بالی، بیما، لبوان باجو (قسط 3 )۔



Author: Douglas Adams

اگلی صبح ہم بالی کے لیے پرواز کر گئے جو وائلڈ لائف کے سب سے مشہور براڈکاسٹر سر ڈیوڈ ایٹن بوروح کے بقول دنیا کی حسین ترین جگہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں وہ بالی نہ مل سکا جو انہوں نے دیکھا تھا۔ جب سر ایٹن بوروح یہاں آئے تھے تو یہ جگہ یقیناً بہت مختلف ہوگی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے مقبول سیاحتی مقامات کی طرح بالی بھی برباد ہو چکا ہے۔ ہمیں اپنے اگلے سفر کے انتظامات کرنے کے لیے دو روز یہاں رکنا پڑا جو کسی سزا سے کم نہ تھا۔ کوتا کی تنگ گلیاں کیچڑ، دکانوں، گندے ہوٹلوں، گورے سیاحوں، جعلی گھڑیوں اور نقلی چشمے بیچنے والوں کے علاوہ کتوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ممکن ہے اس جزیرے کے اندرونی حصے ابھی بھی جنت نظیر ہوں، لیکن جہاں ہم تھے وہاں بلاشبہ داروغہ جہنم کی عمل داری تھی۔

میں بے ہودہ ٹی شرٹس میں ملبوس، بیئر پی کے غل غپاڑہ کرتے ہوئے برطانوی سیاحوں کو دیکھ کے شرمندہ ہو رہا تھا۔ لیکن مجھے احساس ہوا کہ وہ برطانوی نہیں بلکہ آسٹریلین تھے۔ ان کے حلیے اور حرکتیں بالکل ان برطانوی لفنگوں والی تھی جو آپ کو اکثر فٹ بال کے میچوں میں نظر آتے ہیں لیکن تھے وہ آسٹریلین۔

اس نے مجھے حیاتاتی ارتقا کے اس پہلو کے بارے میں سوچنے پہ مجبور کر دیا جس کے مطابق مختلف جانوروں میں یا مختلف ادوار میں ایک ہی طرح کی ارتقائی تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئے آئے کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ وہی لیمر جس کو میں نے مارک کے ساتھ مل کے تین سال قبل مڈغاسکر میں ڈھونڈا تھا۔ لیکن شاید آپ کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھوں یا اگلے پنجوں کی تیسری انگلی حیرت انگیز طور پہ پتلی اور باقی انگلیوں سے بہت لمبی ہوتی ہے۔ مگر کیوں؟ جواب نہایت آسان ہے، اس انگلی سے آئے آئے اپنے لئے پروٹین کا انتظام کرتا ہے جو اسے درختوں کی چھال میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑے فراہم کرتے ہیں۔

اب مڈغاسکر سے ہزاروں میل دور نیو گنی چلتے ہیں جہاں ایک جنگلی چوہا درختوں کی چھال کے اندر سے کیڑے مکوڑے نکالنے کا کام اپنے پنجوں کی چوتھی انگلی سے لیتا ہے جو باقی انگلیوں سے بہت لمبی اور پتلی ہوتی ہے۔ ان دونوں جانوروں کا تعلق بالکل مختلف نسلوں سے ہے اور ان کے درمیان کسی قسم کی کوئی رشتے داری نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے ہوا؟

ہد ہد کی وجہ سے۔ جی ہاں، آپ نے درست پڑھا ہے، اس کی وجہ ہد ہد ہی ہے۔ مڈغاسکر اور نیو گنی، دونوں جگہوں پہ ہد ہد نہیں پائے جاتے جس کا مطلب ہے کہ درختوں کی چھال کے پیچھے پایا جانا والا پروٹین کا خزانہ ضائع ہو رہا تھا۔ اس لئے دو مختلف ممالیہ جانوروں کو دو مختلف جگہوں پہ ایک ہی طریقے سے اس سے مستفید ہونے کا موقع مل گیا۔ ایک نے اپنی تیسری انگلی سے جو کام لینا شروع کیا، ہو بہو وہی کام دوسرا اپنی چوتھی انگلی سے کرتا ہے۔ اگر مقصد حاصل ہو رہا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ انگلی کا نمبر کون سا ہے۔

شام کو ہم کھانے کے لیے کوتا کے ایک ریسٹورنٹ میں ملے جہاں گلدانوں میں سجے پلاسٹک کے پھولوں کے رنگ گردوغبار اور مکھیوں کے فضلے کی تہوں کے پیچھے غائب ہو چکے تھے۔ مارک نے کہا، ”ہمیں ایک بکری کا انتظام کرنا پڑے گا“ ۔

”بکری؟“ ۔ گینور بولی۔

”مردہ بکری۔ مرنے کے تین چار دن بعد بکری سے ایسی زبردست بدبو آتی ہے جو ڈریگن دور سے سونگھ لیتے ہیں اور بھاگے آتے ہیں“ ۔

”یہاں؟“

”نہیں۔ لبوان باجو میں۔ یہ فلورز کے جزیرے پہ کوموڈو سے نزدیک ترین پورٹ ہے۔ وہاں سے کموڈو صرف بیس میل کے فاصلے پہ ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس مقام پہ جنوبی چین کا سمندر بحر ہند سے ٹکراتا ہے جس کی وجہ سے یہاں لہروں میں ہر وقت ایک طوفان بپا رہتا ہے۔ اس لیے یہ سفر انتہائی دشوار ہے۔ بیس میل کا فاصلہ طے کرنے میں بیس گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں“ ۔

گینور نے پوچھا، ”تمہارا مطلب ہے کہ ہم ایک بکری کی متعفن لاش کے ساتھ بیس گھنٹے تک متلاطم سمندر میں سفر کریں گے؟

”ہوں“ ۔ اس نے کہا۔ ”ایک چھوٹی سی کشتی میں“ ۔

اس کے بعد الفاظ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ کچھ دیر سب خاموشی سے اپنی اپنی پلیٹوں کو گھورتے رہے۔ پھر مارک بولا، ”بات دراصل یہ ہے کہ درست معلومات نہیں مل رہی۔ کموڈو کے بارے میں عجیب و غریب افواہیں اور کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ سچ، جھوٹ کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ لبوان باجو پہنچ کے ہی صورت حال کا صحیح اندازہ ہو سکے گا۔ کل صبح ہم ڈنپاسر ائرپورٹ سے بیما کی فلائٹ لیں گے اور وہاں سے کشتی پہ لبوان باجو جائیں گے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد فلائٹ میں تین سیٹیں ملی ہیں۔ ہمیں ائر پورٹ کے لیے صج جلدی نکلنا ہوگا۔ اگر فلائٹ مس ہوگئی تو نہ جانے کب تک بالی میں پھنسے رہیں۔“

ہم اگلی صبح ائرپورٹ پہنچے تو میدان حشر کے بارے میں جو کچھ سن رکھا تھا وہ دیکھ بھی لیا۔ لوگ مختلف سمتوں میں بھاگ رہے تھے، چلا رہے تھے، ایک دوسرے کے اوپر سے پھلانگ رہے تھے، سامان والی ٹرالیوں سے ٹکرا کے گر رہے تھے لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس سارے ہنگامے کا مقصد کیا ہے۔ جو شخص ابھی ابھی تیزی سے بھاگتا ہوا آپ سے ٹکرا کے دائیں جانب گیا تھا، وہی چند سیکنڈ بعد اس سے دوگنی رفتار سے بائیں جانب نظر آتا۔

اس دھکم پیل میں مارک کسی نہ کسی طرح چیک ان کاونٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا جہاں اسے بتایا گیا کہ ہمارے ٹکٹ کنفرم نہیں ہیں، اس لیے ہم بخوشی واپس جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ہمیں یہاں زیادہ مزہ آ رہا ہے تو کاونٹر سے دور ہٹ جائیں کیوں کہ ہماری وجہ سے کنفرم مسافروں کو تکلیف ہو رہی ہے۔

ہمیں یہ سفر شروع کرنے سے پہلے سمجھایا گیا تھا کہ انڈونیشیا میں کسی بھی قسم کے حالات سے نبرد آزما ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان پر سکون رہے اور ہرگز مشتعل نہ ہو۔ لہٰذہ ہم نے نہایت شائستگی سے چیک ان کلرک کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ ہماری ٹکٹوں پہ ”کنفرم“ لکھا ہوا ہے۔ اس پہ اس نے اتنے ہی اعتماد سے ہمیں بتایا کہ کنفرم لکھا ہونا ایک بات ہے اور سچی مچی کنفرم ہونا ایک یکسر مختلف بات ہے۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ، ”ٹریول ایجنٹ دراصل بڑے بدمعاش ہوتے ہیں جو اپنی جان چھڑوانے کے لیے ٹکٹ پہ کنفرم لکھ دیتے ہیں اور آپ جیسے معصوم لوگ اس کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔ ٓاس لیے اب آپ آرام سے واپس جا کے کل کی فلائٹ کے لئے کنفرم ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے بعد سارا دن مزے سے بالی کی سیر کریں۔ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کون سی بات ہے؟“ ۔

لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور چیک ان کاونٹر کے پیچھے واقع ائر لائن کے دفتر میں گھس کے عملے کے کسی سینئر رکن سے بات کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پہ ایک صاحب اپنی نشت سے اٹھ کے آئے، ہمارے ٹکٹ دیکھے، ہمیں مسکرا کے کہا، ”ایک منٹ“ اور ٹکٹ لے کے چلے گئے۔ ہم نے سوچا، کام ہو گیا۔ کافی دیر کے بعد وہ واپس لوٹے اور ہمارے ٹکٹ ایک خاتون کے حوالے کردیئے۔ خاتون نے ٹکٹ دیکھ کے کہا، ”ایک منٹ“ اور پھر وہ بھی چلی گئیں۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ واپس آئیں اور ہم سے پوچھا کہ آخر ہم لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟

اس دفعہ ہم نے کافی تفصیل سے انہیں اپنا مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی جس دوران وہ اثبات میں سر ہلاتی رہیں۔ ہماری بات ختم ہونے کے بعد فرمایا، ”ایک منٹ“ اور پھر چلی گئیں۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ہمارا صبر جواب دے گیا جس کا احساس دفتر میں موجود لوگوں کو ہمارے پیر پٹخنے اور دانت کچکچانے سے ہوا۔ اب کچھ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوئے جنہوں نے ہمیں آگاہ کیا کہ جس خاتون کا ہم انتظار کر رہے ہیں وہ تو جکارتہ چلی گئیں، اپنی والدہ سے ملنے۔

”اور ہمارے ٹکٹ؟“ ۔
”ٹکٹوں کا انہوں نے کیا کرنا تھا۔ یہیں ہوں گے۔ آپ کو چاہئیں؟“ ۔
”ظاہر ہے ہمیں ہمارے ٹکٹ چاہئیں۔ ہم نے لبوان باجو جانا ہے“ ۔

اس خبر سے دفتر میں کچھ سراسیمگی پھیل گئی جس کے نتیجے میں سارا عملہ منٹوں میں اپنی درازوں کو تالے لگا کے لنچ کے لیے چلا گیا۔

(جاری ہے )

اس سیریز کے دیگر حصےمڈغاسکر، آئے آئے (2)۔بیما، لبوان باجو، کوموڈو – قسط 4

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments