دولت مشترکہ کا پوائنٹ آف لائیٹ ایوارڈ ’بچا ہوا کھانا مستحق افراد تک پہنچانے والی‘ پاکستانی تنظیم رزق کے رضاکاروں کے نام


پاکستان میں غیر معمولی رضاکارانہ خدمات انجام دینے پر دولت مشترکہ کے زیر اہتمام پوائنٹ آف لائیٹ ایوارڈ رضاکارانہ تنظیم رزق کے شریک بانی حذیفہ احمد اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید حسان عرفان کو دیا گیا ہے۔

سنیچر کے روز اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے منعقدہ تقریب میں اس ایوارڈ کا اعلان ملکہ برطانیہ نے فون کال کے ذریعے کیا۔

رضاکارانہ طور پر بچا ہوا کھانا مستحق لوگوں تک پہنچانے والی تنظیم کو یہ ایوارڈ خاص طور پر ’ملک میں کورونا وائرس کے باعث لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کے دوران متاثرہ افراد کے گھروں تک کھانا پہنچانے‘ پر دیا گیا ہے۔

برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر نے بتایا کہ اس موقع پر ملکہ برطانیہ نے رزق کے کام کو سراہا۔

شاہی خاندان کی جانب سے ایک ٹویٹ میں بتایا گیا کہ ملکہ کو رضاکاروں کی جانب سے ملک میں 22 لاکھ افراد تک کھانے کی مفت تقسیم کے بارے میں بھی بتایا گیا۔

https://twitter.com/RoyalFamily/status/1269256277185695749?s=20

خیال رہے کہ سنہ 2018 میں لندن کے اندر دولت مشترکہ ممالک کے سربراہان کے اجلاس میں اس ایوارڈ کا آغاز کیا گیا تھا۔

اب ہر سال یہ اجلاس دولت مشترکہ کے ممالک میں ان تنظیموں اور لوگوں کو دیا جاتا ہے جو اپنی رضاکارانہ خدمات سے معاشرے کے اندر مثبت تبدیلی کا آغاز کرتے ہیں۔

شاہی خاندان کے اراکین مختلف ممالک کے دوروں کے دوران یہ ایوارڈ ان رضاکاروں میں باقاعدگی سے تقسیم کرتے ہیں۔

رزق تنظیم کیا ہے؟

رزق کے چیف ایگزیکٹو افسر اور ایوارڈ پانے والے حذیفہ احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تنظیم کا آغاز کرنے کی وجہ ان کی والدہ رخسانہ اظہار ہیں جو کئی سالوں سے لاہور میں اپنے گھر میں کھانا پکا کر غریب لوگوں کو کھلا رہی ہیں۔

ہم نے اس تنظیم کا آغاز پانچ سال قبل اس وقت شروع کیا جب ہم لمز کے طالب علم تھے۔

انھوں نے بتایا کہ میرے دیگر دو دوستوں موسیٰ عامر اور قاسم جاوید اس بارے میں بات کرتے رہتے تھے کہ ایک طرف گھروں، ریستورانوں اور فاسٹ فوڈز کمپنیوں میں بہت زیادہ کھانا ضائع ہو جاتا ہے تو دوسری جانب کئی افراد بھوکے سونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس بحث کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ ضائع ہو جانے والا کھانا اکھٹا کر کے مستحق لوگوں تک پہنچائیں گے۔

تینوں دوستوں نے فیس بک پر ایک پیج بنا کر اس کا آغاز کیا اور آغاز میں اپنی گاڑیوں پر مختلف مقامات سے کھانا اکھٹا کر کے مستحق لوگوں تک پہنچانے لگے۔

یونیورسٹی کے دو سال ایسے ہی گزرے مگر جب لوگوں کو ان کے کام کی اہمیت کا اندازہ ہوا تو فارمز، فیکٹریوں، ریستورانوں، بیکریوں، ٹیک اوے، فاسٹ فوڈ، کمپنیوں وغیرہ نے ان سے خود ہی رابطے کرنے شروع کر دیے۔

حذیفہ نے بتایا کہ ’اس طرع ہمارا نیٹ ورک بڑھتا چلا گیا جس کے بعد میں نے خود کو اس کام کے لیے مستقل طور پر وقف کر دیا۔‘

ان کے مطابق ان کی تنظیم اب تک چھ لاکھ کلوگرام سے زیادہ کھانا محفوظ کر کے 70 لاکھ افراد تک پہنچا چکے ہیں۔

ملک بھر میں ان کی تنظیم سے منسلک تقریباً پندرہ سو رضا کار ہیں جنھیں ‘رزق ہیرو’ کہا جاتا ہے اورملک بھر میں چالیس سے زائد این جی اوز کے ساتھ ان کی شراکت ہے۔

‘ہماری گاڑیاں ملک کے 21 شہروں میں کھانا اکھٹا کر رہی ہوتی ہیں جبکہ پارٹنرز ان کو مستحق خاندانوں تک پہچانے میں مدد کرتے ہیں۔’

لاہور اور اسلام آباد میں پانچ فوڈ بین اور سٹوریج بھی قائم کیے گئے ہیں۔

انھو ںے بتایا کہ ‘یہ سارا نیٹ ورک ہم جدید ٹیکنالوجی اور مختلف ایپس کی مدد سے چلاتے ہیں۔ جس میں مستحق افراد کی تصدیق بھی کی جاتی ہے۔’

‘وبا کے پھیلاؤ کے باعث کھانا لوگوں کے گھروں تک پہنچایا’

حذیفہ احمد کے مطابق وائرس کی وجہ سے لوگوں کو اکھٹا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جس وجہ سے ہم نے راشن لوگوں کے گھروں تک پہنچایا۔ جس کے لیے بڑے پیمانے پر رضا کاروں اور اپنے پارٹنرز کو متحرک کیا گیا تھا۔

رزق تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید حسان فرقان اسلام آباد کے رہائشی ہیں اور یہاں ہی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال قبل جب رزق تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تو اسلام آباد میں ہمارے ساتھ سب سے زیادہ پہلے تعاون کرنے والے منال ریسٹورنٹ تھا۔ چند ہفتے کی محنت ہی کے بعد ہمارا کام چل پڑا تھا۔

لاک ڈاؤن اور رمضان المبارک کی صورتحال میں ایک چیلنج درپیش تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ اسلام آباد اور گرد ونواح کے شہروں کے کئی لوگ اسلام آباد میں دیہاڑی دار ہیں۔ جب لاک ڈاون ہوا تو اکثریت لوگ اسلام آباد میں پھنس گئے۔ اس دوران ہمیں مری کے قریب موجود ایک گاؤں میں رات کے تین بجے راشن پہنچایا تھا۔

وہاں پر ہم نے حقیقی معنوں میں دیکھا کہ وہ لوگ گھاس پکا کر کھا رہے تھے کیونکہ اس گاؤں کے تقریباً تمام ہی مرد اسلام آباد میں ویٹرز کی خدمات انجام دیتے تھے۔ وہاں پر مرد کم ہی تھے اور صرف خواتین موجود تھیں۔

سید حسان فرقان کا کہنا تھا کہ اس دوران ہم لوگوں نے اسلام آباد، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے تقریبا تمام ہی علاقوں میں راشن فراہم کیا ہے اور یہ سلسہ اب بھی جاری ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران خدمات

حذیفہ احمد کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس، لاک ڈاؤن اور رمضان کے دوران ہمیں نہ صرف مشکل حالات میں مستحق لوگوں تک کھانا پہچانا تھا بلکہ اب ہمیں اپنے راشن پروگرام کو بھی توسیع دینی تھی۔

‘رمضان، لاک ڈاون کے دوران 20 ہزار کلو گرام سے زیادہ کھانا تقریباً 60 ہزار لوگوں کو پہنچایا گیا۔’

اور اپنے راشن پروگرام میں بھی توسیع کرنا تھی کیونکہ غریب افراد لاک ڈاؤن کی صورتحال سے بہت متاثر ہو چکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ہم نے ‘احساس کرو’ پروگرام شروع کیا۔ لاک ڈاؤن کے سخت ترین دونوں میں تقریباً 10 ہزار سے زائد خاندانوں کو راشن پہنچایا گیا۔

https://www.facebook.com/Rizq.Sharefood/photos/a.1375204766008137/1375051472690133/?type=3&theater

جس کے لیے ہمارے ساتھ ہمارے بین الاقوامی پارٹنرز اور مختلف شعبوں کی مشہور شخصیات جیسے مشہور ٹینس سٹار راجر فیڈرر، برازیلی فٹبالر کیفو، کرکٹر وسیم اکرم، معین علی، اور پاکستانی ٹینس سٹار اعصام الحق وغیرہ نے تعاون کیا۔

ان کے ساتھ مل کر ہم نے احساس کرو پروگرام کے تحت ‘سٹار اگینسٹ ہنگر’ پروگرام شروع کیا۔

انھو ںے بتایا کہ اعصام الحق نے لاہور، اوکاڑہ اور چکوال میں ایک ہزار خاندانوں تک راشن پہچانے میں مدد دی تھی جبکہ وہ مزید ایک ہزار خاندانوں تک راشن پہچانے میں مدد فراہم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم اور دیگر نے اپنی قیمتی اشیا نیلامی کے لیے ہیش کر دی ہیں جن کی جلد ہی نیلامی ہو گئی۔ ہم اپنے بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ مل کر آنے والے دونوں میں ایک لاکھ خاندانوں تک راشن کی فراہمی ممکن بنائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp