اے نیئر: اور تان ٹوٹ گئی


(مِینو کے قلم سے)

\"a-nayyar\"

وہ 14 اپریل 1955ء کو ضلع ساہیوال میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے والد سرکاری ملازم تھے، اور پنجاب کے شہر عارف والا میں مقیم تھے۔ نوجوانی میں اس کے گھر نہ ریڈیو تھا، نہ ٹی وی، نہ گراموفون۔ گھر کے قریب ایک سینما ہال تھا، وہاں جا کر وہ گانے سنتا اور ان گانوں کی نقل کرتے گانا گانے کی مشق کرتے، اپنے من میں موتی پالتا رہا۔ اس کی سب سے پہلی پرفارمینس اسکول کی بزم ادب میں تھی، جہاں‌ اس نے قومی ترانہ گا کر ساتھیوں اور اسکول کے ماسٹروں سے داد سمیٹی۔ بعد میں اس بچے کے باپ کا تبادلہ لاہور میں ہو گیا، یہاں سینٹ فرانسس اسکول میں داخل کر دیا گیا۔ یہیں سے اس بچے نے میٹرک کیا۔ پھر لاہور ہی میں فار مین کرسچن کالج یعنی ایف سی کالج میں داخلہ لیا، اور گانے کی غیر رسمی تربیت بھی لینا شروع کی۔ اس کا نام آرتھر لطیف نیئر تھا، جسے ہم اے نیئر کے نام سے جانتے ہیں۔

1974ء میں جب یہ محض انیس سال کے تھے، انھوں نے ٹیلے ویژن پر گایا، اور پھر اسی برس فلم ’بہشت‘ کا ایک نغمہ گایا۔ یہ دو گانا تھا، اس گانے میں روبینہ بدر نے ان کا ساتھ نبھایا۔ موسیقی اے حمید کی تھی۔ یوں فلمی قوسِ قزح میں ایس بی جان، سلیم رضا، آئرن پروین کے بعد اب اے نیئر کا اضافہ ہوا، جن گلوکاروں کا تعلق مسیحی گھرانے سے تھا۔ اے نیئر کا کہنا تھا کہ انھوں نے احمد رُشدی سے سیکھا، کہ پلے بیک سنگنگ کیسے کی جاتی ہے۔ احمد رُشدی اس زمانے کے کام یاب اور مقبول پلے بیک سنگر تھے۔ پلے بیک سنگنگ کے تقاضے عام گلوکاری سے فرق ہوتے ہیں۔ گلوکار کو یہی نہیں دیکھنا ہوتا کہ یہ گانا کس موقع مناسبت کے لیے ہے، یہ بھی دھیان رکھنا پڑتا ہے، کہ اس کی آواز کس اداکار کے لبوں سے پھوٹتی دکھائی جائے گی۔ ایک اچھے پلے بیک سنگر کی کوشش ہوتی ہے، کہ وہ اس اداکار کے انداز کے مطابق گائے۔ یہ یاد رہے کہ اے نیئر نے گانے کی باقاعدہ تعلیم نہ لی تھی، انھوں نے استاد سلامت علی، محمد رفیع، مہدی حسن، امانت علی، نور جہاں، لتا اور دیگر منجھے ہوئے گلوکاروں کو سن سن کر رہ نمائی حاصل کی۔

فلمی سفر کی شروعات میں نثار بزمی کی موسیقی میں ’اک گناہ اور سہی‘ کے دو نغمے گائے، پھر ایم اشرف کی ترتیب دی موسیقی میں ناہید اختر کے ساتھ ایک ’خریدار‘ فلم کا یہ دو گانا مشہور ہو گیا۔ ’پیار تو اک دن ہونا تھا، ہونا تھا، ہو گیا‘۔ اس کے بعد انھیں شہرت ملنے لگی۔ فلمی ستارے ندیم پر فلمایا ان کی آواز میں یہ نغمہ ’جی رہے ہیں، ہم تنہا، اور تیرا غم تنہا‘ انتہائی مقبول ہوا۔ اسی طرح کے گانوں سے جن میں سریلی آواز میں گاتے یک دم اونچے سروں میں بے ربط تان لگائی جائے کشور کمار کی پہچان رہے ہیں، تو اے نیئر کے لیے کہا گیا، کہ یہ کشور کمار کی نقل کرتے ہیں۔ اے نیئر نے اپنے ایک انٹرویو میں کشور کمار کی نقل کرنے کی تردید کرتے یہ جواب دیا تھا، کہ اُن کا اور کشور کمار کا اسکول آف تھاٹ ایک ہی ہے، اس لیے یہ کہنا بجا نہیں کہ میں نقل کرتا ہوں۔

اے نیئر کے لیے کہا جاتا ہے، کہ انھوں نے اپنے گانوں میں کبھی غیر معیاری شاعری کا انتخاب نہیں کیا۔ وہ مزاجا نہایت عاجز لگتے تھے۔ کبھی کسی ساتھی فن کار یا ہم عصر کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ اُن میں بے جا کی نمود و نمایش نہ دکھائی دی۔ اسی کی دہائی کی ابتدا میں اردو فلموں کا دور خاتمے کے قریب تھا۔ ’دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں‘۔ ایسے میں ایک اے نیئر ہی نہیں، بہت سے فن کاروں کے لیے فلموں میں جگہ نہ رہی۔

\"a-nayyar-3\"

یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں

اسٹیج، ریڈیو، ٹی وی اور فلم اُنھیں ہر جگہ گانے کا موقع ملا۔ سات نگار ایوارڈ، آٹھ گریجوایٹ ایوارڈ، چار بولان ایوارڈ، اور ایک صدارتی ایوراڈ کے علاوہ بے شمار پرستاروں کی محبت انھیں حاصل رہی۔ اے نیئر نے لاہور میں میوزک اکیڈمی بھی قائم کی، جہاں‌ وہ موسیقی کے طالب علموں کو گانا سکھایا کرتے تھے۔ 11 نومبر 2016ء کو طویل علالت کے بعد لاہور ہی میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے پس ماندگان میں بیوی اور تین بیٹیاں ہیں، جو بیرون ملک رہتے ہیں۔ اُن کے بیٹے کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ آرتھر لطیف نیئر کے جنازے کی رسومات اُن کے اہل خانہ کی آمد پر ادا کی جائیں گی۔

سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments