مجھے سانس لینے دو


بھائی صاحب، گاڑی میں اگر سگریٹ نوشی سے اجتناب کر لیں تو بہتر ہے یہ طبیعیت کو خرابی دے رہا ہے۔
جواب: آپ اپنی گاڑی لے لیں اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کر سکتے۔

مشوروں سے بھرپور اس طرح کے مکالمے ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ میں دوران سفر سننے کو ملتے ہیں۔ جہاں اگر ایک شخص سگریٹ سلگا لے اور دوسرا اس سے منت سماجت کرے تو اسے بعینہ لہجے میں مختلف مگر ملتے جلتے مشوروں سے نوازا جاتا ہے۔ اور کہیں کہیں یہ مکالمے باقاعدہ ہاتھا پائی پر منتج ہوتے ہیں۔ سگریٹ نوشی آلودگی کا وہ مہلک ہتھیار ہے جو آج تقریباً سبھی جیبوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ انگلیوں کا وہ باسی ہے جو بستر پر بھی دستیاب ہے، یہ ہونٹوں سے لگتے ہی منہ، حلق، پھیپھڑوں، جگر اور معدہ کو مہلک اثرات سے سیراب کرنے لگتا ہے۔

سگریٹ نوشی کے عادی افراد جہاں اپنی صحت کو مضمرات بہم پہنچا رہے ہیں وہیں اپنے اردگرد موجود افراد کو بھی مستفید کر رہے ہوتے ہیں۔ بچپن میں پی ٹی وی پر کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوران وہ اشتہار دیکھا کرتے تھے جس میں ایک شخص ماچس کی تیلی سے سگریٹ سلگاتا ہے تو پاس بیٹھا ہوم ورک کر رہا بچہ تیلی سے اپنی پینسل سلگانے لگتا ہے، ساتھ ہی پبلک سروس میسج بھی دیا جاتا ہے کہ بچے بڑوں سے اثر لیتے ہیں۔ دراصل سگریٹ نوشی کو موضوع بنا کر عوام الناس کو زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی بچوں کی تربیت اور اپنے اعمال کی حساسیت کا پیغام دیا جاتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بچے عادات کے سبھی معاملات میں بڑوں کا اثر لے رہے ہیں۔

5 جون 2020 کو وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں ماحول کا عالمی دن منایا گیا، ماحول سے منسوب یہ دن اس بار کرونا وائرس اور امریکی پولیس افسر کے گھٹنوں تلے دبے سانس نہ لے پانے کی شکایت کرتے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل کی دھند میں گزرا۔ ہمارا ماحول ہو، کرونا ہو یا امریکی قضیہ، یہ سبھی سانس کے مقدمات ہیں۔ کرونا نے ہمیں، ہم نے اپنے آلودہ ماحول کو اور پھر ہمارے آلودہ ماحول نے ہمیں اسی طرح گھٹنے تلے دبوچ رکھا ہے جیسا امریکی پولیس افسر نے اپنے سیاہ فام ہم وطن کو۔

قدرت نے ماحول کو صاف رکھنے کے لیے بھی نظام فطرت میں میونسپلٹی کا خود کار محکمہ تشکیل دے رکھا ہے، اس محکمے کے کارندے زمین کے طول و عرض میں جہاں کہیں مردہ حیاتیاتی اجسام اور باقیات پڑی دیکھتے ہیں فوراً جھپٹ کر ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ قدرت نے ان کارندوں کے لیے ان مردہ حیاتیاتی اجسام اور باقیات میں خوراک کا بندوبست کر رکھا ہے، مگر انسانوں کی کارستانیاں ان کارندوں کو بھی اپنے خلاف ایک محاذ کھڑا کرنے پر اکسا رہی ہیں۔ ان کارندوں کی عدم موجودگی انسانوں کے لئے نیک شگون ثابت نہیں ہو سکتی۔

آلودگی سے مراد ماحول میں ایسے اجزا شامل کرنا ہے جس سے ماحول میں منفی اور ناخوشگوار تبدیلیاں واقع ہوں۔ حرارت، توانائی کا بے جا استعمال، شور اور استعمال شدہ اشیا کو درست انداز میں ٹھکانے نہ لگانا اس کی وجوہات ہوتی ہیں۔

اس میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کی سراسر ذمہ داری انسانی رویوں کے سر ہے۔ انسانوں کو ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرنے کے لیے اگر بستر پر لیٹے ہوئے سگریٹ کا موقع ملتا ہے تو وہ اس سے بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ گاڑیوں کی تعداد میں کئی گنا اور بے ہنگم اضافہ، پلاسٹک کے کنالوں پھیلے ہوئے شاپنگ بیگز، بچوں اور مریضوں کے استعمال شدہ ڈائپرز (پیمپرز) ، گھروں کا کچرا، سیوریج کے نظام میں بے اعتدالیاں، ائر کنڈیشنر اور جنریٹر وغیرہ آلودگی کے وہ ذرائع ہیں جن کا تعلق ایک عام آدمی سے ہے۔ شاپنگ بیگ کو ہم اپنے گلے میں پھندا بنا کر ڈال رہے ہیں اور اس کا گولا بنا کر اپنی حلق میں بھی پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ پھندا اور گولا ہماری آمدہ نسلوں کی سانسیں بھی دشوار کرے گا۔

آلودگی ہمارا آج ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پچھلی نسلوں کا اگلی نسلوں کو دوسری کئی عادات کے ساتھ ساتھ منتقل کیے جانے والا ورثہ بن چکا ہے، یعنی ماحول کو آلودہ کرنا ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔ جہاں آج کوئی کچرا پھینک رہا ہے، وہیں اس کے آبا و اجداد نے بھی پھینکا ہو گا، یوں ان کی دیکھا دیکھی یہ عادت ان کے بچوں نے اپنائی، اور پھر ان کے بچوں کی شبانہ روز محنت سے آگے چلتی رہی، اس دوران کچرے کا تھیلا تو بڑا ہوتا رہا مگر کسی نسل نے یہ نہیں سوچا کہ ہم یہ جو عمل کر رہے ہیں یہ کتنا فائدہ مند یا نقصان دہ ہے۔

صفائی صرف اپنے دروازے سے کچرا باہر نکال دینے کا نام ہی تو نہیں؟ کبھی معاشرتی مافی الضمیر نے اس سلسلے میں اپنی پروان چڑھتی نسل کی تربیت نہیں کی کہ یہ آلودگی کا باعث بنے گا، ماحول گندا ہو جائے گا، آلودگی ہمیں بیمار کرے گی، اور یہ بیماریاں ہماری معاشرتی، معاشی اور اخلاقی زندگی کا جنازہ نکال بھی دیں گی اور ہمیں دھوم بھی نہیں کرنے دیں گی۔ یوں بھی عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق زمینی کرے پر آلودگی سالانہ تقریباً 70 لاکھ لوگوں کو بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب کے خاموشی سے قتل کر دیتی ہے اور ہمارے معاشرتی کردار کی کسی بھی عدالت میں اس کا مقدمہ نہیں چل پاتا۔ یہ خوفناک حقیقت ہے کہ آلودگی دہشت گردی کی نسبت زیادہ بہتر انداز اور تعداد میں انسانوں کو زندوں کی فہرست سے نکال رہی ہے اور انسان اس خاموش قاتل کے ہاتھ ہر لمحہ مضبوط کیے جا رہا ہے۔

ہمیں اکثر صحت و تندرستی کے مسائل کا سامنا رہتا ہے، جس کا ذمہ دار ہم آلودگی کو قرار دیتے ہیں مگر آلودگی کی وجہ تو ہم خود ہیں یہ ہم نہیں سوچتے۔ ہم ماحول کو جو گند دے رہے ہیں ماحول جوابی کارروائی میں یہ گند ہمیں مختلف الانواع کینسر، چھوٹی بیماریوں، خوراک کی کثافتوں، جانوروں کی غیر تسلی بخش صحت اور غیر صحت مندانہ فضا کی صورت لوٹا رہا ہے۔ ہم ماحول کو بیمار کر رہے ہیں اور ماحول ہمیں بیمار کر رہا ہے، یوں کہنا چاہیے کہ ماحول میں موجود آلودگی ان چیدہ چیدہ مسائل کا خام مال بن گئی ہے۔ ہم ہسپتالوں میں جتنے اخراجات برداشت کرتے ہیں ان سے کم اخراجات میں ہم اپنے ماحول کو صاف رکھ سکتے ہیں۔

درختوں کی بے دریغ کٹائی نے ماحول کو بیمار کرنے میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام دیا ہے، درخت ہمارے ماحول کے پھیپھڑے ہیں، جب ماحول کے پھیپھڑے ہی کاٹ کاٹ کر چولھوں اور تندوروں میں جھونک دیے جاتے رہے تو ان کی مدد سے سلگائی گئی یہ آگ ہمارے پھیپھڑوں تک بھی مصائب کے پہاڑ لے کر پہنچے گی، اور اس آگ سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔ ایک طرف انسان خود بیماریاں پیدا کر رہا ہے تو دوسری طرف ان ہی بیماریوں سے جان چھڑانے کے لیے اخراجات بھی کر رہا ہے۔

فیکٹریاں اور گاڑیاں اپنے زہر آلود دھویں سے ماحول کو بیمار کرنے میں کامیاب کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور مضر گیسوں کی رہائی گلوبل وارمنگ اور ایسڈ بارش کا سبب بنتا ہے جس کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وطن عزیز میں ماحولیاتی نظام، ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق، ماحول کو بچانے، کچرا اٹھانے اور ماحول سے متعلق کئی دوسرے محکمہ جات موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی دوسرے محکموں کی طرح ہی ہے۔ یہاں یہ بات ہمیں سمجھنی چاہیے کہ یہ محکمے بھی ماحول کو صاف رکھنے میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک عوام اپنا رویہ درست نہیں کریں گے۔

ہمیں اب اپنے ماحول کی گردن سے اپنا گھٹنا اٹھانا ہو گا، اس سے پہلے کہ یہ ماحول بھی ’مجھے سانس لینے دو‘ کے عنوان سے ہمارے خلاف اعلان جنگ کر دے۔ جب تک ہم اپنے بچوں کو ماحول سے محبت کا درس نہیں دیں گے اور ان کے سامنے ماحول کو صاف رکھنے والی عادات نہیں اپنائیں گے بچے تیلی سے پینسل ہی سلگاتے رہیں گے۔ بچوں کے ہاتھ سے تیلی چھڑانے کے لیے ہمیں اپنے ہاتھ کی تیلی بھی چھوڑنی پڑے گی۔ کم از کم آج کی نسل کو ماحول دوست سرگرمیوں پر قائل کرنا پڑے گا تب کہیں اگلی نسلوں کے ڈی این اے میں ماحول سے محبت کرنے کی عادت منتقل ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments