وبا اور حکومت کی ذمہ داری


آنے والا کل کیسا ہوگا یہ تو واضح نہیں لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم آج جو فیصلے کریں گے مستقبل بعید تک اس کے اثرات ہمارے زندگیوں پر رہیں گے۔ بہ الفاظ دیگر ہمارے آنے والے وقت کا انحصار ہمارے آج کے پر فیصلوں پر ہیں۔ کورونا نے ساری دنیا میں اپنا پنجہ گاڑ رکھا ہے اور اب تک لاکھوں زندگیاں نگل چکا ہے لیکن تاحال ہمارا یہ گمنام دشمن ہمارے قابو میں آنے سے دور ہے۔ موجودہ وبائی صورتحال میں مختلف آراء اور بیانئے سامنے آ رہے ہیں جس میں بعض لوگ کورونا کو ایک کٹھن حقیقت، بعض حکومت اور امریکا کی سازش جبکہ بعض اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں۔

جبکہ درحقیقت کورونا امیر، غریب، مسلم، غیر مسلم، کالے اور گورے میں کوئی تمیز نہیں کرتا بلکہ سب کے ساتھ ایک ہی طریقے سے پیش آتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف مغربی دنیا کو در پیش نہیں بلکہ ساری دنیا اس کا سامنا کر رہی ہے۔ امید ہے حالات جلد معمول پر آ جائے گے اور زندگی ایک دفعہ پھر اپنے ڈگر کی جانب روانہ ہو جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کورونا ختم ہونے کے بعد دنیا کیسی ہوگی اور حکومتیں کس ڈگر پر چلے گیں؟ ان حالات میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کا معیار کیا ہوگا اور حکومت کی حدود کہاں تک ہوں گی؟

اگرچہ کورونا فطرت کی طرف سے انسانی غلطیوں کا ایک سخت رد عمل ہے لیکن ابھی گیند انسان کے کورٹ میں ہے اور یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ چھکا مارتا ہے یا وہی پر ڈھیر ہو کر رہتا ہے۔ کوئی صاحب عقل اس بات کو رد نہیں کر سکتا کہ مستقبل قریب میں دنیا کی حکومتوں کا اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا اور انسانوں کی نگرانی کہ طور طریقے بدل جائے گے۔ چین، شمالی کوریا اور خاص طور پر اسرائیل اس دعوے کے زندہ مثال ہیں۔ اس وبا کے دوران چین نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہر لمحہ اپنے شہریوں کی نگرانی کی اور کورونا سے متاثرہ شہریوں کا سراغ لگایا جبکہ اسرائیل نے اپنے حساس ترین ادارے ”موساد“ کو کورونا سے متاثرہ افراد کو ڈھونڈ نکالنے کا ٹاسک دیدیا ہے۔

وطن عزیز سمیت دنیا کے باقی سارے ممالک بھی اس نقشے پر چل رہے ہے اور اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کس طرح یہ کام سر انجام دیا جائے۔ کورونا نے دنیا کی حکومتوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور سائنس و ٹیکنالوجی کا استفادہ کرتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کہ کے لئے نئے راستے تلاش کریں۔ ان غیر معمولی حالات کو وطن عزیز میں اگر ایک طرف حکومتی ناعاقبت اندیشی اور نا اہلی نے مزید خراب کیا ہے تو رہی سہی کسر بے خبر عوام اور مولوی صاحبان نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری کر دی ہے۔ میں تحریر کو تیغ الہ آبادی کے اس شعر پر ختم کرنا چاہوں گا۔

”میز چپ چاپ، گھڑی بند، کتابیں خاموش
اپنے کمرے کی اداسی پہ ترس آ تا ہے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments