چند فیصلے جن پر نظرثانی کی ضرورت ہے


پاکستان میں شروع ہی سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے طریقہ کار پر اختلاف ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کے درمیان لاک ڈاؤن پر اختلاف رہا۔ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتیں وفاقی حکومت کی طرف دیکھتی رہی۔ لیکن وفاق کی طرف سے کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی شش و پنج کا شکار رہے۔ باہمی مشاورت اور متحد ہوکر اس وبا پر قابو پانے کے لئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن تاحال یہ ادارہ اپنے قیام کے مقاصد کے حصول میں ناکام ہے۔

متفقہ منصوبہ بندی کے لئے نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی بھی کام کر رہی ہے لیکن پورے ملک میں کہیں پر بھی اتفاق رائے نظر نہیں آ رہا ہے، جس کی واضح مثال پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول زرداری کا یہ بیان ہے کہ کورونا کو ملک میں زبردستی پھیلایا گیا، جس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔ کورونا وائرس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لیا ہے ضروری ہے کہ عدالت بلاول زرداری کے اس بیان کا بھی نوٹس لیں اور ان سے وضاحت طلب کریں، اگران کے اس الزام میں حقیقت ہے تو ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کو سزا دی جائے، اگریہ محض سیاسی بیان ہے تو ان کو پابند کریں کہ آئندہ وہ اس وباپر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کریں۔

کورونا وبا کے دوران وفاقی حکومت نے چند اہم فیصلے بھی کیے ہیں ضروری ہے کہ ان پر نظرثانی کی جائے۔ کورونا وائرس کے خلاف تمام اقدامات کو این ڈی ایم اے کو سونپ دینا بالکل غلط فیصلہ ہے، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جو طبی آلات خریدے جا رہے ہیں وہ این ڈی ایم اے خرید رہا ہے۔ جوبھی امداد باہر سے آ رہی ہے وہ این ڈی ایم اے کو دی جارہی ہے اور وہی اس کو تقسیم بھی کر رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طبی آلات کی خریداری کا اختیار وفاقی وزارت صحت کو دیا جائے۔

باہر سے جو بھی امداد آ رہی ہے اس کی تقسیم کی ذمہ داری بھی وفاقی وزارت صحت کو دینی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان خود وفاقی وزیر صحت ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا ان کے ساتھ خصوصی معاون ہیں۔ صوبوں کو وینٹی لیٹرزاور ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز بنانے کا ٹاسک ان کو سونپ دیا جائے۔ صوبے اپنی ضروریات ان کے ساتھ شیئر کریں اور وفاق ضرورت کے مطابق ان کی مدد کریں۔ موجودہ صورت حال میں این ڈی ایم اے کو امدادی کاموں میں شامل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔

جو بھی آگاہی مہم چلائی جائے وفاقی وزارت صحت کو ذمہ داری دی جائے کہ وہ میڈیکل پروفیشنل کے ساتھ مشاورت کے بعد اس کی تشہیر کریں۔ کسی اور ادارے کو آگاہی مہم پر پیسہ برباد کرنے سے روکا جائے، اس لئے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ براہ راست اس شعبے کے ماہرین مو جود ہیں۔ اس کے بر عکس وفاقی وزارت صحت کے پاس ماہرین بھی موجود ہیں اور یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری بھی ہے کہ اس وبا کے دوران عوام کو آگاہی دیں۔

کورونا وائر س کی اس وبا کے دوران ایک اہم فیصلہ بورڈز امتحانات کا التواء بھی ہے۔ حکومت کو کسی بھی صورت امتحانات کو ملتوی نہیں کرنا چاہیے تھا، اس لئے کہ امتحانی سنٹروں میں عام حالات میں بھی امتحانات کے دوران سماجی فا صلے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ سرکار کو چاہیے تھا کہ وہ ماسک کو لازمی کر دیتا اور طالب علموں کو دستانے پہنے کا پابند کر تاتو امتحانات لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ یہ ایک جذباتی اور زمینی حقائق کے برعکس فیصلہ تھا، بہرکیف جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت میڈیکل، انجینیرنگ اور دیگر پروفیشنل اداروں میں داخلہ ٹیسٹ کی تاریخوں کا اعلان کردیں۔ اس میں تاخیر کی کوئی ضرورت نہیں، اس لئے کہ ان امتحانات میں سماجی فاصلے کی پابند ی پہلے سے کی جاتی ہے۔ جبکہ امتحانی مراکزمیں ماسک اور دستانوں کو لازمی کیا جائے۔ امید وار کے علاوہ کسی اورکو امتحانی مراکز کے حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی ادارے اور دینی مدارس بھی بند ہیں۔ حکومت نے طالب علموں کے لئے آن لائن کلاسز اور ٹیلی سکول کے منصوبے شروع کر دیے ہیں۔ یہ دونوں منصوبے کامیاب اس لئے نہیں ہوسکتے کہ طالب علموں میں اکثریت کے پاس لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کی سہولت موجود نہیں۔ اگر کسی کو یہ سہولت میسر ہے تو ان کے پاس انٹرنیٹ نہیں ہے۔ لہذا اس فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں کو کھول دیں۔

ہر کلاس کے طالب علموں کو دو گروپوں میں تقسیم کردیں۔ آدھے طالب علم ہفتہ کے پہلے تین دن (پیر، منگل، بدھ) اور آدھے طالب علموں کو ہفتہ کے باقی تین دن (جمعرات، جمعہ اور ہفتہ) کو کلاسز لینے کی اجازت دیں۔ پابندی لگا دی جائے کہ کسی بھی طالب علم اور سٹاف ممبر کو سکول، کالج یا یونیورسٹی کے حدود میں بغیر ماسک اور دستانوں کے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کلاس رومز میں کرسیاں سماجی فاصلے کے مطابق ترتیب دی جائے۔

اسی طرح زیادہ تر دینی مدارس میں بھی اس اصول کو آسانی کے ساتھ لاگو کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے پاس جگہ زیادہ اور طلبہ کم ہوتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کو بھی اس اصول کے تحت کھولا جاسکتا ہے۔ ٹیلی سکول کا منصوبہ بھی وقت اور پیسوں کا ضیائع ہے۔ ان دونوں منصوبوں پر جو پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے اگر وہ تعلیمی اداروں میں حفاظتی تدابیر پر خرچ کیا جائے تو بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

حکومت نے کورونا وائرس وبا کے بارے میں عوام میں شعور اجاگرکرنے اور احتیاطی تدابیرپر عمل درآمد میں معاونت کے لئے ٹائیگرفورس قائم کردی ہے، اس فورس کا قیام ایک غیر ضروری منصوبہ ہے۔ ملک میں پہلے سے کئی ادارے موجود ہیں۔ ہلال احمر اور سکاوٹس کے رضاکار بھی موجود ہیں ان سے یہ کام لیا جاسکتا ہے۔ موجودہ مشکل حالات میں ٹائیگر فورس پر قومی خزانے سے رقم خرچ کرنا بدعنوانی سے بڑا جرم ہے۔ اس کے ساتھ ہی وفاق کو چاہیے کہ موجودہ حالات میں صوبوں سے کشیدگی کو کم کریں۔

مرکزی سطح پر کوئی ایسا نظام ترتیب دیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کو مصدقہ معلومات فراہم کریں۔ اس کے لئے روزانہ کسی وزیر کو میڈیا پر طلوع ہونے اور دوسروں پر تنقید کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کام ایک پریس ریلز سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن سوال پھر وہی کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، تو یہ ذمہ داری ہے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی کہ وہ سامنے آئے اور مشکل کی اس گھڑی میں ملک و قوم کی رہنمائی کریں، اس لئے کہ یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments