ہم جنسیت کا سوال


اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ”دنیا میں 1.7 فیصد لوگ دوہری جنس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔

فرائڈ کا کہنا ہے کہ ”میں نے کسی بھی ایک مرد یا عورت کا تجزیہ نہیں کیا جس میں ہم جنسی میلان موجود نہ ہو“ ۔ کرافٹ، ڈاکٹر مال اور پروفیسر مانٹا گینرا کے خیال میں ہم جنسی میلان خلقی اور عضویاتی ہوتا ہے۔

سٹائی ناخ نے تحقیق سے ثابت کیا کہ خصیتین اور بیضہ انثی ہارمون پیدا کرتے ہیں جو مردانگی اور نسوانیت کے ذمے دار ہیں اور جسمانی و ذہنی توانائی پیدا کرتے ہیں۔ پچوٹری غدود کے ہارمون پر خصیتین اور بیضہ کی مغالبت منحصر پے۔ ہر عورت کے جسم میں مردانہ ہارمون اور ہر مرد کے جسم میں زنانہ ہارمون موجود ہوتے ہیں۔ خواہ وہ کتنی ہی قلیل تعداد میں ہوں۔

ولہلم لٹیکل اور کلفورڈ ایلن کی تحقیق یہ ہے کہ ہم جنسیت خلقی نہیں ہوتی بلکہ نفسیاتی نظام میں خلل پیدا ہوجانے سے نمود پذیر ہوتی ہے۔

ہیو یلاک ایلس نے کہا کہ ہم جنسیت کسی بھی نفسیاتی مرض کی علامت نہیں ہے۔

ہم جنس پرستی کوئی نفسیاتی مرض نہیں ہے بلکہ یہ ایک قدرتی تبدل ہے۔ ہاں البتہ کچھ لوگ نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ ہم جنس پرستی کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ عضویاتی ہے دوسری نفسیاتی اور تیسری سماجی۔ جو لوگ عضویاتی طور پر ہم جنس پرست ہوتے ہیں ان کے جسم کی ساخت دوسروں سے قدرے مختلف ہوتی ہے یعنی ایک لیسبئن کا بظر واضح طور پر بڑھا ہوتا ہے اور اس میں مردانہ اوصاف پائے جاتے ہیں۔ جبکہ ایک گے میں نسوانیت پائی جاتی ہے۔

کچھ لوگ نفسیاتی وجوہات کی بنا پر ہم جنسیت کی طرف مائل ہوتے ہیں یعنی اگر کسی لڑکی کے ساتھ بچپن میں بدفعلی ہوئی ہو یا اس کا اپنا باپ سخت رویہ رکھتا ہو اور اس کی ماں کو مارتا پیٹتا ہو تو وہ لڑکی لاشعوری طور پر تمام مردوں سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ اور اس وجہ سے وہ پھر ہم جنسیت کو اپنا لیتی ہے۔

اب بات کرتے ہیں کہ لوگ سماجی وجوہات کی بنا پر کیسے ہم جنس پرستی کو اپناتے ہیں؟ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جیسے ہی بچے تھوڑے بڑے ہوتے ہیں والدین بچوں کو منع کرتے ہیں کہ بیٹا اب آپ بڑی ہو گئی ہو اب آپ نے لڑکوں کے ساتھ نہیں کھلنا۔ اسی طرح اور بہت سے کاموں سے منع کیا جاتا ہے۔ بچے یہ بات نوٹس کرتے ہیں کہ ہمیں ہماری جنس کے بچوں کے ساتھ سونے کھلنے سے منع نہیں کیا جا رہا، اس طرح ان کے ذہن میں یہ بات داخل ہوجاتی ہے کہ اپنی جنس کے ساتھ آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

جیسے ہی بچے بالغ ہوتے ہیں ان میں عجیب طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان کے اندر ایک جنسی کشمکش شروع ہوجاتی ہے اور پھر وہ اپنی ہی جنس کے ساتھ مل کر اپنی جنسی خواہش کی تسکین کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرد کو جنسی تسکین کے لیے مخالف جنس میسر نہیں آتی اور وہ پھر ہم جنسیت کو اپنا لیتا ہے۔

سمون دیوا لکھتی ہیں کہ ”ہم جنسی عورتوں کا اختلاط بظر کے مساحقے تک محدود ہوتا ہے۔ ایک نوجوان لڑکی مرد کے درشتی اور تند مزاجی سے خائف ہو کر اپنے آپ کو اپنی سے بڑی عمر کی عورت کے سپرد کر دیتی ہے۔ مردانہ قسم کی عورت میں اسے اپنے والدین کی جھلک دکھائی دیتی ہے اس طرح نوجوان لڑکی حقیقی تجربے سے روگردانی کر کے عالم خیال بسا لیتی ہے۔ اس کے یہاں تخیل اور حقیقت آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔“

جونز اور ہیسنارڈ کا کہنا ہے کہ لیسبین دو طرح کی ہوتی ہیں پہلی ”مسکولائن لیسبئن“ جو مردوں کی طرح کردار ادا کرتی ہیں، اور دوسری ”فیمینین“ جو مردوں سے خوف زدہ ہوتی ہیں۔

جو لوگ عضویاتی طور پر ہم جنس پرست ہیں ہمیں انہیں ایسے ہی قبول کرنا چاہیے اور انہیں ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے دی جانی چاہیے۔ اور وہ لوگ جو نفسیاتی یا سماجی وجوہات کی بنا پر ہم جنس پرست بنے ہیں انہیں اپنے لیے کوئی اچھا ماہر نفسیات تلاش کرنا چاہیے۔

لیسبئین اور گے وہ ہیں جو قدرتی اور عضویاتی طور پر ہیں۔ جو لوگ ضرورت کے تحت یا سماجی اور نفسیاتی طور پر ہم جنس پرست بنے ہیں وہ لیسبئین اور گے نہیں ہیں۔

لیسبئین اور گے ابنارمل نہیں ہیں بلکہ اقلیت ہیں۔ دیکھیں یہ لوگ اکثریت سے صرف جنسیت کے لحاظ سے ہی مختلف ہیں باقی ہنر فن اور ہر کام میں اکثریت کی طرح ہی ہیں۔ ماضی میں بے شمار ایسے فلسفی شاعر اور مجسمہ ساز ایسے گزرے ہیں جو ہم جنس پرست تھے تو کیا وہ ابنارمل تھے؟ نہیں وہ بس مختلف تھے جنسی اعتبار سے۔ افلاطون، ارسطو، سقراط، زینو فن اور لکنیس یہ سب ہم جنس پرست تھے۔ سیفو، میجلا اور فیلینس مشہور ہم جنس پرست عورتیں تھی۔

انسان کی برتری اور کم تری کا انحصار قابلیت پر ہونا چاہیے ناکہ جنسیت پر۔ خواجہ سرا، گے اور لیسبئن صرف جنسیاتی طور ہی اکثریت سے مختلف ہیں باقی سب کچھ تو ان کے پاس بھی وہی ہے۔ پھر ہم انہیں جنسی لحاظ سے مختلف ہونے کی سزا کیوں دے رہے ہیں؟ ہم ان سے ان کے جینے کا حق کیوں چھین رہے ہیں؟ اگر ایک آدمی کے لیے عورت کشش کا باعث ہے تو اس میں اس کا کیا کمال ہے؟ اور اگر ایک آدمی کے لیے ایک عورت کشش کا باعث نہیں ہے تو اس میں بھی اس کا کیا قصور ہے؟ کوئی بھی کسی سے اس کی مرضی کے بغیر اپنی خواہش پوری نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ایک سماجی جرم ہے۔ ایک گے کو ایک عورت کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس کے اپنے لیے اور اس عورت کے لیے بھی اذیت ناک ہوتا ہے۔

ہمیں ان لوگوں کو ضرور روکنا چاہیے اور سمجھانا چاہیے جو نفسیاتی وجہ یا کسی اور وجہ سے ہم جنس پرست بن رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ چیز آگے چل کر ان کے لیے بے شمار مسائل پیدا کرے گی۔ اپنے بچوں کو اسپیس دیں انہیں بولنے کا موقع دیں انہیں سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اور آپ آنے والے مسائل سے بچ سکیں۔ خواجہ سرا اور ہم جنس پرستوں کو قبول کریں۔ میں نے بہت سے ہم جنس پرستوں کو خودکشی کرتے دیکھا ہے۔ خدارا انسانی جان بہت قیمتی ہے۔ لوگوں کو اتنا مجبور مت کریں کہ ان کے پاس سوائے خودکشی کے کوئی اور چارہ ہی نہ بچے۔ جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو۔

فرقان علی فریاد
Latest posts by فرقان علی فریاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments