کپتان کے ایک دیوانے کی خود نوشت


میرا نام گل بخش ہے۔ ناقدین خاص کر نون لیگ کے حامی مجھے دیوانہ یوتھ کہتے ہیں۔ بچپن سے ہی کرکٹ کا شوقین تھا۔ عمران خان صاحب تو جنون کی حد تک پسند تھے۔ اپنے کمرے میں ان کی بے شمار تصاویر چسپاں تھیں۔ اکثریت سے میں ان تصاویر کے ساتھ کھڑے ہو کر سیلفیاں لیتا تھا۔ جب کبھی گھبراہٹ یا کوئی پریشانی ہوتی تھی تو بانوے کے عالمی کپ کی جھلکیاں بھی دیکھ لیتا تھا۔ یقین جانیں میں حیرت انگیز طور پر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا تھا۔

آج سے تقریباً 24 سال قبل یعنی 1996 میں خان صاحب نے سیاست میں قدم رکھا۔ بہت سے لوگوں نے لعن طعن کی مگر میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ ابا حضور کو نہ جانے مجھ سے کون سا بیر تھا۔ وہ میری اس جنونیت سے خائف رہتے تھے اور لگے ہاتھوں دو چار سنانے سے بھی گریز نہ کرتے تھے۔ ابا مجھے ”تاریخ“ کا مطالعہ کرنے کی تلقین کرتے تھے، پتا نہیں کیوں! مگر مجھے تاریخ پڑھنے میں ٹکے کی دلچسپی نہ تھی۔ تاریخ سے مجھے بھی اتنا ہی لگاؤ تھا جتنا میرے کپتان کو تھا۔

مگر مجھے بھی یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن میں ابا کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ کپتان نے بھی ایک جلسے میں فرمایا تھا کہ آپ نے اپنے باپ دادا کو بلے پر مہر لگانے کے لیے قائل کرنا ہے۔ ان کو سمجھانا ہے کہ میں ہی وہ واحد لیڈر ہوں جو پاکستان کو مشکل کی اس گھڑی سے نجات دلوا سکتا ہے۔ معلوم نہیں کہ اللہ کو ہماری کون سی نیکی پسند آ گئی ہے جو کپتان جیسے ہینڈسم لیڈر سے نوازا ہے۔ اور ابا ہی تو کہتے ہیں کہ ”لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے“ ۔ 1876 میں قائداعظم پیدا ہوئے اور 1952 میں جناب حضرت عمران احمد خان نیازی صاحب۔ تقریباً ایک صدی بعد۔ میں نے گویا اپنے تئیں کپتان کو ”بانی نیا پاکستان“ تسلیم کر لیا تھا۔

ایک دن ابا سے پوچھ ہی لیا کہ ”آخر آپ کپتان کی خدمات کا اعتراف کیوں نہیں کر لیتے؟ اگر کپتان چاہتے تو سکون سے لندن میں رہ سکتے تھے مگر عوام کے خاطر انہوں نے اپنا آرام پس پشت ڈالتے ہوئے سیاست میں آنا جائز سمجھا۔“ میں نے ڈرتے ڈرتے تیزی سے بات مکمل کی۔

ابا تھوڑا سا مسکرائے اور میری جانب متوجہ ہو کر کہنے لگے ”بیٹا! سیاست اور کھیل کا میدان دونوں متضاد چیزیں ہیں، جس طرح دنیا کا بہترین کھلاڑی بننا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے بالکل اسی طرح سیاست دان بننا بھی ہر کسی کا کام نہیں۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ہاں اگر خدمت کا جذبہ ہے تو اس کے لیے سیاست میں آنا ضروری نہیں۔ خدمت ویسے بھی کی جا سکتی ہے“ ۔ ابا کا فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔

یا پھر میں سمجھنے کو تیار ہی نہ تھا۔ کیونکہ میرے پاس بھی ابا کو لاجواب کرنے کی دلیل موجود تھی۔ ”انسان ہمت کرے تو کیا کچھ نہیں کر سکتا! کپتان کے پاس ایک وژن ہے۔ سب نے باریاں لگائی ہوئی ہیں۔ خان کو بھی ایک موقع ملنا چاہیے۔ اور پھر دنیا دیکھے گی“ ۔ میں نے کپتان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ابا کو ”سمجھانے“ کی کوشش کی۔ اور قدرے گرم جوشی سے اپنی بات مکمل کی۔ بات جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مزید کہا ”قوم کے خاطر ورلڈ کپ جیتا۔ اور تو اور کینسر ہسپتال بنایا غریبوں کے لیے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، کپتان کے اس قوم پر ان گنت احسانات ہیں“ ۔

ابا گویا ہوئے ”وہ سب ٹھیک ہے مگر زمین حکومت نے فراہم کی تھی“ ۔ یہی بات مجھے بہت ناگوار گزرتی تھی۔ مگر کیا کرتا؟ وہ بھی آخر کو میرے ہی ابا تھے۔ اپنے نظریے سے ٹس سے مس ہو نے کو تیار نہ تھے۔

وقت گزرتا گیا۔ کپتان کی شہرت میں بھی خاصا اضافہ ہوا اور میرے جوش میں بھی۔ میں ان کی تقریروں سے بہت متاثر تھا۔ خاص کر جب وہ چوروں، لٹیروں اور غداروں کو جس بے خوفی سے لتاڑتے تھے میں قسم کھا کر کہ سکتا ہوں کہ اگر کپتان اس وقت پیدا ہو جاتے تو پاکستان 1947 کے بجائے 1847 کو معرض وجود میں آ چکا ہوتا۔ اس بات کا اندازہ کپتان اور قائداعظم کی تصاویر کو جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں لیڈران کی شکلوں میں کس قدر مماثلت ہے۔ بھئی واہ! مگر دیر آئے درست آئے۔

کپتان نے ”نوجوانوں“ کا نعرہ لگا کر گویا میرے دل کی بات کر دی۔ کیونکہ پاکستان کی کل آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان ہی کسی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں، طاقت ور ہوتے ہیں اور دن رات کام کر کے پاکستان کو دیگر عالمی طاقتوں کی صف میں لا کھڑا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا میں نے با ضابطہ طور پر کپتان کی سوشل میڈیا بریگیڈ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں میٹنگ میں بتایا گیا کہ سوہنی دھرتی کے ”بہترین کل“ کے خاطر پاکستان کے چوروں، لٹیروں اور غداروں پر ٹویٹس، پوسٹس، ٹاپ ٹرینڈ کے ذریعے لفظی گولا باری کرنی ہے۔ جھوٹی سچی لگانا بھی جائز ہوگا۔

میں نے کام شروع کیا۔ چھانٹ چھانٹ کر ٹویٹس کرتا۔ کچھ گالیاں مجھے خود سے آتی تھیں اور کچھ کپتان کی تقریروں سے سیکھ لیں۔ بلا کا متاثر جو تھا کپتان سے۔ بس پھر کیا تھا۔ میری ہر ہر ٹویٹ پر لاکھوں لائکس اور شیئر آنے لگے۔ اس سے مجھے بہت حوصلہ افزائی ملی اور کام میں مزید نکھار آیا۔

اس دن تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جب کپتان کی جانب سے ”ویلڈن“ کا پیغام دیا گیا۔ یوں لگا جیسے دنیا میں آنے کا مقصد پورا ہو گیا ہو۔ میں جلد از جلد ابا کو اپنی کامیابی کی خوشخبری سنانا چاہتا تھا۔ وہ مجھ سے خائف رہتے تھے۔ شاید یہ سن کر خوش ہو جاتے، میں نے سوچا۔ گھر پہنچتے ہی میں نے ابا کو وہ پیغام پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ ”میرے نوجوان! مجھے تمہاری صلاحیتوں پر اعتماد ہے“ ۔ ابا نے طیش کے عالم میں مجھے دیکھا اور ”لاحول“ کا ورد کرتے ہوئے کمرے سے چلے گئے۔ امی جان کر مخاطب کیا اور رنج سے کہنے لگے ”تمہاری ڈھیل کی وجہ سے آج برخوردار ہاتھ سے نکل گیا“ ۔

سوشل میڈیا بریگیڈ کا حصہ ہونے کے ناتے ہم پر لازم تھا کہ کپتان کی ہر ”اقوال زریں“ کا دفاع کریں۔ بعض اوقات دفاع بہت مشکل بھی ہو جاتا تھا۔ جیسے ایک تقریب میں کپتان نے فرما دیا ”اللہ نے پاکستان کو بارہ موسموں سے نوازا ہے“ ۔ ”درخت رات کو آکسیجن خارج کرتے ہیں“ ۔ ”نو ملین ڈالر تقریباً ایک روپیہ کے برابر ہوتے ہیں“ ۔ جنرل اسمبلی میں کہ دیا کہ مودی انڈیا کا صدر ہے۔

مگر مجبور ہوں، روٹی کا سوال ہے، دفاع تو کرنا فرض ہے۔ مگر ان سب باتوں کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہم آخر اس بات پر اتنا کیوں اتراتے ہیں کہ ہمارا کپتان ”پرچی“ کے بغیر بات کرتا ہے۔ وہ تو ”بات“ کر جاتے ہیں مگر وزراء کے لئے اور ہمارے لیے قول کپتان کا دفاع کرنا عذاب ہو جاتا ہے۔ اب کی بار سوچا ہے کہ ابا حضور کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے تاریخ کا مطالعہ شروع کیا جائے تاکہ یہ جان سکوں کہ ”بانی پاکستان“ اور ”بانی نیا پاکستان“ میں واقع مماثلت ہے یا نہیں؟ پرچی سے پڑھنا زیادہ بہتر ہے یا بار بار ”یو ٹرن“ لینا۔ ابا اکثر جون ایلیا صاحب کا ایک شعر کہا کرتے تھے

کر کے ایک دوسرے سے عہد وفا
آؤ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دیر جھوٹ بولیں ہم
اب محسوس ہوتا ہے کہ ابا کا اشارہ میری ہی جانب ہوتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments