سانحے سے بنتی تاریخ!


ہندوستان سے ہجرت کے وقت جب فسادات ہوئے تو شہید ہونے والے، لٹنے والے، بے سروسامانی میں سفر کرنے والے سب اس وقت اعداد تھے، اخباری خبریں تھی، دکھ تھا، الم تھا۔ کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ جن کے ساتھ وہ صدیوں سے رہتے چلے ائے ہیں وہ ہی جان کے در پر ہوں گے ۔ اس پینک میں کسی طرح لوگ پاکستان پہنچے، پھر مہاجر کیمپس کی زندگی تھی۔ مگر جب گرد تھمی تو ان اعداد سے کہانیوں نے جنم لیا، کچھ پر نوولز لکھ گئے تو کچھ پر ڈارمے بنے، اور اکثریت وہ حدیث دل بن گئی جو نسل دار نسل سینہ بہ سینہ مں تقل ہوئیں۔

آج بھی کسی ہجرت کرنے والے خاندان کے کسی فرد سے آپ دریافت کریں تو وہ بتائے گا کہ کس طرح اس کے آبا و اجداد نے ہجرت کی، کون جان کے در پر تھا، کس نے پناہ دی۔ پاکستان آمد کے قصے کے احوال اس تفصیل سے ہوں گے کہ آپ حیران ہوجاییں گے۔ ناول، ڈراموں میں معاشرتی اور اجتمائی منظر کشی نظر ہوئی، وہ کردار جنھوں نے اس سارے بحران کو دھندہ بنایا اور ان کے بارے میں بھی جن سے خیر پھیلی۔ منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، بانو قدسیہ، انتظار حسین، غلام عباس اور بہت سے مصنفوں نے تقسیم کے درد کو اپنے قلم سے لفظوں کی چادر پہنائی۔

ہر ایک کا مختلف انداز اور دیکھنے کا زاویہ تھا مگر ہجرت، تقسیم ایک وقت تک اردو ادب کے اعصابوں پر چھائی رہی۔ پھر ایک خاموش گلٹ کے فیکٹر تھا، اپنا علاقہ چھوڑنے کا، خاندوں کی تقسیم کا، ایک ہی گھر کے کچھ افراد پاکستان چلے آئے، کچھ وہیں رہ گئے۔ کسی کو یہ احساس جرم کے وہ اپنے خاندان کو راضی نہیں کر پایا، کسی کا یہ درد کے خطرے کو بروقت جانچ کر ہجرت نہیں کی۔

المیوں سے کہانیوں کا جنم ہوتا ہے جو افراد اور اقوام کی تاریخ طے کرتی ہے کہ کس معاشرے نے کس المیے کو، کس عذاب کو کیسے جھیلا۔ انفرادی فکر اور عمل سکیچ ہوتا ہے، معاشرے کی مجموعی صورت حال کی تصویر کشی ہوتی ہے اور یہ بھی طے ہوتا ہے کہ ارباب اختیار کے اقدامات نے ان المیوں کس طرح لیا، ان کے اقدامات کیا تھے۔ اقوام نے کیسے مقابلہ کیا اور کس طرح بعد از عذاب قومیں کھڑی ہوئیں۔ یہی تاریخ کے کاغذوں پر آپ کو زندہ قومیں بناتی ہے یا ایسی اقوام جن سے سبق لیا جائے۔ یہی قوموں کی نفسیات طے کرتی ہیں، اس سے معاشرے فخر کرتے ہیں یا خاموش احساس جرم پنپتا ہے۔

آج ایک وبا کا دور ہے اور اب وہ مقام آ گیا ہے کہ انسانی جانیں ایک عدد یا نمبر ہیں، روز بہ روز یہ نمبر بڑھ رہے ہیں اور جو لوگ پہلے اس پورے سانحے کا رد کر رہے تھے اب ان کے دروں پر بھی دستک شروع ہوگئی ہے۔ خوف کی شدید فضا جو پہلے مغربی ممالک تک محدود تھی، پچھلے چند دن میں اس نے جنوبی ایشیا میں ڈیرے ڈالنا شروع کر دے ہیں۔ روز بڑھتی اموات ابھی نمبرز ہیں، خبریں ہیں مگر اس وبا کے تھمتے ہی اس سے کہانیاں جنم لیں گیں جس میں حکومتی اقدامات سے لے کر انفرادی سطح تک ہر چیز تاریخ کا حصہ بنے گی۔

ڈر یہ بھی ہے کہ کہیں ہم انفرادی اور معاشرتی طور پر ایک گلٹ کا شکار نہ ہوجائیں، اور سالوں ہم ماتم کرتے رہیں۔ جہاں ہم نے شروع میں صوبے کی سطح پر ایک لاک ڈاؤن کر کے صورت حال قابو کی تھی وہیں وفاق میں بیٹھے ارباب نے اس کو وبا اور بھوک کی جنگ بنا دیا اور پھر سب کھل گیا، ملک آٹو پائلٹ پر آ گیا۔ لوگوں نے بھی احتیاط ترک کر دی، اور عید پر بازاروں میں ایسا رش تھا جیسے وبا ختم ہوگئی ہو۔ پھر سازشی تھیوریز نے رہی سہی کسر ختم کر دی۔ آج اس ملک کے فرنٹ لائن طبی عملہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان کو داؤ پر لگا کر ہسپتال آ رہا ہے، لوگوں کا علاج کر رہا ہے مگر اس ڈر کے ساتھ کہ کہیں لوگ اس پر ہی حملہ آور نہ ہوجاییں کہ سازشی تھیوریز نے مسیحاؤں کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا ہے۔

تصور کریں کہ ان سب کے بعد ہم لوگ کس طرح پروجیکٹ ہورہے ہوں گے ، جب ہم پر کتاب لکھی جائے گی تو وہ اس میں درج ہوگا کہ حکومت ایسی تھی جس نے کاروبار کو انسانی جان پر ترجیح دی تھی، جب اپ اپنی کہانی اپنی نسلوں کو منتقل کر رہے ہوں گے تو یہ بتایا جا رہا ہوگا کہ معاشرے میں افراد کا رویہ کیسا تھا، کس نے خدمت کی، کون غلط پروپیگنڈا کرتا رہا۔ کس نے بات مانی اور کتنے لوگ احتیاط کرتے رہے۔ کس نے کس کو کھو دیا اور کون کس کے جنازہ میں شرکت نہ کر پایا۔

ملک سے باہر رہنے والوں کی گلٹ جب کتابوں کی صفحے کالے کرے گی تو لکھا جائے گا کہ کب وہ اپنے پیاروں کے درمیان نہیں تھے۔ آپ تصور کریں کہ ہماری نسل کے سب سے بڑے سانحے میں ہماری اجتماعی کارکردگی نے ہمیں فیل نہیں کر رہی اور آنے والی تاریخ، کہانیاں، نوولز اور سب سے بڑھ کر معاشرے کی گلٹ مستقبل کی نسل کو کیا دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments