روبوٹکس ٹیکنالوجی اور روز گار کا بحران


مسئلہ کے حل کی تین ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی، یہ فیصلہ کرنا کہ نوکریاں کھونے سے بچنے کے لیے کیا کرنا ہے؟ دوسری، مزید نئی ملازمتوں کو پیدا کرنے کے لیے کیا کرنا ہے؟ اور تیسری، اگر ہماری بہترین کوششوں کے باوجود ملازمتیں ختم ہونے کی رفتار نوکریوں کو پیدا کرنے کی رفتارسے تیز ہوگئی تو اس وقت ہمیں کرنا ہے؟

نوکریوں سے ہاتھ دھونے کے عمل کو معطل کرنا، مکمل طور پر ایک ناگوار اور شاید ناقابل دفاع حکمت علمی ہے، کیونکہ اس کا مطلب مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کی بے حد مثبت صلاحیت کو ترک کرنا ہوگا۔ تاہم حکومتیں جان بوجھ کر آٹو میشن کی رفتار کو کم کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں تاکہ اس تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی اتھل پتھل کے اثرات کو کچھ وقت کے لیے کم کیا جائے اور لوگوں کو اس نئی صورتحال میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے مناسب وقت میسر آسکے۔

ٹیکنالوجی کبھی بھی جبر کی صورت میں سامنے نہیں آتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کسی کام کا کیا جانا ممکن ہو تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لازمی طور پر کیا جائے۔ اس امر سے قطع نظر کہ نئی ٹیکنالوجی تجارتی لحاظ سے قابل عمل اور معاشی طور پر منافع بخش ہیں، حکومتی قواعد وضوابط اس کی عوام تک رسائی کے ہر ممکن راستے کو کامیابی سے روک سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی دہائیوں سے ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کی مدد سے ہم انسانی اعضا کی مارکیٹ قائم کر سکتے ہیں۔ جس کی بدولت پسماندہ ممالک میں موجود انسانی اعضا کی خرید و فروخت کے غیر قانونی اڈوں اور بے صبر تاجروں کی ناختم ہونے والی طلب کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانی اعضا بنانے کے ایسے اداروں کی مالیت کھربوں ڈالر ہو سکتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود حکومتی قوانین نے انسانی اعضا کی آزادانہ تجارت کو روکا ہوا ہے۔ جبکہ انسانی اعضا کی بلیک مارکیٹ موجود ہے۔

اگر تبدیلی کی رفتار کو سست کر دیا جائے تو کافی زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے کا وقت مل جائے گا۔ لیکن پھر بھی معاشی کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم اور نفسیات میں بھی انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ فارغ البالی اور بے فکری والی سرکاری ملازمت نہیں ہوگی، بلکہ شاید یہ آپ سے اعلیٰ سطح کی مہارت کا تقاضا کرے گی اور جوں جوں مصنوعی ذہانت میں تیزی آ رہی ہے، اسی لحاظ سے انسانوں کو بار بار نئی مہارتیں سیکھتے رہنے اور اپنا پیشہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومتوں کواس سلسلے میں تعلیمی شعبہ کو تاحیات سبسڈی دینے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے بدلتے ہوئے حالات میں عوام کو بنیادی تحفظ فراہم کرنے کے لیے قدم اٹھانا پڑے گا، مثال کے طور پر اگر چالیس سالہ سابقہ ڈرون پائلٹ کو ورچیوئل دنیا کے ڈیزائنر کے طور پر تیارہونے میں تین سال کا عرصہ لگتا ہے تو اس دوران اسے اپنے اور اپنے کنبہ کی دیکھ بھال کے لیے حکومتی مدد کی شدید ضرورت ہوگی۔ (اس قسم کی سکیم اس وقت اسکینڈے نیویا میں شروع کی جارہی ہے، جہاں حکومتیں ملازمتوں کی بجائے کارکنوں کی حفاظت کے نعرے پر عمل پیرا ہیں۔ )

اگر حکومت کی طرف سے کافی زیادہ مدد ملنے والی ہو تو کیا یہ امر واضح ہے کہ کروڑوں لوگ اپنا ذہنی توازن کھوئے بغیر خود کی ذات کو اپ ڈیٹ کرسکیں گے۔ لہذا ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود اگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جا ب مارکیٹ سے باہرنکال دیا گیا، تو پھر ہمیں بیروزگار افراد کے معاشرے، معیشت اور سیاست کے لیے بالکل نئے ماڈل بنانے ہوں گے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے پوری ایمانداری سے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ماضی سے وراثت میں ملے ہوئے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نمونے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

مثال کے طور پر کمیونزم کو ہی دیکھ لیں۔ چونکہ اس وقت خطرہ ہے کہ آٹومیشن کا عمل سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی جڑوں سے ہلا دے گا تو شاید کوئی یہ سمجھے کہ اب کمیونزم کی واپسی ہو سکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیونزم کو اس بحران سے فائدہ اٹھانے کے لیے ڈیزئن نہیں کیا گیا ہے۔

بیسیویں صدی میں کمیونزم نے فرض کیا کہ مزدور طبقہ معیشت کے لیے بہت ضروری ہے اور کمیونسٹ مفکرین نے پرولتاریہ کو یہ سکھانے کی کوشش کی ہے کہ ان کی بے پناہ معاشی طاقت کو سیاسی دائرہ میں کیسے استعمال کیا جاسکتاہے۔ کمیونسٹ سیاسی منصوبے میں مزدورطبقے کے انقلاب کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن آج اگر یہ عوام اپنی معاشی حیثیت کھو دیتے ہیں تو انہیں استحصالی عمل کی بجائے لاتعلقی کے خلاف جدوجہد کی ضرورت درپیش ہوگی۔ ایسے میں عوام ان تعلیمات سے کس طرح مستفید ہو سکتی ہے؟ کیونکہ آپ محنت کش طبقے کے وجود کے بغیر محنت کش طبقے کا انقلاب کیسے شروع کر سکتے ہیں؟

شاید کچھ لوگ یہ دلیل دیں کہ انسان معاشی طور پر کبھی بھی لاتعلق نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر وہ کام کی جگہ پر مصنوعی ذہانت کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے، تو پھر بھی ہمیشہ صارف تو وہی رہے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مستقبل کی معیشت کو انسان کی بطور صارف بھی شاید ضرورت نہ رہے۔ مشین اور کمپیوٹر یہ کام کر سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ کی ایک معیشت ہے جس میں کان کن کارپوریشن ایک روبوٹکس کارپوریشن کو لوہا نکال کر فروخت کرتی ہے اور روبوٹکس کارپوریشن روبوٹ تیار کر کے کان کن کارپوریشن کو فروخت کرتی ہے۔

جس کی بدولت ان کے لیے زیادہ لوہا نکالنا ممکن ہوجاتا ہے ۔ اس زیادہ لوہے کی مدد سے مزید روبوٹ بنائے جاتے ہیں اور یوں یہ عمل چلتا چلا جاتا ہے۔ ایسی کارپویشن کہکشاں کے اس پار تک پھیل سکتی ہے اور اس سارے عمل کے لیے کمپیوٹر اور روبوٹ کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنی مصنوعات خریدنے کے لیے بھی انسانوں کی ضرورت نہیں ہے۔

بلاشبہ، پہلے ہی کمپیوٹر اور الگورتھم پیداواری عناصر کے علاوہ صارف کی حیثیت سے کام کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اسٹاک مارکیٹ میں بانڈ، حصص اور اشیا کے سب سے اہم خریدار بن رہے ہیں۔ اسی طرح سے اشتہارات کی کاروباری دنیا میں سب سے زیادہ اہم صارف گوگل سرچ الگورتھم ہے۔ آج جب لوگ ویب صفحات کو ڈیزائن کرتے ہیں تو وہ اکثر کسی انسان کے ذوق کی بجائے گوگل سرچ الگورتھم کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ الگورتھم کوئی شعور نہیں رکھتا ہے، لہذا صارفین کے برعکس وہ جو کچھ بھی خریدتا ہے، وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا ہے اور اس کے فیصلے احساسات اور جذبات سے مبرا ہوتے ہیں۔ گوگل سرچ الگورتھم آئس کریم کا مزہ نہیں لے سکتا۔ تاہم الگورتھم اپنے ذاتی حساب کتاب اور پہلے سے طے شدہ ترجیحات کی بنیاد پر اشیا کا انتخاب کرتا ہے اور یہ ترجیحات تیزی سے ہماری دنیا کو بدل رہی ہیں۔ جب آئس کریم فروخت کرنے والوں کے صفحات کی درجہ بندی کی بات آتی ہے تو گوگل الگورتھم کا بہت ہی نفیس ذوق ہوتا ہے اور دنیا بھر میں سب سے کامیاب آئس کریم فروش وہی ہے جو گوگل الگورتھم میں پہلے نمبر پر ہے۔

میں ذاتی تجربے سے جانتا ہوں کہ جب میں کوئی کتاب شائع کرتا ہوں تو پبلشر مجھ سے ایک مختصر تعارفی نوٹ لکھنے کا کہتا ہے جس کو وہ میری کتاب کی آن لائن تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس خاص ماہرین ہیں جو میری لکھی ہوئی تحریر گوگل کے ذوق کے مطابق ڈھال دیتے ہیں۔ گوگل الگورتھم کے ماہر میرے متن کو پڑھتے ہیں اور میری راہنمائی کرتے ہیں کہ مجھے کون سا لفظ استعمال کرنا چاہیے اور کون سے لفظ لکھنے سے احتراز برتنا چاہیے، تاکہ ہم گوگل الگورتھم سے زیادہ توجہ حاصل کرسکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم گوگل الگورتھم کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو انسانوں کی توجہ حاصل کر ہی لیں گے۔

اس لیے اگر بطور پروڈیوسر اور صارف دونوں طرح انسان کی ضرورت نہ رہی تو پھر ان کی جسمانی بقا اور نفسیاتی بہبود کا کیا مطلب رہ جائے گا؟ لہذا ہمیں ان سوالات کے جواب ابھی ڈھونڈنا ہوں گے، ہم بحران کے بھرپور طاقت سے پھوٹنے کا انتظار نہیں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ ہمیں اکیسویں صدی کی بے مثال تکنیکی اور معاشی رکاوٹوں سے نبر دآزما ہونے کے لیے جلد از جلد نئے معاشرتی اور معاشی نمونے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ان ماڈلوں کو بنیادی طور پر نوکریوں کی بجائے انسانوں کے تحفظ کے اصول پر کام کرنا چاہیے۔ بہت ساری ملازمتیں انتہائی غیر دلچسپ ہوتی ہیں۔ اس لیے انہیں بچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کی زندگی بھرکا خواب صرف کیشئر بننا نہیں ہے۔ ہمیں جس چیز کی طرف دھیان دینا ہے وہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی، معاشرتی حیثیت اور اپنی ذات کی شناخت کا تحفظ ہے۔

ایک نئے ماڈل (جسے عالمی سطح پر بنیادی آمدنی کا نام دیا جا رہا ہے ) کی طرف لوگوں کی توجہ بڑھ رہی ہے۔ یو بی آئی نے تجویز دی ہے کہ حکومتیں ارب پتی کاروباری افراد اور کارپوریشنوں پر الگورتھم اور روبوٹس کے استعمال کا ٹیکس لگائیں اور اس رقم سے ہر شخص کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے وافر مقدار میں وظیفہ دیں۔ اس سے غربا بیروزگاری اور معاشی بدحالی سے محفوظ رہیں گے۔ جس کے نتیجے میں امیروں کو عوامی غصے سے بچایا جاسکے گا۔

اسی سوچ سے مشابہہ ایک اور نظریہ میں انسانی سرگرمیوں کی حد کو وسیع کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ تمام وہ سرگرمیاں ہیں جنہیں ملازمت سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت اربوں والدین بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ہمسائے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، شہری معاشروں کو منظم کرتے ہیں، لیکن ان قیمتی سرگرمیوں کو کہیں بھی ملازمت تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہو، تاکہ ہم اس بات کی اہمیت کا احساس کر لیں کہ بچوں کی دیکھ بھال دنیا کا سب سے اہم اور مشکل کام ہے۔

اگر ہم اپنی سوچ کو اس نظریہ کے مطابق ڈھال لیں تو جب کمپیوٹر اور روبوٹ تمام ڈرائیوروں، بینکروں اور وکیلوں کی جگہ لے لیں گے، تب بھی ہمارے پاس کام کی کمی نہیں ہوگی۔ بلاشبہ سوال یہ ہے کہ کون ان نئی ملازمتوں کی جانچ کرے گا اور اس کے لیے رقم کی ادائیگی کرے گا؟ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ چھ ماہ کا بچہ اپنی ماں کو تنخواہ نہیں دے سکتا ہے۔ شاید اس لیے یہ ذمہ داری حکومت کو اٹھانی پڑے گی۔ اس لیے یہ بھی فرض کر لیں کہ یہ تنخواہ کسی بھی خاندان کی تمام بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہوگی۔ جس میں حتمی نتیجہ بنیادی عالمی تنخواہ سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔

اس کی بجائے، حکومتیں آمدنی کی بجائے عالمی بنیادی خدمات پر سبسڈی دے سکتی ہیں۔ لوگوں کو رقم دینے کی بجائے حکومت تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور ٹرانسپورٹ وغیرہ پر سبسڈی دے سکتی ہے (حقیقت میں یہ کمیونزم کا یوٹوپیائی نظریہ ہے)۔ اگرچہ محنت کش طبقے کی مدد سے شروع کیا جانے والے انقلاب کا کمیونسٹ منصوبہ اب کافی فرسودہ ہو چکا ہے۔ لیکن پھر بھی یہی مقصد ہم کسی اور طریقے سے بھی پورا کر سکتے ہیں۔

یہ امر قابل بحث ہے کہ کیا لوگوں کے لیے عالمی بنیادی آمدنی (سرمایہ دارانہ جنت) مہیا کرنا بہتر ہے یا عالم گیر بنیادی خدمات (کمیونسٹ جنت) ۔ ان دونوں انتخابات میں خوبیاں اور خامیاں موجود ہیں۔ لیکن اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کس جنت کو اپنانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ ان دوالفاظ ”عالمی“ اور ”بنیادی“ کے معنوں کے تعین کا ہے۔

(مترجم: زبیر لودھی)

اس سیریز کے دیگر حصےیوول نوح حراری: اکیسویں صدی کے اکیس سبق (قسط نمبر6)۔آٹومیشن کا انقلاب غریب ممالک کو تباہ کر دے گا؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments