پلیز عمران خان کی باطنی گہرائی ناپیں


یہ قوم بھی بنی اسرائیل کی طرح ہر بال کی کھال اتارنے، ہر غلطی کا زمہ دار سامنے والے کو قرار دینے اور خداداد و باصلاحیت رہنماؤں کی ناقدری کے مرض میں مبتلا ہے۔

یہ وہ قوم ہے جو اپنی کسی بھی بڑی سے بڑی غلطی کا اعتراف کرنے اور سامنے والے کی معمولی بھول بھی درگزر کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسی لیے تمام تر صلاحیتوں کے باوجود در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔

یہ قوم بجائے منتوں مرادوں سے نصیب ہونے والے بے لوث لیڈر کی قدر کرے اور اس کی ہر بات پر آنکھ بند کر کے آمنا و صدقنا کہے۔ یہ ناشکرے لوگ نہ تو خان صاحب کی سیاسی، سماجی و اقتصادی ژرف نگاہی سمجھنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی خان کی معمولی لغزشوں سے صرفِ نظر پر تیار۔

اب اور کچھ نہیں تو اسی پر لے دے شروع ہو گئی کہ وزیرِ اعظم آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرتے وقت حفاظتی ماسک نہیں پہنے ہوئے تھے۔

جبکہ ان کے اردگرد جتنے بھی لوگ کھڑے ہیں وہ ماسک میں ہیں۔ یوں وزیرِ اعظم اپنی ہی حکومت کے بنائے گئے اس ایس او پیز کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ کسی بھی اجتماعی جگہ پر بغیر ماسک کے نہیں رہا جا سکتا۔

وزیرِ اعظم کے ماسک نہ پہننے کا اقدام بادی النظر میں درست نہیں۔ مگر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وزیرِ اعظم ایک دنیاوی منصب ہے اور عمران خان محض دنیاوی شخص نہیں بلکہ ان کی ایک روحانی سمت بھی ہے۔ اس کی گواہی پاک پتن سے استنبول تک ہر جانب سے مل رہی ہے۔

ضروری نہیں کہ عظیم مدبر اور لیڈر کے ظاہری اقدامات میں پوشیدہ باطنی معنی ہر کسی پر فوراً کھل سکیں۔ اگر وزیرِ اعظم آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں بغیر ماسک کے تنہا شخص ہیں تو دراصل وہ یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ ماسک خفیہ اداروں پر ہی جچتا ہے میں تو ایک کھلم کھلا دن دہاڑے لیڈر ہوں۔ اور منطق بھی کہتی ہے کہ کسی مجمع میں اگر ایک شخص کے سوا سب نے ماسک پہن رکھا ہے تو پھر بغیر ماسک والا بھی کورونا سے محفوظ ہے۔

مگر کیا کیا جائے۔ عمران خان پر ہر صورت میں تنقید کرنے والوں کو شرمسار کرنا مشکل ترین کاموں میں سے ہے۔ اب اسی پر ٹوئٹر برادری نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ کسی اسد معروف نامی شاعر کا کلام خان صاحب نے اقبال کی شاعری سمجھتے ہوئے فارورڈ کر دیا۔ سب کھوج میں لگ گئے کہ یہ کلامِ اقبال ہے کہ نہیں۔ کسی نے دھیان نہ دیا کہ اس کلام میں کیا مانگا جا رہا ہے۔

کوئی عروج دے نہ زوال دے ، مجھے صرف اتنا کمال دے

مجھے اپنی رو میں ڈال دے، کہ زمانہ میری مثال دے

خان صاحب لوگ بھلے کچھ بھی کہتے رہیں۔ آپ خاطر جمع رکھیے۔ نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والا زمانہ بھی صرف آپ ہی کی مثال دے گا۔

خان صاحب یہ وہی چھچھورے ہیں جنھوں نے اس وقت بھی ہنگامہ مچا دیا تھا جب آپ نے حالت استغراق میں ٹیگور کا ایک قول خلیل جبران کے نام سے ٹویٹ کر دیا تھا۔ نیم پڑھے لکھوں کو یوں لگا گویا آپ نے نہ ٹیگور کا مطالعہ فرمایا ہے نہ ہی خلیل جبران کا۔ حالانکہ یہ جہلا اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ کوئی بھی بھلی بات بھلے کسی نے بھی کہی ہو پورے عالم کی میراث اور ثوابِ جاریہ کے مانند ہے۔

ہاں یہ وہی حاسد ہیں جنھوں نے اس وقت بھی طنز و تشنیع کا کوئی ترکش نہیں چھوڑا جب آپ نے تہران میں گذشتہ برس صدر حسن روحانی کی موجودگی میں فرمایا کہ دوسری عالمی جنگ میں جب جاپان اور جرمنی نے ایک دوسرے کے لاکھوں لوگوں کو مار دیا تب احساس ہوا کہ دشمنی کے بجائے مشترکہ سرحدی علاقے میں صنعتی منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔ جب معاشی مفادات جڑے تو دشمنی بھی ختم ہو گئی۔

چھوٹے زہن کے لوگ بیان میں پوشیدہ پیغام پر دھیان دینے کے بجائے اس بحث میں الجھ گئے کہ کیا جاپان اور جرمنی ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں؟

یعنی آپ کا خیال ہے کہ جو بندہ آکسفورڈ کا گریجویٹ ہو اسے یہی نہیں معلوم کہ کون سے ملک کی سرحدیں کس ملک سے ملتی ہیں؟ جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں مخالفین خان صاحب کی گفتگو کے رمزیہ پہلو یا تو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر حقیقت اور استعارے میں تمیز سے ہی نابلد ہیں۔

خان صاحب تو شریف آدمی ہیں۔ ہاں میں کہتا ہوں کہ جاپان اور جرمنی ہمسائے ہیں۔ اور صرف میں ہی کیا غالب بھی میرا ہی طرف دار ہے۔

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقہِ دامِ خیال ہے

شکر ہے خان صاحب کو بھی ان مٹھی بھر جہلا کی علمی و نظری حقیقت کا رفتہ رفتہ پتہ چل رہا ہے لہٰذا وہ اب انھیں گھاس ہی نہیں ڈالتے۔ کاش یہ مخلوق خان صاحب کے سیاسی فہم کی گہرائی کا اندازہ لگا سکتی جب آپ نے گذشتہ برس بھارتی الیکشن سے زرا پہلے فرمایا کہ اگر مودی دوبارہ برسرِاقتدار آ گئے تو مسئلہ کشمیر حل ہونے کا امکان پہلے سے کہیں بڑھ جائے گا۔

اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مودی نے دوبارہ حکومت میں آتے ہی مسئلہ کشمیر کا کیسے تیاپانچہ کر کے رکھ دیا۔ تب سے خان صاحب کے مخالفین کو کوئی راہِ فرار سجھائی نہیں دے رہی۔

اور اب یہی لوگ شرم سے منہ چھپانے کے بجائے کہہ رہے ہیں کہ جب لاک ڈاؤن دوبارہ کرنا ہی نہیں تو دو لاکھ نوجوانوں پر مشتمل ٹائیگر فورس بنانے کا کیا فائدہ۔ یہ بھی ماضی کی رضاکار فورس، امن کمیٹیوں، خدمت کمیٹیوں اور نماز کمیٹیوں کی طرح ایک وقتی شعبدہ ہے۔

اب اگر اس منطق کو مان لیا جائے تب تو فوج کی بھی ضرورت نہیں۔ کیونکہ آخری جنگ ہوئے بھی پچاس برس ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).