کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا (قسط 7)


ہم نے جارج کا لحاف کھینچ کے ایک طرف پھینکا اور اس کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کے اس کو بستر سے اٹھا کے فرش پہ کھڑا کر دیا۔ دیپک نے کہا، ”جاگ جا میرے پیارے چرسی، تم نے ہمیں ساڑھے چھے بجے جگانا تھا، اور اب دس بجنے والے ہیں۔“ جارج نے دوبارہ بستر میں گھسنے کی کوشش کی لیکن ہم نے اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی۔ چند لمحے ٹھنڈے فرش پہ ننگے پاؤں کھڑے رہ کے نیند کا خمار اترا تو اس نے بغیر کسی خفت کے ہمیں ڈانتے ہوئے کہا، ”حد ہے۔ اتنی دیر کردی۔ ۔ ۔ تم لوگ بھنگ پی کے سوئے تھے؟ فوراً ناشتہ کرو اور نکلو“ ۔

ہم جلدی جلدی تیار ہو کے ناشتے کی میز پہ بیٹھے تو دیپک نے اخبار اٹھا لیا اور چن چن کے ہمیں کشتیوں کے حادثات اور ان میں ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں سنانے لگا جس سے ناشتے کا لطف دوبالا ہوگیا۔ جارج نے اخبار اس سے چھین کے موسم کا حال دیکھا تو معلوم ہوا کہ اگلے چند روز میں قیامت کے علاوہ ہر ممکنہ مصیبت کی توقع ہے، یعنی دوپہر کے بعد تیز جھکڑ چلیں گے، شام کو گرج چمک کے ساتھ بارش یقینی ہے اور رات کو ژالہ باری بھی ہو سکتی ہے۔ چونکہ موسم ہمیشہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کے الٹ چلتا ہے اس لئے یہ رپورٹ پڑھ کے ہمیں اطمینان ہو گیا کہ آنے والے دنوں میں شاندار دھوپ نکلے گی اور موسم نہایت خوشگوار رہے گا۔

ناشتے سے فارغ ہوکے ہم نے سامان اٹھایا اور باہر نکل کے بگھی کا انتظار کرنے لگے۔ سارا سامان ایک جگہ اکٹھا ہوا تو حیرت ہوئی کہ اتنا سب کچھ ہم نے کیسے جمع کر لیا۔ ہمارے سامان میں ایک بڑا سوٹ کیس، چند چھوٹے بیگ، خیمہ، دو ٹوکرے، پانچ چھتریاں، چار اوور کوٹ اور ایک جالی دار تھیلا تھا جس میں سے ایک بڑا سا تربوز جھانک رہا تھا۔ اس کے علاوہ دیپک کے ہاتھ میں کاغذ میں لپٹا ہوا ایک فرائنگ پین تھا، جس کا ہینڈل اتنا لمبا تھا کہ وہ کسی بیگ میں نہ سما سکا۔ یہ سب کچھ دیکھ کے نہ جانے کیوں ہمیں کچھ شرمندگی سی ہونے لگی حالانکہ بظاہر اس میں شرمندہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

تھوڑی دیر میں ہمارے ارد گرد محلے کے آوارہ لڑکے اکٹھے ہونے لگے۔ سب سے پہلے سڑک کے کونے پہ جیکسن نمودار ہوا جو بہت جلدی میں تھا اور کہیں بھاگتا ہوا جا رہا تھا۔ لیکن ہم پہ نظر پڑتے ہی اس کی رفتار دھیمی ہو گئی اور پھر وہ ہمارے پاس آکے دیوار سے ٹیک لگا کے یوں لاپرواہی سے ایک تنکا چبانے لگا جیسے وہ گھر سے اسی مقصد کے لیے نکلا تھا۔ اس کے بعد سبزی والوں کا لڑکا گزرا جس کو جیکسن نے ہماری طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ لوگ گھر چھوڑ کے جا رہے ہیں۔

پھر ان کے تین چار اور دوست جمع ہو گئے اور ہمارے بارے میں یوں باتیں کرنے لگے جیسے ہم وہاں موجود ہی نہ ہوں۔ اتنے سارے لوگوں اور سامان کو دیکھ کے اب ہر راہ گیر یہ دیکھنے کے لیے رکنے لگا کہ یہاں کیا ہورہا ہے اور اچھا خاصا مجمع اکٹھا ہوگیا۔ لوگوں کی جو باتیں ہمارے کانوں تک پہنچ رہی تھیں ان سے اندازہ ہوا کہ تماشیوں کے دو گروپ بن چکے ہیں۔ ایک گروپ کا خیال تھا کہ ہم دیپک کی شادی پہ جا رہے ہیں جبکہ دوسرے کا گمان تھا کہ ہم میں سے کسی کا کوئی قریبی عزیز فوت ہوگیا ہے اور ہم اس کے جنازے پہ جا رہے ہیں۔ ہم بے چینی سے بگھی کا انتظار کر رہے تھے لیکن دور دور تک کوئی سواری نہ تھی۔

بگھی والا معمہ میں آج تک حل نہیں کر سکا اور اس کے بارے میں جتنا بھی سوچوں، جادو کے علاوہ اس کی کوئی اور توجیہہ ممکن نہیں لگتی۔ جب مجھے سواری کی ضرورت نہیں ہوتی تو ہمارے گھر کے سامنے سے ہر دس سیکنڈ کے بعد کوئی نہ کوئی خالی بگھی ضرور گزرتی ہے۔ بسا اوقات تو بگھیوں کی اتنی لمبی قطار ہوتی ہے کہ سڑک پار کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن جونہی مجھے سواری کی ضرورت پڑے، نہ جانے کیسے پورے لندن کے بگھی والے اچانک ہڑتال پہ چلے جاتے ہیں اور سڑک ویران ہوجاتی ہے۔

اگر بھولے سے کوئی بگھی اس طرف آ بھی نکلے تو وہ خالی نہیں ہوتی۔ اس روز بھی یہی ہوا۔ جتنی ہمیں اس سرکس سے جان چھڑانے کی جلدی تھی، اتنی ہی تاخیر سواری ملنے میں ہو رہی تھی۔ خدا خدا کرکے ایک کھٹارہ سی بگھی ملی تو ہم نے سکھ کا سانس لیا اور جلدی جلدی سامان لداؤ کے اس میں سوار ہوگئے۔ بگھی چلی تو ایک جانب جیکسن اور اس کا گینگ اور دوسری جانب گلی کے کتے کافی دور تک ہمیں باعزت طریقے سے رخصت کرنے کے لیے بگھی کے ساتھ ساتھ بھاگتے رہے۔

ہم دوپہر بارہ بجے واٹرلو ریلوے اسٹیشن پہنچے اور ریلوے کے ایک اہلکار سے پوچھا کہ کنگسٹن جانے والی ٹرین کس پلیٹ فارم سے روانہ ہوگی۔ حسب توقع اسے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ واٹرلو اسٹیشن کا کمال یہ ہے کہ وہاں کسی بھی ٹرین کے بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ جو قلی ہمارا سامان لے کے چل رہا تھا، اس کا خیال تھا کہ ہماری ٹرین پلیٹ فارم نمبر دو سے جائے گی۔ لیکن اسے مخالف سمت سے آنے والے ایک اور قلی نے بتایا کہ ہماری مطلوبہ ٹرین تین نمبر پلیٹ فارم پہ کھڑی ہے جبکہ اسٹیشن ماسٹر کو یقین تھا کہ وہ ایک نمبر پلیٹ فارم سے روانہ ہوگی۔

ہم چالیس سیڑھیاں چڑھ کے دوسری منزل پہ ٹریفک کنٹرولر کے دفتر پہنچے تو اس نے اپنے ریکارڈ کا جائزہ لے کے بتایا کہ دو روز قبل تو کنگسٹن والی گاڑی ایک نمبر پلیٹ فارم سے گئی تھی لیکن آج کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس کے دفتر سے نکلے تو ایک پولیس والے نے بتایا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے ہماری ٹرین کو چار نمبر پلیٹ فارم پہ کھڑے دیکھا ہے۔ چار نمبر پلیٹ فارم پہ پہنچے تو وہاں سچ مچ کی ایک ٹرین کھڑی ہوئی تھی۔

اس ٹرین کے ڈرائیور سے بات کی تو اس نے کہا کہ فی الحال اسے کسی نے کچھ نہیں بتایا کہ یہ ٹرین کہاں جائے گی۔ ہم نے اس کی ہتھیلی پہ ایک پاونڈ کا نوٹ رکھا تو اس بھلے مانس نے نوٹ اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا کہ کسی نہ کسی ٹرین نے تو کنگسٹن جانا ہی ہے تو اسی کو وہاں لے جانے میں کیا مضائقہ ہے۔ ہم تو یوں کنگسٹن پہنچ گئے لیکن بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ دراصل اس گاڑی نے کہیں اور جانا تھا اور واٹرلو میں ریلوے والے کئی گھنٹے اس کو ڈھونڈتے رہے۔

ہماری کشتی کنگسٹن کے قریب پل کے پاس موجود تھی جس میں ہم سامان رکھ کے سوار ہونے لگے تو مانی نے کشتی میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ مجبوراً اس کو ڈنڈا ڈولی کے کشتی میں ڈالنا پڑا۔ اب جارج اور دیپک نے چپو سنبھالے، میں نے بادبان کھولے اور ہم دریا کی لہروں پہ روانہ ہوگئے۔ ہوا میں اوائل بہار کی خوشبو تھی، چاروں طرف دھوپ کھلی ہوئی تھی اور دریا کے کنارے تک آتی ہوئی کنگسٹن کی گلیاں کسی پوسٹ کارڈ کی طرح خوبصورت لگ رہی تھیں۔

یہ وہی کنگسٹن تھا جہاں کبھی جولیس سیزر بھی آیا تھا اور اس کی فوجوں نے دریا کے کنارے اپنے خیمے لگائے تھے۔ لگتا ہے سیزر بھی ملکہ الزبتھ کی طرح پھرتا ہی رہتا تھا، لیکن سیزر اس لحاظ سے الزبتھ سے بہتر تھا کہ وہ شراب خانوں سے دور رہتا تھا۔ لندن کا شاید ہی کوئی شراب خانہ ہو جس میں ملکہ معظمہ نے قدم رنجہ نہ فرمایا ہو۔ اب فرض کریں کہ جارج کسی طرح ملک کا وزیراعظم بن جائے اور اس کے بعد اس کا انتقال ہو جائے تو لندن کے شراب خانے فخر سے اس طرح کے بورڈ آویزاں کریں گے۔

”یہاں مرحوم وزیراعظم جارج نے بیئر نوش فرمائی تھی“ ۔
”یہاں 1888 کے موسم سرما میں مرحوم وزیراعظم جارج نے ہماری بہترین وہسکی کے تین پیگ پیئے تھے“
”یہاں سے مرحوم وزیراعظم جارج کو نشے میں آپے سے باہر ہو کے غل غپاڑہ کرنے پہ باہر پھینکا گیا تھا“

لیکن پھر تو لندن کے سارے پب اس طرح کے بورڈ لگا لیں گے کیونکہ جارج سبھی میں جا چکا ہے۔ میرا خیال ہے شاید وہ پب زیادہ مشہور ہو جائیں جن میں جارج کسی وجہ سے نہیں جا سکا۔ وہ اس طرح کا بورڈ لگا سکتے ہیں، ”شمالی لندن کا واحد پب جس میں مرحوم وزیراعظم جارج کبھی تشریف نہیں لائے“ ۔ یہ پڑھ کے لوگ جوق در جوق اس پب میں یہ دیکھنے کے لیے جایئں گے کہ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کی وجہ سے جارج وہاں کبھی نہیں گیا۔

اس سیریز کے دیگر حصےکشتی، تین دوست اور برائے نام کتا قسط 6

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments