کوٹ مراد کا جناور اور پنڈی کے توتے


شعور کے ننھے منے بیج کو علم کے سمندر سے پانی میسر رہے تو بیج نمو پا کر درخت بن جاتا ہے اور شعور کی منازل طے کرتے ذہن میں سوالات و فکر کا ایسا شور بپا ہوتا ہے کہ انسان پہچان نہیں پاتا کہ کون سی آواز کس کی ہے لیکن علم کی آبیاری ہو تو انسان سب سے پہلے اپنے ضمیر کی آواز سنتا ہے۔ بقول ہمارے ایک عم زاد کے ضمیر وہ درندہ ہے جو سب سے پہلے صاحب ضمیر کو نوچتا کھسوٹتا ہے پھر دوسروں کو اپنے سوالات اور فکر سے جھنجھوڑتا ہے۔

ہم عقائد و نظریات کے پرچار میں جنم لینے والے بچے تھے، ہمارے بچپن میں پڑوسی ملک سے آنے والے پناہ گزین بچے ملک کے گلی کوچوں میں منڈلانے لگے، برہنہ پا، سوکھے ہونٹوں، رنگین یاسیت زدہ آنکھوں والے بچوں اور عورتوں کو دیکھ کر ہم نے یہ جانا کہ جنگ ہولناک مناظر، بھوک، موت اور اپنی زمین سے دربدری کا نام ہے۔ اپنے جیسے بچوں کو کچرا چنتے، بھیک مانگتے، جوتے پالش کرتے دیکھنا ایک درد ناک المیہ ہے جو ہم نے جھیلا ہے لیکن ہمارے بڑوں نے سمجھایا کہ یہ جنگ کی وجہ سے ہوا ہے اور مسلمانوں کے دشمنوں نے ایسا کیا ہے لیکن ہمارے نظریے پر ضرب لگ چکی تھی ہم نے بالغانہ شعور کے ساتھ بڑوں کے لاگو کیے گئے فیصلوں کو رد کر دیا اور ووٹ اپنے بزرگو کی جماعت کے بجائے اس جماعت کو دیا، جس کے منشور میں انسانیت کے بنیادی حقوق کی بات کی گئی تھی تاکہ انسانیت کی کوئی رمق تو زمین پر باقی رہے۔

تیس سال گزر گئے، ووٹ ضائع گئے۔ تین دہائیوں میں ملک میں ایسے ایسے واقعات ہو گئے کہ ہم حیرت سے کبھی آسمان کو دیکھتے ہیں اور کبھی زمین کو اور کہنے والے کہتے ہیں اپنے اعمال کو دیکھئے، لیکن ہمارے اعمال تو بہ حیثیت مجموعی اتنے برے بھی نہیں ہیں، ملک کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ خالصتاً عوام کے دیے چندے و خیرات پر چلتا ہے، ہر انفرادی و اجتماعی حادثے و سانحے پر ادارے کی ایمبولینسز و رضاکار پہنچ جاتے ہیں اور اپنی ذمہ داری خلوص سے انجام دیتے ہیں، سرکاری عہدے داران تو صرف تصاویر بنواتے ہیں اور تعزیتی بیان دے دیتے ہیں۔

ہم منحوس مارے دعائیں کرتے رہ جاتے ہیں ہم قسمت کے ماروں کے پاس اپنے بچوں کے سوالات کا جواب نہیں ہے تیس سال پہلے کے رمضان المبارک میں ایک افغانی بچہ ہمارے گھر کے دروازے پر عین افطار کے وقت بھوکا کھڑا تھا، اس وقت جنگ کا جواز ہمارے پاس تھا۔ اس سال بھی عین وقت افطار ایک دبلا پتلا سرائیکی بچہ دروازہ بجاتا ہے، بھتیجے نے وہی سوال پوچھا جو ہم پوچھتے تھے کہ ان بچوں کے ماں باپ نہیں یہ کیوں اکیلے گھر سے نکل کر دوسروں سے کھانا مانگتے ہیں؟ ہمارے پاس جواب کہاں کہ ہم تو خود ذہنی، جذباتی و نفسیاتی استحصال کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔

مسائل و مصائب کے بحر بیکراں میں ہمارے اجتماعی غیر انسانی رویے تکلیف دہ ہیں۔ جن کی ضرب پورے سماج کو مجروح کرتی ہے۔

مستنصر حسین تارڑ صاحب کے افسانے ” کوٹ مراد“ کا کردار ”کھانوں“ جس کا اصل نام چوہدری خان محمد تھا لاہور شہر مزدوری کرنے آیا، جہاں کی مسجد کے پاک و صاف نمازی صف بندی کے دوران کھانوں سے دور ہو جاتے تھے، پڑھا لکھا ٹھیکے دار اس مزدور سے الجھن محسوس کرتا تھا، دوسرے مزدور اس سے صرف گدھوں کی طرح کام۔ لیتے تھے۔ کھانوں کبھی کبھی چڑیا گھر کے جانوروں کو دیکھنے وہاں جایا کرتا تھا۔

ایک دن چڑیا گھر کے اعلی افسران جو چڑیا گھر میں عوام کی عدم دلچسپی سے پریشان تھے، اور اس کا سد باب کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی حل ان کے ٹھس اذہان میں نہ تھا، کہ ایک افسر کے شاطر دماغ میں کھانوں کو دیکھ کر ایک مضحکہ خیر جانور کا خیال آ گیا اور اس نے معصوم کھانوں کو تیس روپے روز کے عوض چڑیا گھر میں روز آنے اور گھومنے پر راضی کر لیا۔ رزق حلال کمانے والے کھانوں نے یہ پیشکش منظور کرلی کہ یہ کام مزدوری کی نسبت آسان تھا، چند دن کے بعد کھانوں کو پنجرے میں منتقل کر دیا گیا کہ ایک امیر زادی نے انتظامیہ کو شکایت کی کہ میرے بچے اس ڈراؤنی صورت کے آدم زاد کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں۔

کھانوں نے بہت بے بسی سے افسر سے کہا ”میں کوئی جناور تو نہیں“ جو آپ مجھے پنجرے میں بند کر رہے ہیں لیکن افسر نے اسے تسلی دی۔ جھوٹی دوستی کا دعوی کیا اور اسے راضی کر لیا۔ لیکن صرف اسی پر بس نہ ہوا، کھانوں کے ساتھ چڑیا گھر میں جو کچھ ہوا، وہ انسانیت کی تذلیل اور ہمارے اخلاقی معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ایک انسان پنجرے میں بعد ازاں آہنی زنجیروں میں اپنی ہی غلاظت میں لت پت آخر کیوں قید ہے، لوگ اپنے بچے بہلانے کے لئے کھانوں کے بدبودار پنجرے کے پاس کھڑے ہوتے رہے، نمازی کھانوں صرف ایک پلید جناور بن کر رہ گیا اور یہ دھوکا اس سے ساتھ رزق حلال کے نام پر کیا گیا۔

لاہور کے چڑیا گھر کے متعلق رخسانہ احمد اپنے ایک افسانے ”چوکیدار کی بیوی“ میں بھوک کی ایسی داستان بیان کرتی ہیں جس نے ہمارے زرخیز خطے میں انگریز کی آمد کے بعد جنم لیا، اور جنم جنم کی یہ بھوک اس زمین پر ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئی ہے، کہ سر سبز کھلیانوں پر جاگیردار سائیں، وڈیرے سائیں، مخدوم صاحب کا قبضہ ہے۔

افسانے کی کردار انیتا جو چڑیا گھر کے جانوروں کی خوراک کی نگرانی پر مامور ہے اور بڑی دیانت داری سے اپنی ذمہ داری انجام دیتی ہے، ایک دن ہیرا نامی چیتے کے پنجرے سے ایک عورت کو گوشت کے پارچے چراتے ہوئے دیکھتی ہے، دولت مند گھرانے سے تعلق رکھنے والی حیرت کی شدت سے گنگ رہ جاتی ہے کہ اس کے ذہن میں کبھی یہ سوچ نہ آ سکتی تھی کہ کسی جانور کی خوراک کوئی کیسے چرا سکتا ہے وہ بھی ایک عورت۔ دوسرے ملازم کے ذریعے انیتا اس عورت کے بارے میں تحقیق کرواتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ چڑیا گھر کے ایک چوکیدار کی بیوی ہے، انیتا اس کو اپنے سامنے حاضر کرنے کا حکم دیتی ہے، چوکیدار کی بیوی اپنی چوری کا جواز یوں دیتی ہے ”میڈم ہیرا ایک درندہ ہے مگر اس کے اندر ایک ولی کی روح ہے، ہیرا کو معلوم ہے کہ میرے بچوں کو اکثر بھوکا ہی سونا پڑتا ہے چناں چہ اس نے مجھے اجازت دی ہوئی ہے کہ میں اس کی خوراک کے گوشت کے کچھ حصہ اپنے بچوں کے لئے لے لوں“ انیتا ششدر رہ جاتی ہے۔

وہ سختی سے اسے آئندہ ایسا نہ کرنے کی تنبیہ کرتی ہے۔

شام کو گھر واپسی کے بعد انیتا ایک بار بی کیو پارٹی میں شریک ہوتی ہے اور اس پر انکشاف ہو تا ہے اس بھوک کا، استحصال کا جو وہ دیکھ کر آئی تھی، افسانہ اجتماعی بے حسی و رویوں سے شروع ہو کر خانگی زندگی کے برتاؤ پر ختم ہوتا ہے۔ افسانہ خطے میں رائج بے انصاف زندگی کی تصویر ہے۔ ( کتاب ”عورت کتھا“ میں یہ افسانہ موجود ہے )

رحمان نشاط اپنے افسانے ”انکرار“ میں پالتو کتے سیزر کے ذریعے ہمیں آزادی اور انصاف کی بابت بتاتے ہیں لیکن ہم نہیں سمجھ پاتے کیونکہ ہم مرعوب ذہنیت کے غلام ابن غلام انسان ہیں۔

ہم حق بات کہنے اور لکھنے والے کو کرائے کا مصنف کہتے ہیں۔ خبر نویس کو ہم غدار کہتے ہیں، بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے سوشل میڈیا پیج پر ہمارے لوگ کمنٹ کرتے ہیں، کہ تم بری خبریں بتا رہے ہو تم مسلمانو کے دشمن ہو۔ خبر رساں ادارہ خبر دے رہا ہے جو آپ کے ملک میں ہوا ہے، اس کے متعلق خبر، اس میں خبر نویس یا ادارے کا تو کوئی قصور نہیں۔ بین الاقوامی ادارے ہر ملک کی خبر اپنے اخبار، اپنے ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پیج پر دیتے ہیں۔

ہم بے انصافی کی دلدل میں دن بہ دن دھنستے جا رہے ہیں، ہم اپنے بچے کھا رہے ہیں۔ خبر آئی کہ ملک کے پوش علاقے، دار الحکومت کے پڑوسی شہر پنڈی میں غلطی سے توتے کا پنجرہ کھولنے پر آٹھ سالہ گھریلو ملازمہ کو تشدد کر کے مار دیا گیا، یہ کوئی پہلی خبر نہیں ہے ملک کے طول و ارض سے ایسی خبریں تواتر سے آتی ہیں۔ فی الوقت تو ملزمان گرفتار ہیں۔

دیکھیے کب تک گرفتار رہیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ایسی خبریں سن کر ڈپریشن کا شکار ہوتے رہیں گے؟

کب تک غریب بچے مالداروں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہیں گے۔ آخر کب ظالم کے لئے قانونی سزا متعین کی جائے گی۔ کب تک زرعی ملک میں بھوک رائج رہے گی؟

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خطہ پنجاب کا رویہ استحصالی و غیر انسانی ہے۔ زیادہ تر ظالمانہ واقعات وہیں سے جنم لیتے ہیں۔ گو کہ ذاتی طور پر ایسا نہیں سمجھتی، کثرت آبادی، محدود وسائل اور بہت ساری سماجی وجوہات ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے۔ فی الوقت تحریر طویل ہو رہی ہے۔ درخواست یہ ہے کہ ظلم، استحصال اور نا انصافی کے سد باب کے لئے دانشوروں، اہل قلم اساتذہ اور نوجوانو کو ٹھوس اور عملی قدم اٹھانا ہو گا کہ زیادہ پڑھے لکھے، باشعور افراد بھی تو خطہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments