حاکمیت کی خواہش اور کم ظرف مرد


مریضوں کا رش کچھ کم ہوا تو، میں نے چائے کے وقفے کے لئے ٹی روم کا رخ کیا،
وہ مجھ سے پہلے وہاں موجود تھی۔
چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے، کسی گہری سوچ میں گم، میری آمد سے یکسر بے خبر۔ ۔ ۔
میں نے اپنے لئے چائے بنائی، اور اس کے سامنے ہاتھ لہراتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی۔
اس نے چونک کر مجھے دیکھا، پھر جبراً مسکراتے ہوئے بولی، کیسی ہیں میم آپ؟

میں تو بالکل ٹھیک ہوں، لیکن تم مجھے آج پھر پریشان لگ رہی ہو، میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

چھوڑیں میم، روز کی کہانی ہے وہ اضطراری کیفیت میں بولی۔
مگر روز وہی کہانی کیوں ہوتی ہے، میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا۔
کہا ناں چھوڑیں میم، کم ظرف سے واسطہ پڑ گیا ہے، اس کے چہرے کے تناؤ میں اچانک ہی اضافہ ہو گیا۔
بری بات، خاوند ہے تمہارا، بہت محنت کرتا ہے تمہارے لئے میں نے تنبیہی انداز میں کہا۔

کیا غلط کہ رہی ہوں میم، میں بھی ڈاکٹر ہوں، جاب کرتی ہوں، گھر کے سارے کام بھی کرتی ہوں، بچوں کو اسکول چھوڑتی لیتی ہوں، اسے تو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔

فرق ہے ناں، تم فکس مارننگ ڈیوٹی میڈیکل افسر ہو، وہ سرجری میں سینئر رجسٹرار ہے، اسے ہر دوسرے تیسرے دن تیس گھنٹے کی لمبی ڈیوٹی کرنی ہوتی ہے، ایمر جنسی کالز کرنی ہوتی ہیں، پرائیویٹ کلینک کرتا ہے، میں نے اس کے خاوند کی وکالت کی۔

تو میں بھی تو سارے گھر کے کام کرتی ہوں، بچے سنبھالتی ہوں، یہ کام نہیں ہیں کیا، اس کا لہجہ مزید تلخ ہو گیا۔

بالکل کام ہیں، لیکن تم تو کہ رہی تھیں وہ اپنا ناشتہ خود بناتا ہے اور اپنے کپڑے بھی خود استری کرتا ہے، میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔

تو اپنے کام کرتا ہے ناں، میرے یا گھر کے کام تو نہیں کرتا، وہ ناشتہ بناتا ہے تو میں بچوں کو تیار کر رہی ہوتی ہوں، وہ بدستور اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔

اچھا یہ سب تو روز کی کہانیاں ہیں آج بتاؤ اسپیشلی کیوں پریشان ہو، میں نے پھر مسکراتے ہوئے کہا۔

کیا ہونا ہے میم، آپ کو تو پتا ہی ہے سرجری والوں کا، وارڈ کا کام کم کرتے ہیں اور باقی سارے شوق دل کھول کر پورے کرتے ہیں، ہر جونئیر لیڈی ڈاکٹر کو پڑھانا اور سکھانا میرے خاوند کی خودساختہ ڈیوٹی ہے، اس کے لہجے میں تلخی کے ساتھ نفرت بھی شامل ہو گئی۔

اب کے میں نے اسے غور سے نظر بھر کے دیکھا،

وہ پل بھر کو رکی اور پھر بولی اور میم آپ اس چھمک چھلو کی دیدہ دلیری دیکھیں، مجھے کہہ رہی ہے کہ ”سر تو بہت نائس ہیں، بہت خیال رکھتے ہیں سب کا، آپ تو بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اتنا اچھا بندہ ملا“ ہنہہ، گھر میں آ کر دیکھے تو پتا چلے کتنا اچھا بندہ ہے یہ۔

اوہ اچھا، تو یہ بات ہے، تم خود تو اس کی تعریف کرتی نہیں ہو، اور کسی اور کے منہ سے اس کی تعریف برداشت نہیں کر سکتیں، میں نے کچھ شرارتی لہجے میں کہا۔

اس میں تعریف کے قابل ہے کیا، کون سی دنیا سے انوکھی محنت کر رہا ہے وہ، شادی کی ہے تو بیوی بچوں کی ذمہ داری تو فرض ہے اسکا، کون سا احسان کر رہا ہے مجھ پر، اس کے لہجے کی اکتاہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا۔

میں نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا، نظر بھر کے اسے دیکھا، پھر ٹھہر ٹھہر کے بولی،
بیٹے میری بات غور سے سنو، اور سمجھنے کی کوشش کرو،
مرد کی حاکمیت کی خواہش ازل سے ہے اور قدرتی بات ہے،

مرد دوسری عورت کی طرف پہلا قدم عموماً نفسانی یا جنسی لذت کے لئے نہیں اٹھاتا، بلکہ اکثر اوقات اپنی حاکمیت جتانے، اپنی حاکمیت خود سے محسوس کرنے کے لئے وہ یہ ایک قدم لیتا ہے۔

وہ قدم پھر اسے نفسانی خواہشات کا پابند بنا دے، یا گمراہ کر دے، یا مکمل برباد کر دے، یہ پھر مرد کی قسمت اور اس سے وابستہ عورت کے نصیب۔

اس لیے عقل کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ مرد کی حاکمیت کو گھر میں تسلیم کر لیا جائے، یہ بالکل وہی سبق ہے جو دو نسلیں پہلے نانی اور دادی پڑھاتی تھیں، کیونکہ وہ برابری نہیں کرتی تھیں، مرد کی حاکمیت کو تسلیم کرتی تھیں اور مرد کے دل اور گھر کی راجدھانی پر بلا شرکت غیرے راج کرتی تھیں۔

میں نے چائے کا خالی کپ میز پر رکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
دور تک مجھے اپنی پشت پر اس کی گرم نگاہیں محسوس ہوتی رہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments