات میں جتنی لوگوں کے پاس دولت زیادہ ہے اتنی ہی یہاں صحافت کرنی مشکل ہے۔ صحافت میں چاپلوسی اور خوشامد کا کلچر بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ تنقید لوگوں کے مزاج پر گراں گزرتی ہے۔ اور برداشت کا لیول بہت نیچے چلا گیا ہے“ ۔

انہوں نے مزید کہا کہ کہ ”صحافت میں کسی پر جائز تنقید بھی کریں تو وہ اسے ذاتی دشمنی سے تعبیر کر لیتا ہے۔ پھر با اثر افراد کی سفارشیں آنے لگتی ہیں۔ صرف گجرات شہر میں ایک ہزار کے قریب چھوٹے بڑے صحافی ہیں۔ کارآمد صحافت صرف چند لوگ ہی کرتے ہیں۔ زیادہ تر شہر کے با اثر افراد، سیاست دانوں اور سرکاری افسران سے مراعات لینے اور ان کے آگے نمبر بنانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ آپس میں حسد بغض اور نا اتفاقی بہت زیادہ ہے۔ سرکاری افسران کے لیے گجرات تعیناتی سونے کی چڑیا کے مترادف ہے۔ وہ کھل کر کھیلتے ہیں اور خوب مال بناتے ہیں“ ۔

آج کل صرف گجرات شہر سے ہی کم و بیش ایک درجن کے قریب رنگین مقامی روز نامے شائع ہوتے ہیں جن میں انور شیخ کا ”نیا انداز“ بھی شامل ہے۔ ان سارے اخبارات کے متن اور خبروں کے انداز پر تحفظات کے باوجود میرا یہ ماننا ہے کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود مقامی طور شائع ہونے والے یہ اخبارات پرنٹ صحافت کے دم توڑتے اس دو میں کسی حد تک عوام کو آگاہی اور صحافت کی تھوڑی بہت خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ کاش جتنے آج کے اخبارات رنگین ہیں۔ ان کی صحافت کے معیار میں بھی تھوڑا بہت صحافتی رنگ ہوتا۔

اپنے دوست انور شیخ کا 36 سال پرانا اخبارات کا سٹال اب گزشتہ کئی ماہ سے مرحوم ہو چکا ہے۔ جو شہر میں میری سال ہا سال پسندیدہ جگہ رہا ہے۔ اس کے بند ہونے کا مجھے دکھ ہے۔ شہر میں چند جو اور سٹال رہ گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کی بھی عمر اب تھوڑی ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا کے سیلاب کی طرح بڑھتے ہوئے پھیلاؤ، اخبارات و جرائد کے آن لائن ایڈیشنز، ڈیجیٹل جرنلزم اور سمارٹ فونوں نے دینا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ تاہم دوسری جانب اب یہی انقلاب بڑی تیزی سے پرنٹ میڈیا کی موت کا سبب بھی بن رہا ہے۔ اور انور شیخ کے سٹال کی طرح اب اور بہت سے سٹال بند ہوتے چلے جائیں گے۔ وہ وقت دور نہیں جب پوری اخباری صنعت، اس سے وابستہ صحافیوں، کارکنوں، اور اخبارات فروخت کرنے والے ہاکروں سمیت لاکھوں افراد کا روزگار اور مستقبل داؤ پر لگا ہو گا۔

انور شیخ سمیت پرنٹ صحافت سے وابستہ ایسے تمام افراد کو بدلتے ہوئے صحافتی حالات کے پیش نظر ابھی سے اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔

تصاویر
1: انور شیخ انور مسعود کے ہمراہ
2:انور شیخ
3: ایس۔ اے منشی
4: انور شیخ کے اخبارات کے سٹال کی جگہ
5 شیخ غلام صابر) بانی سٹال )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments