چین میں آٹھ سال (قسط 2 )۔


احفاظ نے تو کچھ دنوں بعد با قاعدگی سے دفتر جانا شروع کر دیا تھا، بچے بہت چھوٹے تھے اس لئے انہیں اسکول لے جانا اور واپس لانا ہماری ذمہ داری ٹھہری۔ اسکول بہت دور سفارتی علاقے میں تھا اور ہمارے پاس اپنی سواری بھی نہیں تھی۔ سردی کی شدت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا تھا۔ ہمارے علاقے سے صرف 302 نمبر کی بس اسکول والے علاقے کی طرف جاتی تھی۔ ہمارے اسٹاپ کا نام عقب میں واقع یونیورسٹی کی وجہ سے رین من تا شوئے تھا۔

دوسرے روٹس کی تین چار بسیں آتیں تو پھر کہیں جا کے ہماری ایک بس آتی۔ یہ لمبی لمبی بسیں عورتیں بھی چلاتی تھیں اور کنڈکٹر تو عام طور پر عورتیں ہی ہوتی تھیں۔ ڈرائیور کے لئے بس کا دروازہ بند رکھنا لازمی تھا۔ اور جب دروازہ بند ہو جاتا تھاتو مسافر واقعی ماچس کی ڈبیا میں تیلیوں کی طرح بھر جاتے تھے لیکن سردی کی وجہ سے یہ رش گوارا تھا اور ہمارے غش کھاکے گرنے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔

ہم ٹھہرے کراچی والے، سردی کی عادت نہیں تھی مگر وہاں یہ حال تھا کہ پانچ سالہ رمیز کو پہلے سوتی پاجامہ، اس کے اوپر اونی پاجامہ اور پھر یونیفارم کی پینٹ اور شرٹ اور سوئٹر کے ساتھ اونی ٹوپی کے اوپر ایک اور ٹوپی کے ساتھ والی موٹی جیکٹ پہنا ئی جاتی، ہاتھوں میں اونی دستانے اور اونی جرابوں اور گرم کپڑے کے جوتوں کے ساتھ جب وہ چلتے تھے تو لگتا تھا کوئی خلا نورد کشش ثقل کی عدم موجودگی میں چاند پر چہل قدمی کر رہا ہے۔

میں انہیں اسٹرونوٹ ہی کہنے لگی تھی۔ فیفے ان سے چار سال بڑی تھیں اورگرم کپڑوں کے معاملے میں من مانی کرتی تھیں اور اکثر زکام میں مبتلا پائی جاتی تھیں۔ بسوں میں ہیٹنگ نہیں ہوتی تھی، اس لیے اگر ہم کبھی دستانے یا گرم جوتے پہننا بھول جاتے تھے تو ہاتھوں پیروں میں سردی کی وجہ سے مرچیں لگنے لگتی تھیں۔ بہر حال بس نمبر 302 میں سفر کرنا ہمارے لئے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا تھا کہ واقعی دفعہ 302 کے تحت ہمیں سزا سنا دی گئی ہے۔

احفاظ بھی ہماری وجہ سے پریشان ہو جاتے تھے۔ کہنے کو تو چین میں کھلے دروازے کی پالیسی کا آغاز ہو چکا تھا مگر ابھی درامدی اشیا اور گاڑیوں کی ریل پیل شروع نہیں ہوئی تھی۔ بہر حال ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی کی تلاش شروع ہوئی اور ایک غیر ملکی جاتے ہوئے اپنی آٹو میٹک گئیر والی ٹو یوٹا گاڑی ہمارے ہاتھ بیچ گئے گو کہ کاغذات پورے نہیں تھے لیکن کچھ عرصہ کام تو چلانا تھا۔

ہم ٹھہرے کالی چائے کے عادی۔ بیجنگ پہنچ کے دو چار دن چائے پینے کو نہیں ملی تو ہماری تو حالت غیر ہو گئی۔ پھر سفارت خانے والوں نے بتایا کہ ایک چینی چائے کا ذائقہ ہماری کالی چائے سے ملتا جلتا ہے چنانچہ وہ خرید کے لائے۔ کراچی میں ہم چینی کھانوں کے دیوانے تھے اور ہمارا یہی خیال تھا کہ بیجنگ میں چینی کھانے ہی کھائیں گے مگر وہاں جا کے پتا چلا کہ کراچی کے ہوٹلوں میں ملنے والے چینی کھانے بیجنگ کے کھانوں سے بالکل مختلف تھے یعنی کہ ہم کھا نہیں سکتے تھے۔

اہالیان بیجنگ پھیکے سیٹھے کھانے کھاتے ہیں جب کہ سیچھوان والے مرچیں کھاتے ہیں۔ ہماری دالیں اور بیسن بھی وہاں نہیں ملتا تھا۔ سفارت خانے والے دریافت کر چکے تھے کہ قریبی گاؤں میں گھوڑوں کو کھلائی جانے والی دال کا ذائقہ ہماری چنے کی دال سے ملتا جلتا ہے چنانچہ وہ دال چکی میں پسوا کے لے آتے تھے اور پکوڑے اور کڑھی بنانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ بازاروں میں ایک آدھ قسم کی سبزی ہی نظر آتی تھی۔

ہم جس دور میں چین گئے وہ خود چینیوں کے لئے بھی حیرت انگیز تبدیلیوں کا دور تھا۔ ذرا سوچئے جس قوم نے 1949 سے 1976 تک صرف نیوی بلیو رنگ کا ماؤ سوٹ پہنا ہو، اسے دینگ سیاؤ پنگ کی نئی پالیسی کی بدولت رنگ برنگے کپڑے پہننے کی آزادی میسر آ گئی تھی۔ روز ایک نئے تبدیلی دیکھنے میں آتی تھی۔ کسانوں کو زمین نجی ملکیت کے طور پر دی گئی تو مارکیٹ میں طرح طرح کی سبزیاں اور پھل نظر آنے لگے۔ لوگوں کو نجی کاروبار کی ریاست کی سر پرستی میں اجازت مل گئی۔

اس سے پہلے زرعی کمیون ہوتے تھے۔ خواہ ایک کسان کم محنت کرے اور دوسرا زیادہ، پیداوار سب میں برابر تقسیم ہوتی تھی لیکن دینگ حکومت لوگوں کو INCENTIVES دینے میں یقین رکھتی تھی۔ شاید یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ بغیر ذاتی فائدے کے کوئی کام نہیں کرنا چاہتا، اولیائے کرام کی بات دوسری ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے ( اور آپ کو اس سے اختلاف کا پورا حق ہے ) کہ اندھی مساوات قائم کرنے کی کوشش کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ دکانوں میں سیلز ویمن کا بیزار کن رویہ اس لئے تھا کہ انہیں پتا تھا کہ انہیں تنخواہ اور دیگر سہولتیں ملتی رہیں گی خواہ ان کی دکان سے کوئی چیزیں خریدے یا نہ خریدے۔

مارکیٹوں میں صرف ایک آدھ سبزی اس لئے نظر آتی تھی کہ زرعی کمیونوں کے تحت کام کرنے والے کسان جانتے تھے کہ خواہ وہ کم کام کریں یا زیادہ، حکومت کی طرف سے سب کو یکساں سہولتیں ملتی رہیں گی۔ بہرحال مثبت پہلو بھی بہت تھے یعنی حکومت کی طرف سے ہر ایک کو رہائش، تعلیم اور روزگار کی ضمانت حاصل تھی۔ ان کا نظام مرکزی منصوبہ بندی کے تحت چلتا تھا، اس لئے حکومت جانتی تھی کہ آنے والے سالوں میں کس شعبے میں کتنی اسامیاں نکلیں گی چنانچہ یونیورسٹیوں میں اس شعبے میں طلبہ کی اتنی تعداد کو ہی داخلہ دیا جاتا تھا۔

اس سیریز کے دیگر حصےچین میں آٹھ سال (پہلی قسط)۔چین میں آٹھ سال – تیسری قسط

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments